تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے ملتے ہیں جو علم دوست ہوں اور ساتھ ساتھ اچھے منتظم بھی ہوں، ہمارے زمانے میں تعلیم حاصل کرنا، علوم تک رسائی حاصل کرنا، اپنے لئے روزگار کے مواقع تلاش کرنا اور معاشرے میں ایک کامیاب فرد کی حیثیت سے خود کو منوانا ایک معرکے سے کم نہیں ہے ۔ لہٰذا اس نفسا نفسی کے دور میں کامیابیوں کے راستے میں جہاں رہنمائی کا فقدان ہے وہاں کسی ابھرتے ہوئے ستارے سے حسد کرنے والے اور اس کے راستے میں روڑے اٹکانے والوں کی کمی نہیں ہوتی۔ آج میں اپنے دور کے ایک کامیاب انسان کی زندگی کے چند گوشوں کو احاطہء تحریر میں لانے کی کوشش کروں گا، میری مراد ماہنامہ نوائے منزل لاہور کے چیف ایڈیٹر اور کیڈٹ کالج سکردو کے لکچرر (اردو) جناب محمد کامران اختر ہیں۔ جیسا کہ ان کی اور میری پہلی ملاقات کا تفصیلی احوال ایک بار نوائے منزل میں چھپ چکا ہے لہٰذا اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے پھر بھی میں اس تعارفی کہانی کو سن 2009ء کے اکتوبر ہی سے شروع کروں گا۔ اس وقت کامران صاحب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی۔اے (ماس کام) کے تیسرے سمسٹر میں زیرِ تعلیم تھے اور ایک مقامی اکیڈمی میں پڑھانا شروع کررکھا تھا، 2010ء میں میرے بی۔اے کے امتحانات بھی ہونے والے تھے،لیکن جناب کا دعویٰ ہے کہ وہ مجھ سے چھوٹے ہیں ان کی ذہنی پختگی دیکھ کر کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ وہ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں۔ بہرحال سن 2010ء سے ماہنامہ نوائے منزل کا آغاز ہوا،یہ نومبر کا مہینہ تھا۔ رجسٹریشن کے قواعد و ضوابط کے مطابق میگزین کی پہلی اشاعت اکتوبر سے شروع ہوجانا لازمی تھی لہٰذا پہلے رسالے کو دونوں مہینوں کا اکٹھا رسالہ متصور کیا گیا اور اس کی پیشانی پر اکتوبر، نومبر 2010 لکھا گیا۔
کامران نے میٹرک کے بعد کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم کا ایک ڈپلومہ کر رکھا تھااور بی ۔اے سے پہلےڈی۔ کام، سی۔کام کیا ہوا تھا اور بی۔اے کے ساتھ ساتھ وہ ہومیو پیتھی کا کورس (DHMS) بھی کررہے تھے بلکہ ایک مقامی کلینک میں اس کی پریکٹس کے لئے بھی جاتے۔ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم انہوں نے میانوالی کے کسی کالج سے حاصل کی تھی اور ان کےبقول وہاں کے مقامی اخبارات سے انہوں نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔ اپنا ایک رسالہ شائع کرنا اُن کا ایک دیرینہ خواب تھا جس کی تعبیر انہوں نے دیکھ لی، وہ صحافت کو ایک مقدس مشن قرار دیتے ہیں جبکہ اسے ایک پیشہ بنا لینے والوں سے تھوڑا سا شکوہ کناں بھی ہیں۔ 2012ء میں جب میں ایم۔اے اردو کی تیاری کررہا تھا تو کامران نے مجھے ایک بار کہا کہ ہائی سکول کی تعلیم کےدوران، میں ایک ڈائری نما کتاب لکھتا تھا جس کا نام ”ادب ِاختر“ تھا، قادری صاحب! اگر آپ اس کتاب میں لکھے تمام الفاظ کے معانی بتانے کا دعویٰ کرسکتے ہیں تو میں آپ کو ایم۔اے اردو پاس قرار دے سکتا ہوں۔ اُس وقت وہ کتاب لاہور میں موجود نہ تھی لیکن مجھے معلوم تھا کہ میں اُس میں درج تمام اردو الفاظ کے معانی بتانے کا اہل نہ تھا، میں نے کامران سے کہا کہ ایم۔اے اردو میں الفاظ معانی نہیں ہوتے (کامران صاحب ان دنوں ماس کمیونیکیشن میں ایم۔ ایس۔ سی کا آغاز کر چکے تھے)، انہوں نے کہا کہ جو بھی ہے اگر آپ اُس کتاب کی وضاحت کردیتے تو میں آپ کو آج ہی ایم۔ اے اردو پاس مان لیتا۔ درحقیقت کامران اختر کی اردو کافی اچھی ہے جس کا ہمیں پورا پورا اعتراف ہے، وہ بولتے بھی اردو ہیں۔ ہم چونکہ پنجابی بولنے والے ہیں لہٰذا ہمارے لئے اردو بولنا ایک فیشن ہے لیکن کامران کے لئے یہ عادت ہے۔ ویسے بھی ان کی مادری زبان اٹک کی پوٹھوہاری یا اسی طرح کا کوئی لہجہ ہے لیکن کبھی کبھی وہ ماجھی لہجہ بھی اچھا بول لیتے ہیں اور سرائیکی وغیرہ کے لہجوں سے بھی سمجھ لینے کی حد تک مانوس ہیں البتہ ہمارے سادہ لوح دوست انہیں ایک پٹھان سمجھتے ہیں جبکہ شاید کامران کو پشتو زیادہ نہیں آتی ہو، پچھلے دو سال سے ان کے کالج کے رفقاء میں پختون لوگ ایک بڑی تعداد میں ہیں اس وجہ سے ہوسکتا ہے کہ روزمرہ کے چند ایک الفاظ آتے ہوں۔
کامران نے میرے دیکھتے ہی دیکھتے ایم۔اردو بھی کھڑکا لیا اور لاہور سے سکردو کو جست بھرلی، ماس کام بھی ہوگیا، ڈی ایچ ایم ایس کے بعد بی ایڈ بھی کرلیا۔ لاہور کے چند نامور سکولوں میں تدریس بھی کرلی جس کا آغاز لاہور سکول آف ایکسیلینس سے ہوا تھا پھر لاریل بینک سکول اور آخر میں کِپس میں بھی تدریس کرلی۔ ان سکولز کے علاوہ کئی اکیڈیمیز میں بھی تدریسی فرائض سرانجام دیتے رہے اور پھر ایک دن بستہ باندھ کر شمالی علاقہ جات کی طرف چل نکلے اور کوہِ ہمالیہ اور کوہِ قراقرم کے سنگھم پر جا کر رُکے۔ چین کے ہمسایہ ہونے کے باوجود کامران صاحب پاک سرزمین میں تدریس کرتے ہیں انہیں حب الوطنی کا جذبہ گھٹی میں ملا ہے ان کی اتنے طویل فاصلے پر جدائی مجھے تڑپاتی ہے، مجھے وہ کامران بھی یاد جسے لوگ صرف اس لئے بلانا چھوڑ دیتے تھے کہ مبادا کھانا کھلانا پڑ جائے گا۔ اور وہ کامران بھی یاد ہے جس کے لئے لوگوں کے دروازے آج ایک عرصے سے منتظر ہیں، اور آج لوگ کامران سے اُدھار لینا بھی فخر سمجھتے ہیں۔ شاید میرے لئے ان کی لاہور میں موجودگی ایک ٹرانسفارمر یا مہمیز کا کام دیتی ہے جب یہ سکردو چلے جاتے ہیں تو میرا لکھنے کا تخلیقی کام رُک جاتا ہے جب سردیوں میں یہاں تشریف لاتے ہیں اور میں پٹڑی پر آنے لگتا ہوں تو یہ پھر پرواز کر جاتے ہیں۔ زندگی ایک ”چڑیوں کا چنبہ“ ہے جس میں ہر کسی کی ایک لمبی "اڈاری“ ہوتی ہے۔ لیکن ایک بار اڑان بھر لینے والے کو کون روک پایا ہے، موت تو بار بار کی جدائی سے پڑتی ہے۔ جب کامران اختر لاہور سے نکل کر سکردو کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو دل کئی وسوسوں کا شکار ہوجاتا ہے کیونکہ اکثر ان پہاڑوں کی طرف جانے والے راستوں میں ہی دفن ہوجاتے ہیں ایک بار کامران اُدھر سے واپس آرہے تھے تو کہیں ان کے موبائل کے سگنل ڈراپ ہوگئے اور راولپنڈی سے محترمہ طاہرہ نسیم نے مجھ سے رابطہ کرکے پوچھا کہ کامران کا کچھ اَتا پتا ہے۔ حالانکہ راولپنڈی ان پہاڑوں میں ہے جدھر سے کامران آ رہے تھے لیکن خیر کی امید میں لاہور سے رابطہ کرکے اپنے دل کو ڈھارس بندھائی جا رہی تھی۔ 26 اکتوبر 2015ء کو زلزلہ آیا تو مجھے کوئی بھی یاد نہ آیا میں نے صرف کامران کا نمبر ڈائل کرکے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ وہاں کیا ہوا؟ ان کا نمبر بند تھا پھر تھوڑی دیر تک ان کے میسیج آنا شروع ہوگئے تو تسلی ہوئی کہ وہاں خیریت تھی۔
اب کامران صاحب خیر سے ایم۔ایڈ کے امتحانات دے رہے ہیں اور تیسرے ایم۔اے کے لئے پر تول رہے ہیں کچھ مسائل کی وجہ سے ان کا ایم۔فل ابھی شروع نہیں ہوا۔ آج کے دور میں جو بندہ پرائمری پاس کرکے چار دن کسی ڈسپنسر کو چائے پانی پلا دیتا ہے وہ بھی اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھتا ہے لیکن کامران نے ڈی ایچ ایم ایس کے بعد بھی یہ سابقہ اپنے نام کے ساتھ نہیں لگایا شاید وہ پی۔ایچ۔ڈی کے بعد لگانا پسند کریں۔ کامران صاحب تقریر کرتے ہوئے من و عن ڈاکٹر طاہرالقادری دکھائی دیتے ہیں ممکن ہے وہ مستقبل کے ”طاہرالقادری“ ہو جائیں۔
ان کی بہت سی کامیابیاں ہیں جنہیں صرف اس ایک مضمون میں نہیں سمویا جا سکتا لیکن گزشتہ روز ، وہ اپنی ملازمتیں حاصل کرلینے والی صلاحیت کا راز فاش کررہے تھے۔ انہیں کبھی کہیں سے یہ فقرہ سننے کو ملا تھا کہ نوکریاں کیوں نہیں ملتیں لوگ سی۔وی جمع کرواتے نہیں اور گھر بیٹھتے سفارش اور رشوت کو کوستے رہتے ہیں۔ تب سے کامران نے، انٹرنیٹ سے اور جہاں سے بھی خالی آسامیوں کا پتہ چلا، وہاں اپنا سی۔وی بھیجا خواہ وہ ڈاک کے ذریعے، دستی یا پھر انٹرنیٹ کے ذریعے لیکن سی۔وی وہاں تک ضرور پہنچایا۔ اس کے بعد نوکریاں قطار میں لگ گئیں اور کامران اپنی مرضی سے ان کا انتخاب کرتے رہے اور چھوڑ کر آگے بڑھتے رہے۔ آج اس کامیاب نوجوان کی زندگی سے یہی درس ملتا ہے کہ مسلسل محنت اور جدوجہد کی جائے اور حتی الامکان ہر کوشش کی جائے کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے تو کامیابیاں ہمارا مقدر بنتی ہیں۔