بدھ، 30 مئی، 2012

بچوں کی تعلیم وتربیت

بچوں کی تربیت کا مرحلہ والدین کے لئے ازل سے ہی کٹھن ہی رہا ہے۔ لیکن ہمارے آج کے دور کے بچوں کے بگاڑ کے پس منظر میں والدین کا بچوں کو بے جا لاڈ اور اُن کی جائز و ناجائز خواہشات کی تکمیل بھی ایک خاص وجہ ہے۔ بچے چونکہ تازہ و شگفتہ پھوٹتی ہوئی کونپلیں ہوتے ہیں اس لئے ان کو جس راہ چلادیا جائے اسی پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ اگر ان کے جذبات کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی فکری و عملی تربیت سنجیدہ افکار کی بنیادوں پر استوار نہ کی جائے تو معاشرے کے لئے بوجھ بن جاتے ہیں اگر کل کو انہیں زمانے کی سختیاں جھیل کر عظیم انسان بننا ہے تو آج ان کوآنے والے وقت کی پیچیدگیوں سے آگاہ کرنا ہوگا جن ماؤں نے اپنے بچوں کی ٹھوس بنیادوں پر تربیت کی ان کو تاریخ ہمیشہ سلام کرتی رہے گی۔ آج سہولیات اور آسائشوں سے مزین دور ہے تو پھر بھی بچے تعلیمی سرگرمیوں میں خاطر خواہ کا میابیاں حاصل کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟ شہروں میں والدین بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے پیسے کو پانی کی طرح بہارہے ہیں مگر ان کو متوقع جوابی کاروائی میسر کیوں نہیں آرہی؟ آپ فوج، سول، عدلیہ اور اہل علم اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں جھانک کر دیکھ لیں اکثر دیہاتی لوگ ہی کیوں کامیاب نظر آتے ہیں؟ کیا انہیں شہر والوں کی نسبت زیادہ سہولیات میسر تھیں؟ کیا وہ انگلش میڈیم اداروں کی فیسیں برداشت کرسکتے تھے؟ وہ افراد تو ان خستہ حال سکولوں میں پڑھے ہوتے ہیں جن میں ٹاٹ تک بھی تک بھی میسر نہیں ہوتا۔ اور وہ اپنے گھروں سے کھاد اور چینی والے خالی تھیلے لے جا کر ان پر بیٹھ کر زیور تعلیم سے آراستہ ہوئے ہوتے ہیں۔ بعض پسماندہ علاقوں میں گیارہ گیارہ سکولوں کو کنٹرول کرنے والے سرکاری اساتذہ (انچارج ہیڈ ماسٹر) صرف میٹرک پاس ہوتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ کامیابی دیہاتیوں کے ہی قدم چومتی ہے؟ جواب بالکل آسان ہے کہ ان کی طبیعت میں جفا کشی کوٹ کوٹ بھری ہوتی ہے۔ وہ فجر کی نماز سے پہلے جاگ کر اپنے گھر اور کھیت کے کام کاج سنوارکر پھر ناشتہ کرتے اور بعد میں عازم مکتب ہوتے ہیں۔ وہ صبح آٹھ بجے اُٹھ کر اور جوتوں کے تمسے باندھ کر ائیر کندیشنڈ کلاسز میں براجمان نہیں ہوتے۔ بلکہ 32,32 کلومیٹر یا75, 75 کلومیٹر تک بسوں کے دھکے کھاکر بغیر جیب خرچ کے تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ وہ شام کے وقت بھوک سے نڈھال گھروں لوٹتے ہیں جہاں درجن بھرکاموں کی فہرست ان کی منتظر ہوتی ہے۔ وہ ان سے کو نمٹا کر شام کو سکول کا کام(ہوم ورک) مکمل کرتے ہیں وہ محنت کے عادی ہوتے ہیں اور ان کے والدین ان کو اساتذہ کا احترام سکھاتے ہیں۔ وہ سکول سے جھیلی ہوئی سزا کا گھر میں تذکرہ کرنا باعث ننگ و عار سمجھتے ہیں جبکہ یہاں شہروں میں تمام تر حالات برعکس ہیں۔ گھر میں ہمہ قسم کی سہولیات کے میسر ہونے کے باوجود بچے نہ ہی پڑھنے کے عادی بنائے جاتے ہیں اور نہ ہی ان کو معاشرے میں کسی فرد کا احترام کرنا سکھایا جاتا ہے۔ والدین اور اساتذہ ان تمام معاملات کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ مگر اساتذہ کو تو یہ موقع ہی فراہم نہیں کیا جاتا کہ وہ بچوں کو ادب سکھا پائیں۔ اور والدین کا کہنا خود بخود نہیں مانتے۔ اگر آج ہمارے بچوں میں استاد کی باتوں کو غور سے سن کر ان پر عمل کرنے کا شعور حاصل ہوجائے۔ تو وہ ماں باپ کے بھی مؤدب بن جائیں گے۔ اور معاشرے کے بھی بہترین افراد ثابت ہوسکتے ہیں۔ پاکستانی حکومت کی پالیسی ’’مار نہیں پیار‘‘ کی مثال یورپ کے کسی سرد ملک کے پودے کی مانند ہے جس کو اگر ایشیاء کے تپتے ریگستان میں بویا جائے تو وہ دھوپ کی شدت سے مرجھا جائے گا۔ ہمیں بچوں کو جسمانی سزا دینے کا ہرگز متحمل نہیں ہونا چاہئے مگر بچوں کو اساتذہ کے سر پر یوں سوار کر دینا (کہ وہ خود سیکریٹری کو کال کریں) انہی بچوں کے مستقبل کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔ ماہرین تعلیم اور فلاسفرز نے جسمانی سزا کی حوصلہ شکنی اور ممانعت ضرور کی ہے۔ لیکن ان کو معاشرے کے لئے ناسور بنا دینے والے لاڈ و پیار کی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ آج یورپ اور امریکہ کے بچے اضطرابی کیفیات کا شکار ہوکر منشیات اور دیگر برائیوں کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ وہ ترقی یافتہ اقوام اپنے بچوں کو سُدھار نہیں پا رہیں۔ کیونکہ انہوں نے بچوں کو معاشرے کا، قانون کا، استاد اور والدین کا احترام نہیں سکھایا ہوتا۔ آج ہمیں اپنے بچوں کی تربیت کے مطالعہ کے لئے یورپی و امریکی استعماری اقوام کے گھناؤ نے ہتھکنڈوں پر عمل پیرا ہونے کی بجائے اپنے اسلاف سے فیضان نظر کا بھولا ہوا درس دوبارہ یاد کرنا ہوگا۔
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو اداب فرزندی
ہمیں چاہئے کہ اپنے نونہالوں کو بڑوں کی عزت کا درس دیں۔ اور اساتذہ اور والدین بھی شفقت نبوی ﷺ سے سبق حاصل کرکے پیار و محبت کا عملی نمونہ پیش کریں۔ کیونکہ:
کتابوں سے نہ کالج کے ہے درسے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
آج کے والدین کے لئے ضروری کہ وہ بچوں کو ’’کھلائیں سونے کا نوالہ لیکن دیکھیں شیر کی آنکھ‘‘ ورنہ یہی بچے اپنے والدین کو اولڈ ہاوسز میں چھوڑ کر ان کے تمام لاڈ اور بھاری فیسیں بھول جائیں گے اور ہم کف افسوس ملتے رہ جائیں گے۔ اور ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق کی توفیق ازرانی فرمائے۔ آمین 

منگل، 15 مئی، 2012

تعلیمی تنزلی آخر کیوں؟ عبدالرزاق قادری

ہم تعلیمی زبوں حالی کے دور سے گزر رہے ہیں لیکن اُمید کا دامن چھوڑنا یا مایوس ہو جانا بلند ہمت قوموں کا شیوہ نہیں ہے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ علمی کام کرنے والے افراد وسائل کے منتظر نہ رہے اورنہ ہی وسائل کی عدم دستیابی ان کے راستے کی رکاوٹ بن سکی۔ آج کا بچہ دس جماعتیں (میٹرک) تو پاس کرلیتا ہے لیکن اُس کے اَفکار میں کوئی طلاطم برپا نہیں ہوتا۔ وہ اپنی منازل سے بے خبرہوتا ہے، اسے اپنے مستقبل سے آگاہی حاصل نہیں ہوتی، وہ اپنے تابناک ماضی سے رُوشناس نہیں ہوتا۔ جغرافیہ کی مد میں اُسے پاکستان کے صوبوں، شہروں اوراضلاع کا بھی علم نہیں ہوتا، اسے موجودہ دورمیں ٹی وی سکرین پر نظر آنے والے فنکاروں کی لسٹیں تو اَزبر ہوتی ہیں مگر اپنے اَسلاف میں سے عظیم تاریخی ہستیوں سے شناسائی نہیں ہوتی اورہمارے گریجویٹ طلباء کو عصری بین الاقوامی معاشیات، سائنس اورٹیکنالوجی کی توضرورخبر ہوتی ہے مگرافسوس! انہیں مسلمان ہوتے ہوئے بھی اپنے عظیم تاریخی محسنوں، سکالرز، سپہ سالار اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ تاریخی شخصیات کے نام تک معلوم نہیں ہوتے۔ وہ سرسید کو ایک مصلح کے طور پر جانتے ہیں تو کیا انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم اصلاحی تحریک اور بے دریغ قربانی بھی صفحۂ تاریخ کا عظیم حصہ ہے۔ آج کا ماسٹر ڈگری ہولڈر ناز و نخرے اور فخر سے ٹوٹی پھوٹی انگریزی تو بول لیتا ہے مگروضو اورغسل کے مسائل نہیں بتا سکتا۔ اگر وہ انگریزی کو ہی ترجیح دیتے ہیں تو کم از کم انگلش گرائمر پر عبور ہی حاصل کر لیا ہوتا اور ان کی زبان میں روانی ہوتی۔ تو کہنے دیجئے:
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم​
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
ہمارے بچوں کا تعلیمی معیار اتنا کیوں گر چکا ہے ۔۔۔ ؟ کیا ان کو قابل اساتذہ میسر نہیں ہیں۔۔۔ ؟ یا پھر وہ سیکھنا ہی نہیں چاہتے۔۔۔ یعنی ان کا مقصد صر ف حصول ڈگری ہی ہے ۔۔۔ وہ انقلاب آفریں شخصیات بننے کے لیے ذہنی اورعملی طور پرتیار کیوں نہیں ہو پاتے۔۔۔ ؟ وہ معاشی اورجدید سائنسی مصلحین کے ساتھ ساتھ امام غزالی کے اسلامی فلسفہ سے واقف کیوں نہیں ہوتے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس قوم کی قیادت اورمعماری انہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو خود فکری طور پر اغیار کے غلام ہیں۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے۔ بچوں کی ذہنی پرورش بھی ویسی ہی ہو گی۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں:
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اُس کی خودی کو​
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر
کیا یہ لوگ نونہالان چمن کی آبیاری کرسکیں گے۔۔۔ ؟ جوکہ اَرسطو، افلاطون، سکندرِ یونانی اوراَتا ترک جیسے فلاسفرز کے پیروکار ہیں۔ کیا وہ ان خوبیوں کے حامل ہیں کہ قوم اپنی تمام توقعات کو ان کے رحم وکرم پر چھوڑ کرخواب خرگوش میں محو ہو جائے۔ آج کہا جاتا ہے کہ معاشی پسماندگی کودور کئے بغیر تعلیمی پستی کودورکرنے کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ کیا تاجدارِ مدینہ ﷺ اورآپ کے تمام غلاموں نے کبھی صرف وسائل ظاہری پرتکیہ کیا تھا۔۔۔؟ یا دنیوی وسائل کے ساتھ توکل علی اللہ پر بھی عمل پیرا تھے؟ کیا ابن علی رضی اللہ عنہما وسائل کوساتھ لے کرمیدان کرب و بلا میں تشریف لائے تھے؟ آج ہم لوگ کس قدر غلط فہمی کا شکار ہیں ؟ کیا قومیں کبھی اعلیٰ افکار سے مزین ہوئے بغیر عملی انقلاب برپا کرسکتی ہیں۔۔۔؟ آج لوگ ہمیں تباہی وتنزلی کی آخری حدود پرکیوں دیکھ رہے ہیں؟​
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی​
نہ ہو خیال جس کو آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
کیا ابتدائے اسلام کے تمام ہیروزغیروں کے قائم کردہ نظام تعلیم سے مستفید تھے؟ کیا ان کا بہترین ادارہ مسجد نہ تھا ؟ کیا وہ اپنا مافی الضمیر بیان کرنے میں افراط وتفریط اور مصلحت کے شکار تھے ؟ کیا امام اعظم اوردیگرتمام ائمہ مجتہدین اورلشکرہائے اسلام کے تمام سپہ سالار ان اور ذمہ دار خلفاء و اسلامی حکمران کبھی ان فکری پابندیوں میں مقید رہے جن میں آج کے اربابِ اقتدار اور نام نہاد سکالرزجکڑے ہوئے ہیں۔ اگر ہمیں اپنا کھویا ہوامقام دوبارہ حاصل کرناہے توہمیں غیروں کی تقلید چھوڑکر اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔ پروردگار ہم سب کو حق کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین​

منگل، 1 مئی، 2012

نبی کی اطاعت ہے بندگی اللہ کی

جو کوئی یہ چاہتا ہے کہ وہ اللہ کو پسند آ جائے اور وہ اللہ کے پیاروں میں شامل ہو جائے اور اللہ سے محبت کرنے والوں میں اس کا بھی شمار ہو تو اسے چاہیے کہ کہ وہ اللہ کے آخری نبی امام الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی اطاعت کرے اور آپ ﷺ کی اتباع میں زندگی گزارے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ کی اطاعت ہی دراصل اللہ عز وجل کی اطاعت ہے۔ اللہ عزوجل نے قرآن میں فرمایا ہے۔ من یطع الرسول فقد اطاع اللہ۔ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی۔ ما آتکم الرسول فخذوہ وما نھکم عنہ فانتھو۔ تو پھر ایسے شخص کی بخشش بھی ہو جائے گی اور گناہوں سے بھی معافی مل جائے گی۔ اب اگر کوئے یہ کہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے در کو چھوڑ کر اللہ عزوجل تک رسائی حاصل کر لے گا تو یہ شیطانی وسوسہ ہے۔ کیونکہ شیطان کا کام ہی دلوں اور ذہنوں میں وسوسے ڈالنا ہے۔ ا س نے خود بھی تو اللہ کی عظمت کو تسلیم کر کے اللہ کے نبی علیہ السلام کو خود اپنے سے اعلی و ارفع ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت حضرت آدم علیہ السلام کی پیشانی میں نورمحمد ﷺ روشن تھا تو دراصل شیطان نے نبی کریم حضرت محمد ﷺ ہی کی عظمت کو ماننے سے انکار کیا تھا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو شیطان بھی مئوحد تھا۔ وہ بھی اللہ کو ایک مانتا تھا۔ اسے پتہ تھا اور پتہ ہے کہ اللہ صرف ایک ہی ہے۔ لیکن وہ مسلمان نہیں ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اس نے اللہ کی عظمت کو تو ضرور تسلیم کیا تھ لیکن اللہ والوں کی عظمت تسلیم نہ کی اور کافر ہو گیا۔ اسی گناہ کی وجہ سے اسے لعنتی (مردود) کہا گیا۔ 

امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ۔

آپ شرع محمدی کے چراغ اور امت محمدیہ ﷺ کے امام و پیشوا ہیں۔ آپ کی ریاضت و مجاہدہ کی کوئی حد نہیں ہے۔  بہت سے مشائخ صابر کی ریاضت کا شرف آپ کو حاصل ہے۔آپ فضیل، ابراہیم بن ادھم  بشر حافی اور داؤ د طائی  کے استاد ہیں۔ جب آپ نے روضہ نبوی ﷺ پر حاضر ہو کر السلام علیک یا سید المرسلین کہا۔ تو جواب میں وعلیکم السلام یا امام المسلمین کی ندا سنائی دی۔ آ پ نے ابتدائی عمر ہی میں گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی۔ ایک رات خواب میں دیکھا کہ آپ آنحضرت ﷺ کی استخوان مبارک میں سے جمع کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض کو پسند کرتے تھے اور بعض کو ناپسند۔ چنانچہ خواب کی ہیبت سے آپ بیدار ہوئے ۔ اور ابن سیرین کے ایک رفیق سے خواب بیان کیا۔ انہوں نے جواب دیا۔ کہ خواب نہایت مبارک ہے۔ تم آنحضرت ﷺ کے علم اور حفظ سنت میں اس حد تک پہنچ جاؤ گے کہ صحیح کو غیر صحیح سے علیحدہ کرو گے۔ پھر ایک بار آپ نے رسولﷺ کو خواب میں دیکھا جو فرما رہے تھے کہ ابو حنیفہ تم کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ میری سنت کو ظاہر کر و اور عزلت کا قصد ترک کر دو۔ آپ کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ خلیفہ نے ایک مجلس کی جس میں آپ کے استاد شعبی اور دوسرے علمائے وقت کو جمع کیا۔ اور داروغہ کو حکم دیا کہ ہر ایک خادم کے نام کچھ جائداد وقف یا ملک یا اقرار کے طور پر لکھ دواور علمائے کرام کی گواہیاں کرا لو۔ چنانچہ کاغذ لکھا گیا اور تما م علمائے کرام اور آپ کے استاد نے اس کاغذ پر دستخط کردیئے۔ جب کاغذ آپ کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ خلیفہ کہاں ہیں۔ جواب ملا کہ اپنے محل میں۔ آپ نے فرمایا کہ امیر المومینین یہاں آئیں یا میں ان کے پا س جاؤں۔ تب شہادت ٹھیک ہو۔ یہ لفظ سن کر داروغہ نے کچھ درشتی سے کام لیا اور کہا کہ سب علمائے کرام نے گواہی لکھ دی۔ آ پ فضول باتیں کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہر ایک فعل اس کے اپنے لئے ہے۔ چناچہ آپ نے شہادت لکھنے سے انکار کر دیا۔ جب خلیفہ کو خبر ہوئی تو اس نے آپ کے استاد شعبی  کو بلا کر پوچھا کہ کیا گواہی میں اپنی آنکھوں سے دیکھنا ضروری ہے کہا ہاں۔ پھر خلیفہ سے پوچھا کہ اگر یہ بات ہے تو تم نے بغیر دیکھے گواہی کیوں لکھدی شعبی  نے کہا کہ مجھ کو معلوم تھا کہ آپ کے حکم سے ہے ۔خلیفہ نے کہا کہ یہ بات حق سے دور ہے۔ اور تم منصب قضا کے قابل نہیں ہو۔ اس کے بعد خلیفہ نے اکابر علماء کے مشورہ کے بعد ابوحنیفہ ، سفیان بن خرام اور شریح کو منتخب کیا کہ ان میں سے کسی ایک کو قاضی بنانا چاہیے چنانچہ ان چاروں کو طلب کر کے خلیفہ نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اور کہا کہ تم لوگ اپنے میں سے کسی کو قاضی مقرر کرلیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ میں تو قضا کو قبول نہیں کرونگا۔ آپ نے اپنے دوسرے ساتھیوں سے فرمایا کہ نجات کی ایک سبیل میں تم کو بتاتا ہوں سب کے اتفاق پر آپ نے فرمایا کہ سفیان کو بھا گ جانا چاہیے۔ مسفر بن خرام اپنے کو دیوانہ بنا لیں میں قضاء کو قبول نہ کرونگا اور شریح کو قاضی بنا لیا جائے۔ چنانچہ اسی تجویز کے مطابق سفیان تو بھا گ گئے اور باقی تینوں دربار میں پہنچےخلیفہ نے آپ کو قاضی بنانا چاہا۔ مگر آپ نے فرمایا کہ میں اس قابل نہیں ہوں۔ اگر میں اس بات میں سچا ہوں۔ تو فی الحقیقت قاضی بننے کے قابل نہیں۔ اگر جھوٹا ہوں تو جھوٹا شخص بھی قاضی نہیں بن سکتا علاوہ ازیں میں قریشی نہیں ہوں بلکہ موالی ہوں اور عرب کے لوگ میری قضا کو قبول بھی نہیں کرینگے۔ اس کے بعد مسفرنے آگے بڑھ کر خلیفہ کا ہاتھ پکڑا اور دیوانہ پن کی باتیں شروع کیں۔ چنانچہ ان کو نکال دیا گیا۔ اس کے بعد شریح کو قاضی بنا دیا گیا۔ نقل ہے کہ ایک دفعہ لڑکے گیند کھیل رہے تھے۔ تو اتفاقا گیند اچھل کر مجلس میں آپڑا۔ کسی کو جاکر لانے کی جرات نہ ہوتی۔ آخر ایک لڑکا گستاخانہ اندر آیا۔ اور گیند اٹھا کر لے گیا۔ آپ نے دیکھ کر فرمایا کہ شاید یہ لڑکا حلال زادہ نہیں ہے چنانچہ دریافت پر ایسا ہی معلوم ہوا۔ لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوگیا۔ فرمایا اگر حلال زادہ ہو تا تو اس میں شر م و وحیا ہوتی۔ فرماتے ہیں کہ جب کبھی کسی مسئلہ میں کچھ تردد ہوتا۔ تو میں چالیس بار قرآن کریم کا ختم کرتا تو وہ مسئلہ منکشف ہو جاتا۔ داؤد طائی فرماتے ہیں۔ کہ میں بیس ۲۰ سال تک آپ کی خدمت میں رہا۔ خلوت و جلوت میں آپ کو دیکھا ۔مگر ننگے سر نہ دیکھا۔ اور نہ آپ کو آرام کے لئے پاؤں پھیلائے ہوئے دیکھا۔ میں نے عرض کیا اگر خلوت میں آپ آرام کیلئے پاؤں پھیلالیں تو کیا حرج ہے۔ فرمایا کہ خلوت میں خدا کے ساتھ ادب سے رہنا زیادہ مناسب ہے۔ ایک دفعہ کہیں جارہے تھے۔ راہ میں ایک لڑکے کو دیکھ کر فرمایا کہ سنبھل کر چل تاکہ کیچڑ میں نہ گر پڑے۔ اس نے کہا اگر میں گر پڑا تو معمولی بات ہے اکیلا ہی گروں گا۔ لیکن اگر آپ کا پاؤں پھسل گیا تو وہ تمام مسلمان جو آپ کے بعد آئیں گے پھسل جائیں گے اور پھر ان کا اٹھ سکنا دشوار ہو گا۔ آپ کو اس لڑکے کے فہم پر تعجب آیا۔ فورا مجلس میں آکر اپنے معتقدین اور اصحاب کو فرمایا۔ کہ خبر دار اگر کسی مسئلہ میں تم کو میری نسبت کوئی بات زیادہ واضح معلوم ہو تو میری اطاعت نہ کرو۔ اور اگر میرے قول کو حدیث و قرآن سے مطابق نہ پاؤ۔ تو میرے قول کو زمین پر پٹخ دو۔ یہ الفاظ آپ کے کمال انصاف کی علامت ہیں۔ ایک مالدار شخص امیر المومنین عثمان سے اختلاف رکھتا تھا۔ اور اکثر آپ کو یہودی کہہ دیتا جب یہ بات آپ کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے اس کو بلایا اور فرمایا کہ میں تمہاری لڑکی کا نکاح فلاں یہودی سے کرو دوں گا۔ اس مالدار نے کہا آپ امام المسلمین ہو کر ایسا گناہ کاکام کرینگے کہ ایک مسلمان کی لڑکی یہودی کے ساتھ بیاہ دینگے اور میں یہ کیونکہ گوارا کرو نگا کہ میری لڑکی یہودی کے ساتھ بیاہی جائے؟ آپ نے فرمایا کہ سبحان اللہ! تم اپنی ایک لڑکی تو یہودی کو دینا گوارا نہ کرو۔ اور جناب رسول خدا ﷺ کی دو لڑکیاں یہودی کے حوالے کر و۔ یہ سن کر وہ شخص فورا سمجھ گیا اور تائب ہوا۔ ایک دفعہ ایک شخص کو ننگا دیکھ کر آپ نے آنکھیں بند کرلیں۔ لوگوں نے کہا یہ فاسق ہے۔ کسی نے کہا دہر یہ ہے یہ سن کر اس آدمی نے کہا کہ یا امام آپ کی بینائی کب سے سلب کرلی گئی ہے۔ فرمایا جب سے تیری شرم و حیا کا پردہ اٹھ گیا۔ ایک دن آپ بازار میں سے گذر رہے تھے۔کہ ناخن بھر مٹی آپ کے کپڑوں کو لگ گئی۔چنانچہ آپ دریائے دجلہ پر جاکر اس کو دھونے لگے۔ لوگوں نے کہا کہ یا امام المسلمین آپ تو ایک مقدار معین نجاست کو معاف کرتے ہیں۔ پھر اس قدر مٹی کو کیوں دھوتے ہیں فرمایا کہ ہاں وہ فتوی ہے اور یہ تقوی! شیخ بوعلی بن عثمان اطلابی بیان کرتے ہیں ۔کہ ایک دفعہ میں ملک شام میں حضرت بلال موذن کی قبر پر سویا ہوا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میں مکہ معظمہ میں ہوں اور جنا ب رسول کریم( روحی فداہ) ﷺ ایک بوڑھے شخص کو نہایت شفقت کے ساتھ گود میں لئے ہوئے آئے میں نے دوڑ کر قدموں میں سررکھا اور پوچھا کہ یہ کون شخص ہے۔ فرمایا کہ تمہارے ملک اور مسلمانوں کے امام ابو حنیفہ  ہیں۔ نوفل بن حیان کہتے ہیں کہ جب آپ انتقال فرماگئے تو میں نے خواب میں قیامت کو دیکھا۔ تما م خلقت حساب دے رہی ہے۔ جناب رسول مقبول ﷺ حوض کوثر کے کنارے تشریف فرما ہیں۔ اور دنوں طر ف مشائخ کھڑے ہیں وہاں ایک سفید چہر ہ خوبصورت بزرگ دیکھا۔ جو آنحضرت ﷺ کے منہ پر منہ رکھتے ہیں۔ اور مام ابو حنیفہ آپ کے برابر کھڑے ہیں۔ میں نے سلام کرکے حضرت امام ابو حنیفہ سے پانی طلب کیا۔ مگر آپ نے فرمایا ۔کہ جب تک آنحضرت ﷺ اجازت نہ دینگے۔ پانی نہیں دے سکتا۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے پانی دیدینے کا حکم دیا ۔ تب آپ نے ایک پیالہ پانی کا دیا۔ جو ہم کئی شخصوں نے پیا۔ مگر پھر بھی پیالہ بھر ا ہوا تھا۔ میں نے پھر پو چھا کہ آنحضرت ﷺ کے دائیں طر ف کون بزرگ میں۔ فرمایا حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور بائیں طرف صدیق اکبر اسی طرح سترہ شخصوں کی نسبت میں نے پوچھا حضرت یحیٰ معاذ رازی فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں جناب رسالت ماآب کی زیارت کرکے پوچھا آپ کو کہا ں تلاش کروں۔ فرمایا کہ ابو حنیفہ کے علم کے نزدیک مجھ کو تلاش کرو اگرچہ آ پ کے مجاہدات و مناقب بیشمار ہیں جوکسی سے پوشیدہ نہیں ہیں اس لئے ہم اس قدر حالات پر اکتفا کرتے ہیں۔

انتخاب: عبدالرزاق قادری
کتا ب: تذکرۃ الاولیاء۔ شیخ فریدالدین عطار 

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ

آپ رحمۃ اللہ علیہ سلطان شریعت و طریقت اور برہان حقیقت و محبت مفتی اسرار الہٰی اورمہدی انوار ناتناہی وارث دین نبوی ہیں۔ اگرچہ آ پ کے حالات بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ کیونکہ ایک عالم آپ کے مقلدین میں سے ہے۔ فراست میں آپ یگانہ روزگار تھے۔ چاروں اماموں سے ایک امام ہیں۔ آپ کی ریاضات و کرامات بیشمار ہیں۔ ابھی آپ کی عمر تیرہ ۱۳سال ہی کی تھی ۔ کہ آپ نے کہا کہ جو مسئلہ مجھ سے چاہو ۔ پوچھ لو۔ اور جوفتویٰ چاہو طلب کرو ۔ امام احمد جنبل رحمۃ اللہ علیہ جوکہ امام جہاں تھے ۔ اور کئی ہزار حدیثیں از بر تھیں۔ آپ کی شاگردی کو آتے تھے۔ اور فرماتے تھے ۔ کہ فقہ کادروازہ خلقت پر بندتھا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ کسی اور شخص کا احساس اسلام پر ہے۔اور پھر فرمایا کہ حدیث نبوی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق ہر دو سو سال کے بعد ایک شخص پیدا ہوتا ہے۔جس سے لوگ دین سیکھتے ہیں اس سے مراد امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ بلال رحمۃ اللہ علیہ خواص فرماتے ہیں کہ خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اوتاد میں سے ہیں۔ عبداللہ انصار اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ اگرچہ میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مقلد نہیں ہوں ۔ لیکن ان کو دوست رکھتا ہوں۔ امام صاحب خود فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں جناب رسالت مآ ب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کا ایک امتی ہوں تب آپ نے فرمایا کہ قریب آؤ ۔ تو آپ اپنا لعاب دہن میرے منہ میں ڈالا اور فرمایا کہ جاؤ ۔ اب اللہ تعالیٰ تم کو برکت دیگا ۔اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنی انگشتری اتار کر میرے حوالے کی۔ نقل ہے کہ ابھی آپرحمۃ اللہ علیہ کی عمر چھ سال کی تھی کہ ایک دفعہ دو شخص آپ کی والدہ کے پاس کچھ امانت رکھ گئے کچھ دنوں کے بعد ان میں سے ایک شخص واپس آیا۔ اوراپنی امانت لے کر واپس چلا گیا۔ اس وقت آپ کی والدہ موجود نہ تھیں ۔ تھوڑی دیر کے بعد جب آپ کی والدہ کی تشریف لے آئیں۔ تو دوسرا آدمی بھی آگیا۔ اور اپنی امانت طلب کی آپ نے کہا کہ تمہار اساتھی امانت لے گیاہے۔ اس نے کہا کہ یہ اقرار نہ تھا۔ آپ کی والدہ بہت ملول ہوئیں۔ تو آپ نے کہا ۔ کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ پھر دوسرے آدمی کو کہا ۔ کہ تم اپنے ساتھی کو بلاکرلے آؤ ۔ اور اپنی امانت لے جاؤ ۔یہ لفظ سن کروہ تحسین کرتا ہوا چلا گیا۔ آپ عام طور پر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر کھڑے رہتے ۔ جو شخص کوئی فتوی لے کر آتا ۔ اس کو دیکھتے اگروہ درست نہ ہوتا۔ تو کہتے کہ واپس لے جاؤ ۔ اور درست کروا کر لاؤ ۔ وہ شخص واپس جا کر فتوی کی صحت طلب کرتا۔ جب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اس فتوی کو دوبارہ ملاحظہ کرتے ۔ تو حق امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف پاتے۔ اور امام مالک اس پر ناز کرتے۔ نقل ہے کہ ایک دفعہ خلیفہ ہارون الرشید اپنی بیوی زبیدہ سے مناظرہ کررہا تھا۔ اثنائے گفتگو میں زبیدہ نے ہارون الرشید کو دوزخی کہہ دیا ۔ ہارون نے کہا اگر میں دوزخی ہوں تو تم کو طلاق ۔غرض دونوں جدا ہو گئے۔ چو نکہ خلیفہ کوزبیدہ سے بہت محبت تھی۔ اور زبیدہ بھی خلیفہ کو نہایت محبوب رکھتی تھی۔ اس لئے دونوں بے قرار ہوئے۔ تما م علمائے کرام کو جمع کرکے فتوی طلب کیا ۔مگر سب چپ رہے اور کہنے لگے کہ سوائے خدا و ند کریم کے کوئی نہیں جانتا ۔ کہ خلیفہ دوزخی ہے یا بہشتی ۔ اس وقت آپ مجلس میں موجود تھے اور عمر بھی ابھی گیارہ سال کی تھی۔آپ نے کھڑے ہو کر کہا کہ اس مسئلہ کا جواب میں دیتا ہوں ۔ سب لوگ حیران رہ گئے ۔ کہ ایک بچہ کیا جواب دے سکتا ہے۔ تب ہارون نے آپ کے نزدیک سے پوچھا ۔تو آپ نے کہا ۔ کہ چونکہ آپ سائل ہیں ۔ اس لئے تخت سے نیچے اتر جائیں۔ اور مجھ کو تخت پر جگہ دیں۔ تب میں جواب دوں خلیفہ نے ایسا ہی کیا ۔ جب آپ تخت پر بیٹھ گئے ۔ تو فرمایا تمہارے سوال کا جواب بعد میں دونگا ۔ پہلے تم میری بات کا جواب دو پوچھا کیا سوال ہے ۔ فرمایا کہ کیا کبھی کسی گنا ہ کے کرسکنے کی ہمت ہوتے ہوئے تم نے خو ف خدا سے اس گناہ کو ترک کیا۔ ہارون نے کہا کہ ہاں ۔ تب آپ نے فرمایا کہ میں حکم دیتا ہوں۔کہ تم بہشتی ہو۔تمام علمائے نے یہ سن کر کہا ۔کہ کس طرح اورکس حکم سے آپ نے فرمایا کہ قرآن کہتا ہے ۔ واما من خاف مقام ربہ ونہی النفس عن الھوی۔ فان الجنۃ ھی الماو ی۔ آیت سن کر تما م علماء آفرین کہتے ہوئے کہنے لگے ۔کہ جب بچپن میں یہ حال ہے تو جوانی میں کیا ہوگا۔ نقل ہے کہ ایک دفعہ دوران درس آپ دس بار کھڑے ہوئے شاگردوں نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے۔ فرمایا کہ ایک سید زادہ باہر کھیل رہا تھا۔ جب وہ میرے سامنے آتا تھا تو تعظیم کے لئے کھڑا ہو جاتا تھا۔ کیونکہ فرزند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سامنے آئیں۔ اور میں نہ اٹھوں ۔ یہ ادب اور تعظیم کے خلاف ہے۔ نقل ہے کہ خلیفہ کے دربار میں روم سے ہر سال خراج آیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ قیصر روم نے مال کے ساتھ کچھ اپنی قوم کے مذہبی عالموں کو بھیجا اور پیغام دیا ۔ کہ تم مسلمانوں سے بحث کرو۔ اگر مسلمان غالب آئے توخراج بھیج دیا جایا کریگا۔ اور اگر تم غالب آگئے۔ تو مال خراج بند کر دیا جائے گا۔ چنانچہ حسب خواہش قیصرروم خلیفہ نے تما م علماء کو جمع کیا سب نے بالا تفاق کہا ۔کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بحث کرینگے ۔ پھر خلیفہ کے حکم سے سب لوگ دریائے دجلہ کے کنارے جمع ہوئے امام شافعی نے اپنا جائے نماز پانی کی اوپر یعنی دریا کے درمیان بچھا دیا اور بیٹھ گئے۔ اور کہا کہ جس شخص کو بحث کرنا ہو وہ میرے پاس آجائے۔ یہ حال دیکھ کروہ سب لوگ مسلمان ہو گئے۔ آپ کی قوت حافظہ اس قدر زبردست تھی کہ جو بات غور سے ایک دفعہ دیکھ لیتے وہ کبھی نہ بھولتے۔چنانچہ آپ کو قرآن حفظ نہ تھا۔ خلیفہ نے بغرض امتحان آپ کو امام بنا دیا ۔آپ روز ایک پارہ دیکھ لیتے اور رات کو پڑھ دیتے ۔ اس طر ح ایک ماہ میں قرآن شریف زبانی یاد کرلیا۔ کسی نے آپ سے نصیحت چاہی۔ آپ نے فرمایا اطاعت میں اس قدر رشک کر جس قدرلوگ مردو ں پر کرتے ہیں یعنی جس قدر اطاعت الہیٰ اس نے کی ہے۔میں اس سے زیادہ کروں ۔مگر کسی پر حد نہ کرنا۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کی وفات کے پیشتر خواب دیکھا کہ حضر ت آدم علیہ السلا م کا انتقال ہوگیاہے۔ اور لو گ ان کا جنازہ لےجا رہے ہیں۔ میں نے اس خواب کی تعبیر ایک معتبر سے دریافت کی۔ تو اس نے کہا کہ موجودہ وقت کاسب سے بڑا عالم وفات پائیگا۔ کیونکہ علم حضرت آدم علیہ السلام کا خاصہ ہے۔ اس کے بعدآپ کی وفات ہوئی۔ وفات کے وقت آپ نے وصیت کی ۔کہ مجھ کو فلاں شخص غسل دے لیکن اس وقت وہ شخص مصر میں تھا۔ وصیت کی تعمیل نہ ہو سکی ۔جب وہ شخص واپس آیا۔ تو لوگوں نے اس سے یہ بات بیان کی۔ اس نے کہا کہ آپ کے کاغذات لاؤ جب آپ کے کاغذ دیکھے گئے تو معلو م ہوا کہ ستر ہزار درہم قرض تھے۔ چنانچہ اس نے معاف کر دئیے اورکہا میرا ان کو غسل دینا یہی تھا۔ رفیع بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا اور پوچھا کہ خدا نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا۔ فرمایا کہ کرسی پر بٹھا کر زر و جواہر نثار کئے۔ اور چند دینا ر کے بدلے میں ستر ہزار دے کر رحمت فرمائی ۔
انتخاب: عبدالرزاق قادری
کتاب:
تذکرۃ الاولیاء ازشیخ فریدالدین عطار

مفلسی کی داستان

دورحاضر میں رزق حلا ل کمانا مشکل ہو تا جا رہا ہے۔ نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ شاید پوری دنیا میں ہی صورت حال کچھ اسی طرح سے ہے۔ سوائے چند ملکوں کے اور اُ ن ملکوں میں بھی غریب ، مفلس اور بے روز گار کم نہیں ہیں۔ صرف ان ممالک کا نام ہی بڑا ہے اور اونچی دکان پر پھیکا پکوان ہی ہوتا ہے۔ فیض احمد فیض کے افکار و نظریات سے قطع نظر اُن کا یہ شعر آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں زیادہ تر افراد کے حالا ت پر صادق آتا ہے۔
دنیا نے تیری یا دسے بیگا نہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روز گار کے
جن کی مستقل ملا زمتیں ہیں۔ ان کی بھی تنخواہیں کم ہی ہیں۔ سوائے اُوپر کے دو فی صد طبقے کے یا زیا دہ سے زیادہ پانچ فی صد افراد اپنی ضروریات زندگی کی سہو لتوں سے بہر ہ ور ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 5 جون 2011 تک تقریباً آدھی دنیا یعنی تین ارب سے زیادہ لوگ روزانہ ڈھائی امریکی ڈالر سے کم آمدنی پر گزارہ کرتے ہیں۔ 56 کروڑ 70 لاکھ لوگوں پر مشتمل 41 مقروض ممالک کی مجموعی جی ڈی پی (Gross domestic product) دنیا کے 7 امیر ترین لوگوں کی مجموعی دولت سے کم ہے۔ تقریباً ایک ارب لوگ اکیسویں صدی میں اس طرح داخل ہوئے کہ وہ نہ تو کوئی کتاب پڑھ سکتے ہیں اور نہ دستخط کر سکتے ہیں۔ اگر دنیا بھر کے ممالک اپنے دفاعی بجٹ کا صرف ایک فیصد تعلیم پر خرچ کرتے تو 2000 تک ہر بچے کے لیئے اسکول جانا ممکن ہو جاتا جو نہ ہو سکا۔ دنیا کے دو ارب بچوں میں سے ایک ارب بچے غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 64 کروڑ بچوں کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں ہے۔ 40 کروڑ کو پینے کا صاف پانی نہیں ملتا۔ 27 کروڑ کو طبی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ 2003 میں روزانہ لگ بھگ 29000 بچے مر گئے جنکی عمر پانچ سال سے کم تھی۔ 2001ء میں دنیا کی 6 ارب سے زائد آبادی میں 1.1 ارب افراد کی آمدن یومیہ ایک ڈالر سے کم اور 2.7 ارب افراد دو ڈالر یومیہ سے کم آمدن پر زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ اسی نسبت تنا سب سے مو جو دہ صورت حال کا جائزہ لگا لیا جائے اور اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ اگر اشتراکیت جیسا حقوق چھیننے والا نظام نافذ نہیں ہو سکا تو سرمایہ وارانہ نظام نے دولت کو صرف چند ہاتھوں تک محد ود کر دیا ہو ا ہے۔ اور اگر خو ش حال شہر کے باسی خو شحال نہیں ہیں تو دیہا توں کے کسانوں کی حالت بھی کچھ کم بُری نہیں ہے۔ سب سے زیا دہ قابل رحم طبقے میرے خیال میں یہ ہیں۔ ایک وہ مزارع جو جاگیر دار کی غلامی پر مجبور ہیں چاہیے وہ جاگیر دار ملک کے حکمران ہوں یا اقتدار کے بھوکے سیاست دان ہوں۔ دوسرا طبقہ شہروں میں کرایے کے مکانوں میں رہ کر روزانہ اجرت کما کر کھانے والے لو گ ہیں۔ جن کا دنیا میں ایک مربع فٹ کا رقبہ بھی اپنا نہیں ہے۔ اور تیسرا بڑا مجبور طبقہ شاید مفلس طالب علموں کا ہے۔ جو دل جمعی اور ذہنی یک سوئی سے تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر بہت سے ایسے ذہین، حقیقی ذہین طلباء سے واقف ہوں۔ جہنوں نے میٹرک سائنس میں تو 84 چوراسی فی صد نمبر حاصل کیے لیکن ایف۔ایس۔سی نہ کر سکے۔ کیونکہ والدہ فو ت ہو گئیں اور اخرا جات کے اسبا ب میسر نہ رہے۔ ان کی آنکھوں میں الیکٹر یکل انجیئر بننے کے خواب ابھی تک ٹمٹا رہے ہیں۔ سن 2012کے مارچ تک ان طالب علموں میں سے ایک ابھی تک اپنے اس ارادے ٹوٹنے سے محفوظ رکھے ہوئے ہے اور کسی کرشمے کا انتظار کر رہا ہے۔ لیکن ایک میرے دل کے رونے سے کیا ہو گا
کیونکہ پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مر دِ نا داں پر کلا مِ نرم و نازک بے اثر
ایک اور طبقہ جس کے بارے میں قلم اُ ٹھانے کی پاداش میں مجھے دقیانو سی، رجعت پسند، قدامت پسند اور نجانے کون کون سے الفاظ سے یاد کیا جائے گا۔ اللہ عزوجل نے دنیا کی امامت سب سے عظیم افراد یعنی انبیاء کرام علیہم السلام کے ذمے لگائی اور دنیا کے بادشاہوں کو ان پا ک و طیب ہستیوں کے در کے گدا بنا دیا۔ جبکہ آج ہم نے چو دھویں صدی اور پندرھویں میں کفار کی غلا می اختیار کرتے ہوئے اپنے مسجد کے امام کو زمانے میں سب سے زیادہ ذلیل و رُسوا شخصیت سمجھ لیا اور نجانے کیوں اُسے لعن طعن کرنے اور خوار کرنے کا کوئی مو قع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ حالا نکہ اللہ کے قول کے مطابق عزت اور ذلت دینے کا اختیار وہ خو د ہی اپنے پاس رکھتا ہے اور رزق عطا کرنے کا ذمہ بھی اُس خد اہی کے اختیار میں ہے۔ ورنہ ہم تو شاید اپنے امام مسجد کو کھانا بھی نہ کھانے دیتے اور یوں ظاہر کرتے جیسا کہ ہم اُس کے رزق کے والی وارث ہی ۔ جب ہم چاہیں گے وہ کھانا کھائے گا اور جس دن ہم نہیں چاہیں گے اُس دن وہ بھوکا ہی سوئے گا اور اس کے بچے بھوک سے ایڑ یاں رگڑتے مر کھپ جائیں گے۔ ایک اور طبقہ ہوم ٹیوٹر اور پرائیوٹ سکولوں کے اساتذہ کا ہے اس کے استحصال کی مثالوں سے بھی زمانہ بھر ا پڑا ہے ان میں ایک بڑی تعداد لائق و فا ئق ضرورت مند طلباء کی ہے اور ان کی تعلیم کے اخر اجات کا مسئلہ اس نظام کو اس بُری صورت میں اپنانے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔ اور پھر ہم مزدور اور ملازم کو تنخواہ بھی کتنی دیتے ہیں؟ صر ف مبلغ چھ ہزار روپے! دعوت فکر ہے دنیا کے تمام معیشت دانوں کے لیے، کہ وہ آئیں اور اس چھ ہزار ماہانہ کی حقیر سی رقم سے ایک پردیسی کے اخراجات اور اس کے بیوی، بچے، والدین اور بہن بھائیوں کے اخرجات جوکہ پسماندہ علا قے کے دیہات میں رہتے ہیں ا ن کا بجٹ بناکر دکھائیں۔ اقبال نے کہا تھا
تیرے شیشے میں مئے باقی نہیں ہے
بتا کیا تو تو مرا ساقی نہیں ہے
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
سر دیوں کی راتوں میں ٹھٹھرتے ہوئے چوکی دار کو ہم کیا وظیفہ دیتے ہیں؟ کیا ہم نے اس مالک یوم الدین کے سامنے حاضر نہیں ہو نا جس کی تسبیح ہم ہر نماز میں روزانہ اور درجنوں بار کیے جانے والے حج کے دوران کرتے ہیں۔ حج تو صرف ایک ہی فر ض ہے۔ لیکن ہم حاجی سے الحاج تو تب بن سکیں گے نا جب ہم ایک سے زیا دہ حج اد ا کرلیں گے۔ عید پر ہم دس، دس، بیس، بیس اور سینکڑوں قربانیاں کرکے خود کو سخی ظاہر کریں گے۔ ہمارا ہمسایہ چاہے رات کو بھو کا ہی کیوں نہ سوئے۔ ہمارا ایمان تو مکمل ہے۔ ہم نے تو واماالسائل فلا تنھر پر عمل کرتے ہوئے پیشہ ور بھکاریوں کو نہ کبھی جھڑکا اور نہ ہی کبھی اپنے در سے خالی موڑا۔ ہمارے ملازم کی تنخواہ پینتالیس سو روپے ہے اور ہماری دکان کی چائے کا ماہانہ خرچہ بیس ہزار ہوتا ہے۔ ہم فلا حی اداروں کے قیام کے لیے تو اربوں روپے کا چندہ اکٹھا کر سکتے ہیں لیکن اپنے مزدور کے بچو ں کی تعلیم کے بارے میں سو چنے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ ہمارے بچوں کی سکول کی فیس ہرماہ بینک میں جمع ہوتی ہے یہ اتنی بڑی رقم ہوتی ہے کہ ہمارے اردگرد رہنے والے مزدور حضرات کے کُنبے کے تمام اہل افراد پورا مہینہ ان تھک محنت کرکے بھی اتنی رقم نہیں کما پاتے۔ ہمارے بچے سکول جاتے ہوئے روزانہ جتنا جیب خرچ لے کر جاتے ہیں۔ غریبوں کے بچوں کی گورنمنٹ سکول کی ماہانہ فیس اس سے کم ہوتی ہے۔ اور ان بچوں کو اپنے گھروالوں سے فیس کے لیے وہ حقیر سی رقم بھی بروقت نہیں مل پاتی۔ یا تو مفلس لو گ اپنے بچوں کی تربیت کے بارے میں باشعور نہیں ہوتے یا پھر جس کسی کے پاس چند ٹکے آجائیں وہ بندہ خو د بخود سمجھ دار ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے کاروبار کے لیے ہمیشہ دعا کرتے ہیں کہ اس میں دن دوگنی اور رات چو گنی ترقی ہو جائے۔ لیکن اُسی کاروبار کی ریڑھ کی ہڈی یعنی ملازم کے بارے میں ہم کبھی بھی یہ نہیں سو چتے کہ ساتھ ساتھ اس کی آمدن بھی دوگنا یا چار گنا ہو جائے۔ بلکہ ہم تو اپنے دوستوں میں بیٹھ کر یہ شکو ہ کرتے نظر آتے ہیں کہ یار ہر ماہ جس دن ملازمین کی تنخواہ دینا ہوتی ہیں۔ اس دن ہماری کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ حالا نکہ حقیقت صورت حال یہ ہوتی ہے کہ ہم اس تنخواہ دار ملازم کے ذریعے سے جتنا کماتے ہیں اس کا عشر عشیر بھی اس کے پلے نہیں ڈالتے۔ ہاں ! یہ بھی درست ہے کہ ہر ملازم کے ساتھ ہر سرمایہ دار بالکل وہ رویہ اختیار کیے ہوئے نہیں ہے جو اوپر بیان کیا گیا اور ہر غریب جو ہوتا ہے وہ غریب ہی ہوتا ہے ضروری نہیں کہ وہ نیک بھی ہو اگر وہ امیر ہوتا یا سرمایہ دار ہوتا تو نجانے معاشرے کے ساتھ وہ کیا سلوک کرتا