پیر، 17 ستمبر، 2012

معاشرے میں خواص و عوام کا کردار

          اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں کروڑ پتی کالم نویس حضرات اپنے ادبی فن کی بنا پر مفلس و نادار لو گوں کے درد کا رونا روتا نظر آتا ہے یوم مئی کو لا کھ پتی حضرات مزدور انجمنوں کی صورت میں احتجاج کرتے نظر آتے ہیں ٹی وی چلا کر دیکھ لیں ایک فلم کے لیے کروڑوں کا معاوضہ لینے والا غریب کا نمائندہ ہے اور فلم میں اُس اداکار کے ساتھ ظلم ہوتا ہے اُس کو قتل کر دیا جاتا ہے حالانکہ وہ اپنے مرنے کے بعد ہاتھی کی طرح سوا لاکھ سے بھی زیادہ مہنگا ہو جاتا ہے ٹاک شو میں اینکر پرسن بولتا ہے جس کی تنخواہ پاکستان کے ہر شعبہ زندگی کے سنیئر ترین افسران سے زیادہ ہوتی ہے وہ بھی ایک عام آدمی کی نمائندگی کرتا ہے اور پیاز کی قیمت بیس روپے زیادہ ہو جانے پر آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے تمام پارٹیوں کے تمام سیاست دان لاکھوں روپے کا لباس اور جوتے پہن کر کروڑوں کی گاڑی میں تشریف لاتے ہیں اور عوامی جلسہ میں انہوں نے ایسے ایسے پرفیوم لگا رکھے ہوتے ہیں کہ ان کو پسینے کی تکلیف نہ سہنا پڑے یا ان کے ڈائس کے سامنے خفیہ اے سی لگا ہو تا ہے اور وہ بھی بلند و بانگ دعوؤں سے غریب غرباء کو ان کا حق دلانے کے لیے پُر سوز تقریرکر تا ہے جو کہ کسی لاکھ پتی بیوروکریٹ نے لکھی ہوتی ہے اور شاعروں کا کلا م پڑھتا ہے جس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ بندہ غریبوں کا سچا غم گسار ہے اور خیر خواہ بھی، غریبوں کی اعانت کے جتنے اشتہارات ہم اخبارات اور ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں ان کا دسواں حصہ بھی عملی نمونے کی صورت میں نظر نہیں آتا اگر کوئی منصوبہ سامنے آجاتا ہے تو اس میں اتنے زیادہ فنی عیب ہوتے ہیں کہ وہ بہت جلد ناکام ہو جاتا ہے یا پھر بد نیتی کی بناء پر اتنے نااہل اور کرپٹ لو گ بھرتی کیے جاتے ہیں جو معاشر ے کے لیے ناسور بن جاتے ہیں اور حقیقتا تو ناسور کا علاج اُسے کاٹ پھینکنا ہی ہے ورنہ اقبال فرشتوں کے لیے اپنے کلا م میں یوں نہ فرماتے
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خو شۂ گند م کو جلا دو
             الغرض ہمارے ہاں سونے کو تولنے کے لیے پیتل کے تکڑی بٹے استعمال کیے جاتے ہیں اور مو م کی سیڑھی لگا کر سورج کو چھونے کی کو شش کی جاتی ہے اور اس کے سد باب کے لیے ابھی گہری خا موشی ہے ابھی نہر سوئی ہوئی ہے اُس میں پتھر گرا کر دیکھنے والا کوئی نہیں ہے ابھی شور دریا کو چیلنج کر نے والا کوئی سکوت سمندر سامنے نہیں آیا ابھی قوم مایوس ہے ابھی اس کو کسی مسیحا کا انتظار ہے پچھلی چھ دہائیوں میں ابھی تک پاکستان میں کوئی مسیحا بھی ان کے ملک کی باگ ڈور نہیں سنبھال پایا شاید عوام میں شعور کی کمی ہے یقیناًعوام میں شعور ہی کی کمی ہے کیونکہ ان کی فکری تربیت درست انداز میں کرنے والا کوئی محرک ابھی تک ان کے حواس پر نہیں چھایا ان پر کفار کا میڈیا اثر انداز ہو رہا ہے ان پر مغربی تہذیب کا رنگ غالب ہے فریبِ نظری دل کش روپ میں انہیں برباد کر رہی ہے پھولوں کی رکھوالی مالی کی بجائے چور اور ڈاکو کر رہے ہیں انقلا ب اور تبدیلی کے الفاظ اتنی بار استعمال ہو چکے ہیں کہ اب ان کی کوئی وقعت نہیں رہی ہر گلی سے ایک انقلاب آور شخصیت کی صدا بلند ہو رہی ہے یہاں سوال یہ ہے کہ داغ دار دامن کے ساتھ کوئی کیسے دوسروں کی داد رسی کرے گا بُرے کر دار کے حامل ماضی والے افراد قرآن و حدیث کے حوالے دے کر کس طرح لوگوں کی تقدیریں بدلیں گے اپنی ذات کو تبدیل کرلینے سے قاصر لو گ کروڑوں لوگو ں کے قائد ہونے کے کیونکر رواہیں؟ پرآسائش زندگی گزارنے والے کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ عام شہری کے تجربے سے گزرے اور اس کے معاملات کو ذاتی طور پر سمجھ سکے جن کے بچے نالا ئق بھی ہوں تو اعلیٰ ترین اور مہنگے ترین اداروں میں با آسانی پڑھیں ان کو ٹا ٹ سکو ل کی تعریف کس منطق کے تحت سمجھ میں آئے اور وہ بچے بھی جو ان ہو کر کیا عوامی خدمات بجالانے کے قابل ہوں ؟؟؟؟؟ اور چند سکوں کی خاطر اپنا ایمان بیچ دینے والے دانش ور، صحافی اور اینکر پرسن کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ کلمہ حق کہے! خدا گواہ ہے کہ اگر ان میں سے ایک بھی ایسا نکل آئے جو حق پر ہو اور اگر حق کی خاطر جان سے بھی گزرنا پڑجائے تو گریز نہ کرے تو کروڑوں عوام اُسے بھی قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی طرح سر آنکھوں پر بٹھا لیں یوں لگتا ہے کہ مذکورہ بالا تمام شعبہ ہائے زندگی کے لو گوں نے کفار کے سامنے حلف اٹھا رکھا ہے کہ وہ نہ تو سچ بات کہیں گے اور نہ ہی اس پر عمل کریں گے ان لو گوں کو عیش و عشرت نے کفر اور گمراہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا اور غریب مفلس عوام کو مفلسی نے!
            میرے منہ میں خاک! ہم سب مل کر ایسا کردار کیوں اپنائے ہوئے ہیں کچھ تو مال و دولت کے بل بوتے پر خد ا بن بیٹھنے کو تیار ہیں اور دوسرے ناداری کی بنا پر ان نمرود صفت لو گوں کو پوجنے کو تیار ہیں کیا ہمیں ابھی تک بنیادی غلطی کی سمجھ نہیں آئی کیا ہم نے اسلامی افکار پر مبنی تعلیمات کی تربیت حاصل کیااور اس کا عملی مظاہرہ اپنے بچوں کے سامنے کیا؟ کیا ہم نے بچوں کے سامنے حقیقی مسلمان کا کردار ادا کیا؟ کیا ہم نے کبھی اسلامی تعلیم و تربیت کے اداروں کا رُخ کیا؟ کیا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی سنت پر عمل کیا تاکہ ہمارے بچے بھی دیکھ کر اس کو سیکھ سکیں اور ان کی تعلیم و تربیت اسلامی ہو جائے اور سنت پر عمل کرنے والے بچے جو ان ہو کر معاشرے کی اصلا ح میں اپنا کر دار ادا کریں، کیا ہم نے اپنے دکا ن دار بیٹے کو سمجھایا کہ وہ پچاس روپے کلو والی چینی ستر روپے میں نہ بیچے اور پانچ سو والا آٹے کا تھیلا سات سو میں فروخت نہ کرے؟ کیا ہم نے اپنے کنڈکٹر بھائی کو گھر سے سکھا کر بھیجا کہ وہ بیس کی جگہ چالیس روپے کرایہ نہ لے گا؟ اور طالب علموں سے صرف رعایتی کر ایہ لے گا؟ اور کیا اپنے طالب علم بچوں کو سمجھا کر کالج بھیجا کہ وہ بس میں رعایتی کرایہ ضرور دے گا اور کنڈکٹر بھائی سے بدتمیزی نہیں کرے گا؟ ہم سب صر ف اپنی اپنی ہی اصلاح کیوں نہیں کر لیتے؟ کیونکہ جب ہر ایک شخص خود کو خود ٹھیک کر لے گا تو پھر سب اچھے ہو جائیں گے بلکہ ہم نے بجائے اس سب کے اُلٹ ہی عمل کیا گھر میں کیبل اور انٹر نیٹ لگو ا کر بچوں کو مکمل آزادی اور خو د مختاری دے دی ان کو کبھی مسجد نہ بھیجا انہیں محلے میں تمیز سے رہنے کی تلقین نہ کی انہیں اساتذہ کرام کا ادب نہ سکھایا انہیں محنت کا عادی نہ بنایا انہیں دوسروں کا حق چھیننے سے باز رہنے کا درس نہ دیا راہ چلتے سلام کرنے کی عادت نہ ڈالی حرام کھانے سے نہ روکا بلکہ قانون توڑنے کو دلیری بتایا ان میں برداشت کا مادہ پیدا نہ کیا انہیں تشدد کرنے کا عادی بنایا بھائی چارے کا درس نہ دیا اچھے اور بُرے کی تمیز نہ سکھائی سچ بولنا نہ سکھایا خو د جھوٹ بول کر ان کی غلط تربیت کی اور جھوٹ کو ایک بہت بڑا فن بتایا اپنی ہی اولاد کو ملاوٹ کرنے سے نہ روکااقبال تڑپ اٹھا
زہراب ہے اُس قوم کے حق میں مئے افرنگ
جس قوم کے بچے نہیں خو د دار و ہنر مند
اور مزید فرمایا
اُس قوم میں ہے شوخیِ اندیشہ خطرناک
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد
گو فکرِ خدا داد سے روشن ہے زمانہ
آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد
            ہم نے جس طرح کے افراد تیار کیے بالکل اسی طرح کا معاشرہ ہمارا مقدر بنا ہمارے حکمران بھی اسی کی تعبیر ہیں اور ہمارے دانش ور بھی اسی تربیت کی تفسیر ہیں اور ہمارے نظام میں طاری جمود خود غرضی کا آئینہ دار ہے ہماری خو د ستائشی ناقص کر دار کا منہ بولتا ثبوت ہے اور ہماری مال و زر کی حرص ہی ہمارے سروں پر جوتے برسا رہی ہے غریب گھروں کے بچے بڑے بڑے اداروں میں اول پوزیشن لے کر ثابت کر رہے ہیں کہ تعلیم و تربیت محنت خودداری اور ہنر مندی بہت قیمتی سرمایہ ہیں آج لو گ ٹی وی پر اخبارات پر اور انٹرنیٹ پر ان بچوں کی زیارت کرکے اپنے سینے میں ٹھنڈ پڑتی ہوئی محسوس کرتے ہیں اس سے یہ ثابت ہوا کہ
سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
اور
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی
          آخر ہمارے غریب کس دن امیر کا منہ تکنا بند کریں گے اور ہمارے غریب کس دن دوسرے غریب کا استحصال کرنے سے باز آجائیں گے کیا ہم ابدی چین حاصل کرنے کے لیے تھوڑی سی تکلیف برداشت کرلینا گوارا نہ کریں گے کیا ہم معاشرے میں محبت کو عام کرنے کے لیے اپنی زبان میں مٹھا س نہ بھر لیں گے کیا ہم لاکھوں لو گوں کی خو شیوں کی خاطر اپنی تھوڑی سی خواہشات کو قربان نہ کر سکیں گے۔ کیا ہم نہ بدلیں گے اور ہماری تقدیر نہ بدلے گی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں