بچوں کی تربیت کا مرحلہ والدین کے لئے ازل سے ہی کٹھن ہی رہا ہے۔ لیکن ہمارے آج کے دور کے بچوں کے بگاڑ کے پس منظر میں والدین کا بچوں کو بے جا لاڈ اور اُن کی جائز و ناجائز خواہشات کی تکمیل بھی ایک خاص وجہ ہے۔ بچے چونکہ تازہ و شگفتہ پھوٹتی ہوئی کونپلیں ہوتے ہیں اس لئے ان کو جس راہ چلادیا جائے اسی پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ اگر ان کے جذبات کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی فکری و عملی تربیت سنجیدہ افکار کی بنیادوں پر استوار نہ کی جائے تو معاشرے کے لئے بوجھ بن جاتے ہیں اگر کل کو انہیں زمانے کی سختیاں جھیل کر عظیم انسان بننا ہے تو آج ان کوآنے والے وقت کی پیچیدگیوں سے آگاہ کرنا ہوگا جن ماؤں نے اپنے بچوں کی ٹھوس بنیادوں پر تربیت کی ان کو تاریخ ہمیشہ سلام کرتی رہے گی۔ آج سہولیات اور آسائشوں سے مزین دور ہے تو پھر بھی بچے تعلیمی سرگرمیوں میں خاطر خواہ کا میابیاں حاصل کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟ شہروں میں والدین بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے پیسے کو پانی کی طرح بہارہے ہیں مگر ان کو متوقع جوابی کاروائی میسر کیوں نہیں آرہی؟ آپ فوج، سول، عدلیہ اور اہل علم اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں جھانک کر دیکھ لیں اکثر دیہاتی لوگ ہی کیوں کامیاب نظر آتے ہیں؟ کیا انہیں شہر والوں کی نسبت زیادہ سہولیات میسر تھیں؟ کیا وہ انگلش میڈیم اداروں کی فیسیں برداشت کرسکتے تھے؟ وہ افراد تو ان خستہ حال سکولوں میں پڑھے ہوتے ہیں جن میں ٹاٹ تک بھی تک بھی میسر نہیں ہوتا۔ اور وہ اپنے گھروں سے کھاد اور چینی والے خالی تھیلے لے جا کر ان پر بیٹھ کر زیور تعلیم سے آراستہ ہوئے ہوتے ہیں۔ بعض پسماندہ علاقوں میں گیارہ گیارہ سکولوں کو کنٹرول کرنے والے سرکاری اساتذہ (انچارج ہیڈ ماسٹر) صرف میٹرک پاس ہوتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ کامیابی دیہاتیوں کے ہی قدم چومتی ہے؟ جواب بالکل آسان ہے کہ ان کی طبیعت میں جفا کشی کوٹ کوٹ بھری ہوتی ہے۔ وہ فجر کی نماز سے پہلے جاگ کر اپنے گھر اور کھیت کے کام کاج سنوارکر پھر ناشتہ کرتے اور بعد میں عازم مکتب ہوتے ہیں۔ وہ صبح آٹھ بجے اُٹھ کر اور جوتوں کے تمسے باندھ کر ائیر کندیشنڈ کلاسز میں براجمان نہیں ہوتے۔ بلکہ 32,32 کلومیٹر یا75, 75 کلومیٹر تک بسوں کے دھکے کھاکر بغیر جیب خرچ کے تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ وہ شام کے وقت بھوک سے نڈھال گھروں لوٹتے ہیں جہاں درجن بھرکاموں کی فہرست ان کی منتظر ہوتی ہے۔ وہ ان سے کو نمٹا کر شام کو سکول کا کام(ہوم ورک) مکمل کرتے ہیں وہ محنت کے عادی ہوتے ہیں اور ان کے والدین ان کو اساتذہ کا احترام سکھاتے ہیں۔ وہ سکول سے جھیلی ہوئی سزا کا گھر میں تذکرہ کرنا باعث ننگ و عار سمجھتے ہیں جبکہ یہاں شہروں میں تمام تر حالات برعکس ہیں۔ گھر میں ہمہ قسم کی سہولیات کے میسر ہونے کے باوجود بچے نہ ہی پڑھنے کے عادی بنائے جاتے ہیں اور نہ ہی ان کو معاشرے میں کسی فرد کا احترام کرنا سکھایا جاتا ہے۔ والدین اور اساتذہ ان تمام معاملات کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ مگر اساتذہ کو تو یہ موقع ہی فراہم نہیں کیا جاتا کہ وہ بچوں کو ادب سکھا پائیں۔ اور والدین کا کہنا خود بخود نہیں مانتے۔ اگر آج ہمارے بچوں میں استاد کی باتوں کو غور سے سن کر ان پر عمل کرنے کا شعور حاصل ہوجائے۔ تو وہ ماں باپ کے بھی مؤدب بن جائیں گے۔ اور معاشرے کے بھی بہترین افراد ثابت ہوسکتے ہیں۔ پاکستانی حکومت کی پالیسی ’’مار نہیں پیار‘‘ کی مثال یورپ کے کسی سرد ملک کے پودے کی مانند ہے جس کو اگر ایشیاء کے تپتے ریگستان میں بویا جائے تو وہ دھوپ کی شدت سے مرجھا جائے گا۔ ہمیں بچوں کو جسمانی سزا دینے کا ہرگز متحمل نہیں ہونا چاہئے مگر بچوں کو اساتذہ کے سر پر یوں سوار کر دینا (کہ وہ خود سیکریٹری کو کال کریں) انہی بچوں کے مستقبل کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔ ماہرین تعلیم اور فلاسفرز نے جسمانی سزا کی حوصلہ شکنی اور ممانعت ضرور کی ہے۔ لیکن ان کو معاشرے کے لئے ناسور بنا دینے والے لاڈ و پیار کی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ آج یورپ اور امریکہ کے بچے اضطرابی کیفیات کا شکار ہوکر منشیات اور دیگر برائیوں کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ وہ ترقی یافتہ اقوام اپنے بچوں کو سُدھار نہیں پا رہیں۔ کیونکہ انہوں نے بچوں کو معاشرے کا، قانون کا، استاد اور والدین کا احترام نہیں سکھایا ہوتا۔ آج ہمیں اپنے بچوں کی تربیت کے مطالعہ کے لئے یورپی و امریکی استعماری اقوام کے گھناؤ نے ہتھکنڈوں پر عمل پیرا ہونے کی بجائے اپنے اسلاف سے فیضان نظر کا بھولا ہوا درس دوبارہ یاد کرنا ہوگا۔
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو اداب فرزندی
ہمیں چاہئے کہ اپنے نونہالوں کو بڑوں کی عزت کا درس دیں۔ اور اساتذہ اور والدین بھی شفقت نبوی ﷺ سے سبق حاصل کرکے پیار و محبت کا عملی نمونہ پیش کریں۔ کیونکہ:
کتابوں سے نہ کالج کے ہے درسے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
آج کے والدین کے لئے ضروری کہ وہ بچوں کو ’’کھلائیں سونے کا نوالہ لیکن دیکھیں شیر کی آنکھ‘‘ ورنہ یہی بچے اپنے والدین کو اولڈ ہاوسز میں چھوڑ کر ان کے تمام لاڈ اور بھاری فیسیں بھول جائیں گے اور ہم کف افسوس ملتے رہ جائیں گے۔ اور ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق کی توفیق ازرانی فرمائے۔ آمین