بھئی!
کچھ لوگوں نے مجھے عمران خان کا ترجمان سمجھ لیا ہے۔
تو وضاحت کے طور پر عرض ہے کہ میں تحریک انصاف کا ترجمان نہیں ہوں اور نہ ہی کسی کے پورٹ فولیو کا ذمہ دار ہوں۔
اور جو کچھ میں یہاں لکھتا ہوں وہ میرے ذاتی خیالات ہیں۔
میں نے ساری زندگی کسی ایک بھی بندے سے نہیں کہا کہ عمران خان کی جماعت جوائن کرو یا طاہر القادری کا فلسفہ مانو!
لیکن انعام کے حق دار میرے وہ دوست ہیں جو میرے عمران خان کی گھڑی چوری ہو جانے کی خبر دیتے ہیں اور طاہر القادری کے ٹویٹر اکاؤنٹ کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہیں۔
پاکستان کے قانون میں موجود ہے کہ جس سرکاری ملازم کو بیرون ملک سے کوئی تحفہ ملتا ہے وہ اس کو اگر رکھنا چاہے تو آدھی قیمت حکومت کے خزانے میں جمع کروا کے رکھ لے۔ عمران خان کہتا ہے کہ میں نے ہر تحفے کی آدھی قیمت ادا کر دی تھی۔ یہی ارشد شریف کی آخری وڈیو تھی کہ جس میں وہ دوسرے سرکاری ملازموں کی تفصیلات کے غائب ہونے کی بات کر رہا تھا لیکن خود غائب کر دیا گیا۔
محترمہ مریم نواز کا بیان گردش کر رہا تھا کہ عمران خان نے تحفوں کی وجہ سے اتنے کروڑ روپے کمائے یا بچائے ہیں تو شاید وہ یہ کہنا چاہ رہی تھیں کہ آدھی قیمت ادا کر کے بھی خان صاحب کو کروڑوں کا فائدہ ہو چکا ہے۔
لیکن اگر مریم صاحبہ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ تحفوں کی قیمت سرکاری خزانے میں جمع ہی نہیں کروائی گئی تو بہت آسان طریقہ ہے کہ اس کی تفصیلات عدالت میں لے جائیں اور کیس کر دیں(حکومتی کاغذات آپ کے ہاتھ ہیں آج کل آپ کے چچا جان وزیراعظم ہیں)۔ تاکہ جج صاحبان کوئی فیصلہ کر دیں۔ لیکن اگر آدھی قیمت سے پیسے بچانے کا غصہ ہے تو یہ سراسر حسد ہے۔
اب ایک مزےدار صورتحال یہ ہے کہ کل سے تحریک لبیک کے لوگ ٹویٹر پر کہیں نظر نہیں آ رہے۔
پہلے مریم نواز کا میڈیا سیل جو پوسٹ ان بے چاروں کو بنا دیتا اور رانا ثناء اللہ بیان دے دیتا وہ ان کا مؤقف بن جاتا لیکن اب وہ نون لیگ کے بھی خلاف ہو چکے ہیں تو ان کا مائی باپ کوئی نہیں رہا۔
اور ایک مزےدار سچ یہ تھا کہ مفتی منیب الرحمان کا جو کالم صبح اخبار میں شائع ہوتا، شام کو اسحاق ڈار لندن سے وہی بیان جاری کر دیتا۔
لیکن اب ڈار صاحب وزیر خزانہ بن گئے ہیں تو مفتی صاحب کے کالم شاید اب کوئی بھی نہیں پڑھتا۔
جو حالت کل کور کمانڈر ہاؤس پشاور اور جی۔ ایچ۔ کیو راولپنڈی میں ہوئی ہے۔ افواج پاکستان نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی تھی کہ عوام پاکستان کبھی اس طرح ان کے دفتروں پر چڑھ دوڑیں گے۔
پچھتر سالہ تاریخ میں فوج نے ہی عوام کو مکے دکھائے۔ کبھی عوام نے فوج کو مکے نہیں دکھائے۔
کیا یہ سچ نہیں کہ پاکستان کی افواج میں پاکستان ہی کے شہری ہیں۔
اور فوجی بھائی اپنے گھر والوں کے اثرات بھی لیتے ہیں۔ لہٰذا ثابت ہوتا ہے فوج کے لوگ اسی ملک میں سے ہیں اور ان کو بھی ملک میں ہونے والے سب حالات کی خبر ہے۔
جب افواج پاکستان کا سپہ سالار کہہ رہا ہے کہ فوج نیوٹرل اور غیر سیاسی ہے تو لوگ افواج کے دفتروں پر کیوں دھاوا بول رہے ہیں۔
یعنی لوگوں کو فوج کے بیانات پر اعتبار کیوں نہیں ہے؟
دنیا کی "نمبر ون" آئی ایس آئی کے آفیسرز جب فیض آباد کے پہلے دھرنے کے بعد عدالت میں "خفیہ" رپورٹ لے کر گئے تو ڈان اخبار کی خبر کے مطابق جج نے کہا کہ یہ سب باتیں تو پہلے ہی اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں۔ تم خفیہ کون سی لائے ہو؟
یہ جج صاحب کا جملہ معترضہ تھا، کچھ طبقات کا خیال ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اس دور میں "ختم نبوت" کے قانون کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ حالانکہ یہ جھوٹ ہے۔ وہ کوئی خاص معاملہ نہیں ہوا تھا۔ جب حل ہو گیا، ختم ہو گیا تو مولوی خادم صاحب کو کسی نے سجھایا کہ اب تم اسلام آباد جاؤ اور دنیا میں نام و نمود حاصل کرو
مریم نواز کے میڈیا سیل کا خیال ہے کہ اس تبدیلی یا کمیٹی کا سربراہ تو شفقت محمود تھا۔
جبکہ جب دھرنا طول پکڑا تو شاہ محمود قریشی بھی وہاں گیا اور عمران خان نے بھی خادم رضوی کی حمایت کی تھی۔
لیکن بعد میں وہی خادم رضوی کا ایٹم بم عمران خان کے خلاف بھی استعمال کیا گیا۔
ڈاکٹر محمد اقبال جس کو آپ علامہ اقبال کہتے ہیں انہوں نے بلاوجہ تو نہیں کہا تھا کہ، دین _ ملا فی سبیل اللہ فساد۔
پہلے اس کام کے لیے مولانا مودودی، حق نواز جھنگوی، حافظ سعید اور قاضی حسین جیسے کردار موجود تھے ہمارے آج کے دور نے خادم صاحب کی صورت میں چابی والا کھلونا دیکھ لیا۔ جب چابی 🔑 دی گئی تو ناچنا شروع کر دیا
پھر چاہے اس میں ختم نبوت کا حوالہ لگا لو، فرانس یا نیدرلینڈز کا لگا لو۔ یا امریکا کی مخالفت۔ نقصان تو پاکستانی عوام کی اخلاقیات کا کر دیا اور مجاہد یہ بن گئے۔