منگل، 1 نومبر، 2022

جاہل المجہول سے ایک قدم پیچھے

 تحریر: عبدالرزاق قادری

لوگو!

پاکستان میں ان تین قسم کے شدت پسندوں کے علاوہ بھی بہت سے لوگ موجود ہیں، پاکستان کے بقیہ لوگ اگر کوئی معقول بات کر بیٹھیں تو خدارا کسی جملے کی بنیاد پر کسی بندے کو

1۔ پٹواری

2۔ یوتھیا

3۔ ملا متشدد قاری

نہ کہہ دیا کریں

ممکن ہے کہ بندہ ایک علیحدہ سوچ رکھنے والا ہو۔

ملا متشدد قاری کی اصطلاح، جاہل قسم کے ایسے نادان دوستوں کے لیے ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ درس نظامی کے آٹھ سال کے پیپر نقل کر کے رٹا لگا کر پاس کرنے والا علامہ صاحب بن جاتا ہے اور اس کے منہ سے نکلا ہر حرف عین شریعت ہوتا ہے۔ ایسے جاہلوں کو سمجھانا ایک دقیق عمل ہے کہ جو لوگ آج ائمہ یا علماء کے نام سے تاریخ کا حصہ ہیں وہ ان سب روایتی رسوم و رواج سے بری اور مستغنی ہوتے تھے جو اس زمانے کے علماء، صوفیاء اور محدثین نے اپنائے ہوتے تھے۔

جس بندے کو یہ وہم ہو جائے کہ "میں علم سے بھرا ہوا ایک ڈرم ہوں"، دراصل وہی شخص جہالت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔

تعلیم و تعلم دراصل اپنی اندر چھپی جہالت سے واقف ہونے کا نام ہے۔ کتابیں تو دنیا میں کروڑوں موجود ہیں لیکن شاید اگر کوئی بندہ اپنے اندر کی جہالت سے ناواقف رہے تو وہ ہزاروں کتابیں پڑھ کر بھی جاہل المجہول کہلائے گا۔

یعنی وہ بندہ جو اپنی جہالت سے بھی بے خبر ہو۔

اپنی کم علمی کا اعتراف ہونا دراصل ایک نعمت ہے جس کا فائدہ یہ ہے کہ انسان کو معلوم ہوتا ہے میں نے کس مقام پر اور کس موضوع پر زبان کو بند رکھنا ہے۔

وگرنہ انسان کی باتیں تضادات کا مجموعہ ہوتی ہیں اور وہ جس شعبے کا ماہر ہونے کا ڈھونگ رچا رہا ہو، اسی میں جھوٹا ثابت ہو جاتا ہے۔

میں نے "متکبرین" کی اصطلاح ایسے لوگوں کے لیے ایجاد کی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ آواز بلند کر دینے سے مدمقابل کی دلیل چھوٹی پڑ جائے گی۔

یا ہٹ دھرمی دکھانے سے حقائق بدل جائیں گے

یا یہ کہ "ہم کسی تحقیق کو نہ تو مانتے ہیں اور نہ ہی تحقیق کرنے کی اجازت دیتے ہیں کیونکہ جو وہم ہمیں ہو چکا وہی عین حق ہے"۔

اللہ نے قرآن پاک کی سورہ لقمان میں فرمایا کہ لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی، کہ "بے شک آوازوں میں سے بد ترین آواز گدھے کی ہے"۔

اب آپ غور کریں کہ کتنے لوگ ایسی شدید آواز نکال کر خود کو سچا ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جن کی آواز گدھے کی آواز سے کہیں زیادہ آگے نکل جاتی ہے بلکہ ان کی شدت کے مقابلے میں گدھے کی آواز میں ایک ردھم محسوس ہوتا ہے۔

قرآن پاک کے مطابق ہٹ دھرمی سب سے بڑا کفر ہے۔ جس بندے کو حق سمجھ آ جائے اسی پر اس کو مان لینا فرض ہے۔

لیکن اگر کسی کو حق کا یقین ہو گیا پھر بھی ہٹ دھرمی کی وجہ سے منکر رہا تو اسے کافر کہا جاتا ہے۔

جب کسی مفسد مبلغ کی خود کی بات غلط ثابت ہو جائے تو ہٹ دھرمی اختیار کر کے وہاں اٹک جاتا ہے اور قرآن پاک کے "جہالت" کے متعلق دئیے ہوئے پیمانے پر پورا اترنے کی کوشش کرتا ہے۔

اور طرفہ تماشا یہ کہ جن اقوام کو حق سمجھ نہیں آیا اور اس کا یقین نہیں ہوا ان کو منہ پھاڑ کر کافر کہا جاتا ہے، جس کی قرآن و حدیث(سنت، سیرت) کی رو سے اجازت نہیں ہے۔

یہ کھلا تضاد اور جہالت کی انتہا ہے۔

اب ٹی۔ ایل۔ پی۔ کی قیادت اپنی مبینہ کرپشن چھپانے کے لیے اپنے ماننے والوں کو طفل تسلیاں یوں دے رہی ہے کہ، "جی جمعے کے خطبے میں سعد رضوی نے وزیراعظم شہباز شریف کو کافر کہہ دیا تھا، یہی ہمارا ردعمل تھا فرانس کے صدر کے ساتھ ملاقات پر"۔

تو پھر سوال یہ ہے کہ پچھلے سال بھی یہی کر لیتے!!!

ویسے بھی شریعت اسلامیہ کی رو سے وزیراعظم شہباز شریف کو اس معاملے کافر کہنے کی ممانعت صلح حدیبیہ کی مثال سے ملتی ہے۔

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں رہتے تھے تو مکہ میں کئی گستاخ موجود تھے۔

لیکن چھ ہجری کو انہی مکہ والوں کے ساتھ صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا گیا۔ اور فتح مکہ ایک خاص طریقہء کار تحت 8 ہجری کو برپا کی گئی جس کے بعد ایسے ناہنجاروں کو سزا دی گئی۔

تمہارے پاس کیا لائحہ عمل ہے؟

صرف گالیوں سے بھری زہر آلود زبان؟؟؟؟ وہ بھی مسلمانوں کے خلاف۔۔۔

حالانکہ حدیث پاک کے مطابق مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ جبکہ ملا متشدد جیسی سوچ رکھنے والوں نے خود اپنے آپ کو کیا ثابت کیا ہے؟

مدینہ میں منافق موجود تھے جو کہ گستاخ _ رسول ہی تھے، تو ان کو کیا سزا دی گئی؟

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ تک پڑھی۔

مجھے ایک جعلی مولوی صاحب کہنے لگے کہ فتح مکہ (8 ہجری) کے بعد کسی غیر مسلم کو زندہ رہنے کا حق ہی حاصل نہیں ہے۔ اور اسی طرح کی بات ایک "مبلغہ" نے یوٹیوب پر میرے کمنٹ کے جواب میں کہی۔

حالانکہ سورہ توبہ 10 ہجری کے حج _ اکبر میں نازل ہوئی اور آیت نمبر 4 میں اللہ نے فرمایا ہے کہ جن مشرکین کے ساتھ معاہدہ ہو گیا ہے ان کے ساتھ جنگ نہیں کرنی۔

تحریک لبیک اور ن لیگ کے جنونی نوجوان مجھے یوتھیا کہتے ہیں جبکہ میں ان جھوٹے مولویوں کے ساتھ جنگ کر رہا ہوں کہ وزیراعظم شہباز شریف کو کافر مت کہو، تو اب میں کس پارٹی کا ہوا۔

حالانکہ لوگ تو مجھے ایک حافظ قرآن، پھر قرآن پڑھانے والا، اور صاحب مطالعہ ہونے کی وجہ سے مولوی ہی سمجھتے ہیں۔

لیکن خدارا۔۔۔!!! ان جاہلوں کے ٹولے کا حصہ نہ سمجھا جائے۔

میں کم از کم اپنی جہالت سے واقف ہوں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں