دورحاضر میں رزق حلا ل کمانا مشکل ہو تا جا رہا ہے۔ نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ شاید پوری دنیا میں ہی صورت حال کچھ اسی طرح سے ہے۔ سوائے چند ملکوں کے اور اُ ن ملکوں میں بھی غریب ، مفلس اور بے روز گار کم نہیں ہیں۔ صرف ان ممالک کا نام ہی بڑا ہے اور اونچی دکان پر پھیکا پکوان ہی ہوتا ہے۔ فیض احمد فیض کے افکار و نظریات سے قطع نظر اُن کا یہ شعر آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں زیادہ تر افراد کے حالا ت پر صادق آتا ہے۔
دنیا نے تیری یا دسے بیگا نہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روز گار کے
جن کی مستقل ملا زمتیں ہیں۔ ان کی بھی تنخواہیں کم ہی ہیں۔ سوائے اُوپر کے دو فی صد طبقے کے یا زیا دہ سے زیادہ پانچ فی صد افراد اپنی ضروریات زندگی کی سہو لتوں سے بہر ہ ور ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 5 جون 2011 تک تقریباً آدھی دنیا یعنی تین ارب سے زیادہ لوگ روزانہ ڈھائی امریکی ڈالر سے کم آمدنی پر گزارہ کرتے ہیں۔ 56 کروڑ 70 لاکھ لوگوں پر مشتمل 41 مقروض ممالک کی مجموعی جی ڈی پی (Gross domestic product) دنیا کے 7 امیر ترین لوگوں کی مجموعی دولت سے کم ہے۔ تقریباً ایک ارب لوگ اکیسویں صدی میں اس طرح داخل ہوئے کہ وہ نہ تو کوئی کتاب پڑھ سکتے ہیں اور نہ دستخط کر سکتے ہیں۔ اگر دنیا بھر کے ممالک اپنے دفاعی بجٹ کا صرف ایک فیصد تعلیم پر خرچ کرتے تو 2000 تک ہر بچے کے لیئے اسکول جانا ممکن ہو جاتا جو نہ ہو سکا۔ دنیا کے دو ارب بچوں میں سے ایک ارب بچے غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 64 کروڑ بچوں کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں ہے۔ 40 کروڑ کو پینے کا صاف پانی نہیں ملتا۔ 27 کروڑ کو طبی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ 2003 میں روزانہ لگ بھگ 29000 بچے مر گئے جنکی عمر پانچ سال سے کم تھی۔ 2001ء میں دنیا کی 6 ارب سے زائد آبادی میں 1.1 ارب افراد کی آمدن یومیہ ایک ڈالر سے کم اور 2.7 ارب افراد دو ڈالر یومیہ سے کم آمدن پر زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ اسی نسبت تنا سب سے مو جو دہ صورت حال کا جائزہ لگا لیا جائے اور اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ اگر اشتراکیت جیسا حقوق چھیننے والا نظام نافذ نہیں ہو سکا تو سرمایہ وارانہ نظام نے دولت کو صرف چند ہاتھوں تک محد ود کر دیا ہو ا ہے۔ اور اگر خو ش حال شہر کے باسی خو شحال نہیں ہیں تو دیہا توں کے کسانوں کی حالت بھی کچھ کم بُری نہیں ہے۔ سب سے زیا دہ قابل رحم طبقے میرے خیال میں یہ ہیں۔ ایک وہ مزارع جو جاگیر دار کی غلامی پر مجبور ہیں چاہیے وہ جاگیر دار ملک کے حکمران ہوں یا اقتدار کے بھوکے سیاست دان ہوں۔ دوسرا طبقہ شہروں میں کرایے کے مکانوں میں رہ کر روزانہ اجرت کما کر کھانے والے لو گ ہیں۔ جن کا دنیا میں ایک مربع فٹ کا رقبہ بھی اپنا نہیں ہے۔ اور تیسرا بڑا مجبور طبقہ شاید مفلس طالب علموں کا ہے۔ جو دل جمعی اور ذہنی یک سوئی سے تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر بہت سے ایسے ذہین، حقیقی ذہین طلباء سے واقف ہوں۔ جہنوں نے میٹرک سائنس میں تو 84 چوراسی فی صد نمبر حاصل کیے لیکن ایف۔ایس۔سی نہ کر سکے۔ کیونکہ والدہ فو ت ہو گئیں اور اخرا جات کے اسبا ب میسر نہ رہے۔ ان کی آنکھوں میں الیکٹر یکل انجیئر بننے کے خواب ابھی تک ٹمٹا رہے ہیں۔ سن 2012کے مارچ تک ان طالب علموں میں سے ایک ابھی تک اپنے اس ارادے ٹوٹنے سے محفوظ رکھے ہوئے ہے اور کسی کرشمے کا انتظار کر رہا ہے۔ لیکن ایک میرے دل کے رونے سے کیا ہو گا
کیونکہ پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مر دِ نا داں پر کلا مِ نرم و نازک بے اثر
ایک اور طبقہ جس کے بارے میں قلم اُ ٹھانے کی پاداش میں مجھے دقیانو سی، رجعت پسند، قدامت پسند اور نجانے کون کون سے الفاظ سے یاد کیا جائے گا۔ اللہ عزوجل نے دنیا کی امامت سب سے عظیم افراد یعنی انبیاء کرام علیہم السلام کے ذمے لگائی اور دنیا کے بادشاہوں کو ان پا ک و طیب ہستیوں کے در کے گدا بنا دیا۔ جبکہ آج ہم نے چو دھویں صدی اور پندرھویں میں کفار کی غلا می اختیار کرتے ہوئے اپنے مسجد کے امام کو زمانے میں سب سے زیادہ ذلیل و رُسوا شخصیت سمجھ لیا اور نجانے کیوں اُسے لعن طعن کرنے اور خوار کرنے کا کوئی مو قع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ حالا نکہ اللہ کے قول کے مطابق عزت اور ذلت دینے کا اختیار وہ خو د ہی اپنے پاس رکھتا ہے اور رزق عطا کرنے کا ذمہ بھی اُس خد اہی کے اختیار میں ہے۔ ورنہ ہم تو شاید اپنے امام مسجد کو کھانا بھی نہ کھانے دیتے اور یوں ظاہر کرتے جیسا کہ ہم اُس کے رزق کے والی وارث ہی ۔ جب ہم چاہیں گے وہ کھانا کھائے گا اور جس دن ہم نہیں چاہیں گے اُس دن وہ بھوکا ہی سوئے گا اور اس کے بچے بھوک سے ایڑ یاں رگڑتے مر کھپ جائیں گے۔ ایک اور طبقہ ہوم ٹیوٹر اور پرائیوٹ سکولوں کے اساتذہ کا ہے اس کے استحصال کی مثالوں سے بھی زمانہ بھر ا پڑا ہے ان میں ایک بڑی تعداد لائق و فا ئق ضرورت مند طلباء کی ہے اور ان کی تعلیم کے اخر اجات کا مسئلہ اس نظام کو اس بُری صورت میں اپنانے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔ اور پھر ہم مزدور اور ملازم کو تنخواہ بھی کتنی دیتے ہیں؟ صر ف مبلغ چھ ہزار روپے! دعوت فکر ہے دنیا کے تمام معیشت دانوں کے لیے، کہ وہ آئیں اور اس چھ ہزار ماہانہ کی حقیر سی رقم سے ایک پردیسی کے اخراجات اور اس کے بیوی، بچے، والدین اور بہن بھائیوں کے اخرجات جوکہ پسماندہ علا قے کے دیہات میں رہتے ہیں ا ن کا بجٹ بناکر دکھائیں۔ اقبال نے کہا تھا
تیرے شیشے میں مئے باقی نہیں ہے
بتا کیا تو تو مرا ساقی نہیں ہے
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
سر دیوں کی راتوں میں ٹھٹھرتے ہوئے چوکی دار کو ہم کیا وظیفہ دیتے ہیں؟ کیا ہم نے اس مالک یوم الدین کے سامنے حاضر نہیں ہو نا جس کی تسبیح ہم ہر نماز میں روزانہ اور درجنوں بار کیے جانے والے حج کے دوران کرتے ہیں۔ حج تو صرف ایک ہی فر ض ہے۔ لیکن ہم حاجی سے الحاج تو تب بن سکیں گے نا جب ہم ایک سے زیا دہ حج اد ا کرلیں گے۔ عید پر ہم دس، دس، بیس، بیس اور سینکڑوں قربانیاں کرکے خود کو سخی ظاہر کریں گے۔ ہمارا ہمسایہ چاہے رات کو بھو کا ہی کیوں نہ سوئے۔ ہمارا ایمان تو مکمل ہے۔ ہم نے تو واماالسائل فلا تنھر پر عمل کرتے ہوئے پیشہ ور بھکاریوں کو نہ کبھی جھڑکا اور نہ ہی کبھی اپنے در سے خالی موڑا۔ ہمارے ملازم کی تنخواہ پینتالیس سو روپے ہے اور ہماری دکان کی چائے کا ماہانہ خرچہ بیس ہزار ہوتا ہے۔ ہم فلا حی اداروں کے قیام کے لیے تو اربوں روپے کا چندہ اکٹھا کر سکتے ہیں لیکن اپنے مزدور کے بچو ں کی تعلیم کے بارے میں سو چنے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ ہمارے بچوں کی سکول کی فیس ہرماہ بینک میں جمع ہوتی ہے یہ اتنی بڑی رقم ہوتی ہے کہ ہمارے اردگرد رہنے والے مزدور حضرات کے کُنبے کے تمام اہل افراد پورا مہینہ ان تھک محنت کرکے بھی اتنی رقم نہیں کما پاتے۔ ہمارے بچے سکول جاتے ہوئے روزانہ جتنا جیب خرچ لے کر جاتے ہیں۔ غریبوں کے بچوں کی گورنمنٹ سکول کی ماہانہ فیس اس سے کم ہوتی ہے۔ اور ان بچوں کو اپنے گھروالوں سے فیس کے لیے وہ حقیر سی رقم بھی بروقت نہیں مل پاتی۔ یا تو مفلس لو گ اپنے بچوں کی تربیت کے بارے میں باشعور نہیں ہوتے یا پھر جس کسی کے پاس چند ٹکے آجائیں وہ بندہ خو د بخود سمجھ دار ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے کاروبار کے لیے ہمیشہ دعا کرتے ہیں کہ اس میں دن دوگنی اور رات چو گنی ترقی ہو جائے۔ لیکن اُسی کاروبار کی ریڑھ کی ہڈی یعنی ملازم کے بارے میں ہم کبھی بھی یہ نہیں سو چتے کہ ساتھ ساتھ اس کی آمدن بھی دوگنا یا چار گنا ہو جائے۔ بلکہ ہم تو اپنے دوستوں میں بیٹھ کر یہ شکو ہ کرتے نظر آتے ہیں کہ یار ہر ماہ جس دن ملازمین کی تنخواہ دینا ہوتی ہیں۔ اس دن ہماری کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ حالا نکہ حقیقت صورت حال یہ ہوتی ہے کہ ہم اس تنخواہ دار ملازم کے ذریعے سے جتنا کماتے ہیں اس کا عشر عشیر بھی اس کے پلے نہیں ڈالتے۔ ہاں ! یہ بھی درست ہے کہ ہر ملازم کے ساتھ ہر سرمایہ دار بالکل وہ رویہ اختیار کیے ہوئے نہیں ہے جو اوپر بیان کیا گیا اور ہر غریب جو ہوتا ہے وہ غریب ہی ہوتا ہے ضروری نہیں کہ وہ نیک بھی ہو اگر وہ امیر ہوتا یا سرمایہ دار ہوتا تو نجانے معاشرے کے ساتھ وہ کیا سلوک کرتا