منگل، 25 ستمبر، 2012

ہزاروں خواہشوں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

ہزاروں خواہشوں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے


ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہیگا اس کی گردن پر
وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے


نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے


بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرّه پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے


مگر لکھوا
ۓ کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھواۓ
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے


ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جام جم نکلے


ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیغ ستم نکلے


محبّت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے


کہاں میخانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ آتا تھا کہ ہم نکلے

2 تبصرے:

  1. اس کے پہلے شعر کا مطلب کیا ہے؟ میرا مطلب ہے کہ ان خواہشات سے کونسی خواہشات مراد ہیں؟ اچھی یا بُری؟
    اس کی وضاحت کر دیں تو بڑی نوازش ہوگی۔
    شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. مرزا غالبؔ کے بارے میں نہایت افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ 1869ء میں ان کا انتقال ہوگیا تھا ورنہ دہلی رابطہ کرکے معلوم کیا جا سکتا، آج کل اویس قرنی المعروف چھوٹا غالب (جوگی) غالبیات کا ٹھیکے دار بنا پھرتا ہے ممکن ہے ان کے پاس کوئی معلومات ہوں، انہیں فیس بک پر سرچ کرکے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ ایک معروف شاعر محمد ندیمؔ بھابھہ حال ہی میں دہلی (غالب کی قبر) سے ہو کر آیا ہے، ان سے فیس بک پر معلوم کر لیں کہ غالب صاحب کی یہ خواہشات کیسی تھیں۔

      حذف کریں