بدھ، 29 مارچ، 2017

Five and half years of services

      ELearningHolyQuran is an International Institute for Online Quranic and Islamic Teachings for those who want to equip themselves with education of The Holy Quran and Islam. We have developed an extensive curriculum for learning Quran and basic Islamic education. 



      www.elearningholyquran.com/ is having initial aim to constitute qualified tutors team that can better serve people belonging to all segments of society who wants to read and understand Quran with Translation at an affordable remuneration. We are committed to provide you highest quality and international standard of Education.

      Our staff will be, In-sha-Allah, the most distinguishing feature of our intuition. We have, Alhumdulillah, the assistance and support of highly dedicated teachers with expertise in their relevant disciplines. Tajweed or correct pronunciation is our prime area of teaching and we have, for this purpose, the services of well trained teachers. Simultaneously, we are helped by teachers who are the scholars of Quran (Tafseer) and Modern Islamic Fiqh experts.

منگل، 28 مارچ، 2017

احسان مند ہوں جناب کا ۔۔۔ اُستاد نعیم قیصر صاحب کا

لوگ باتیں کرتے ہیں دو دو ٹکے کے ”بکاؤ مال“ کی۔مجھ سے کسی نے بات کرنی ہو تو
کتاب و سُنت پڑھ کے آئے اور بات کرے
فلسفے کے سقراط کی کرے
طب کے بوعلی سینا کی کرے
تاریخ کے البیرونی کی کرے
جیومیٹری کے فیثا غورث کی کرے
ریاضی کے الخوارزمی کی کرے
فزکس کے نیوٹن اور البرٹ آئن سٹائن کی بات کرے
نفسیات میں سگمنڈ فرائڈ، ارکسن اور پیاجے کی بات کرے
کہانی میں پئولو کولو اور منٹو کی کرے
نثر میں یونس ادیب کی بات کرے
شعر میں غالب کی بات کرے ادب میں اقبال کی بات کرے
سخن میں رومی، جامی، سعدی اور شیرازی کی بات کرے
ولی، درد  اور میر کی بات کرے
داتا، خواجہ اور مردِ قلندر کی بات کرے
کوئی مجھ سے عارفِ کھڑی شریف، سلطان باہو، بلھے شاہ، بابا فرید اور امیر خُسرو کی بات کرے
شیکسپیر اور امتیاز علی تاج کی بات کرے
کوئی مجھ سے
اہلِ دل کی بات کرے اہلِ درد کی بات کرے
دور غم کی رات کرے
پیش اپنی سوغات کرے
میں نے اِن شہر کے دکانداروں میں” کاروبارِ اُلفت“ کرنے والے ایک شخص کو دیکھا ہے، اندر سے، سینے کی تہہ سے جھانک کے دیکھا ہے۔ عین ممکن ہے اُس کے چہرے پر آپ کو نُور نظر نہ آئے لیکن اُس کا دِل صاف اور شفاف ہے جس میں سے نظر آر پار ہوجاتی ہے اُسے میں نے اپنی رُوح میں محسوس کیا ہے وہ میری سماعتوں میں رس گھولتا ہے وہ حق کی زباں بولتا ہے وہ احساس کی زباں سُنتا ہے اُسے زنگ آلود لوہے کو صیقل کرنا آتا ہے اُسے تعمیرِ سیرت کرنا آتا ہے اُسے شعر کہنا آتا ہےاُسے الجبرا آتا ہے، ٹرنگومیٹری سکھانا آتا ہے، فزکس آتی ہے اُردو  آتی ہے، شعر وسُخن کا دلدادہ ہے اُسے اپنی بات کرنا آتی ہے اُسے بندے کو پرکھنا آتا ہے
لیکن
وہ دُکاندار نہیں ہے
اُسے بھاؤ تاؤ کرنا نہیں آتا
اُسے مول لگا نا نہیں آتا، وہ انمول ہے، میری یادوں کا انمٹ نشاں ہے اُسے تمیز آتی ہے سلیقہ آتا ہے اُسے دلوں میں گھر کر لینے کا فن آتا ہے
مجھے تعارف کرانے دیں
وہ میرا نہ صرف اُستاد ہے بلکہ ایک عملی رہبر کا نمونہ ہے
آج میں جو لکھتا ہوں، جو پڑھاتا ہوں مجھے اُس نے نکھارا ہے سنوارا ہے حوصلہ دیا ہے ایک صُور پھونکا ہے مجھے سچ کہنے کی تربیت دی ہے حق بکنے کا ولولہ دیا ہے
ہاں! اُستاد جی
اگر میں اٹلی کا جج ہوتا تو آپ کے لیے (اشفاق احمد کی طرح) کورٹ میں کھڑا ہو جاتا اور شور مچا دیتا کہ
اے ٹیچر ان دا کورٹ! اے ٹیچر ان دا کورٹ!
اگر میں جمہور کا نمائندہ ہوتا تو آپ کو صدرِ مملکت چُن لیتا
اگر ماہی ہوتا تو آپ کانام آب لکھتا
اگر ہوا ہوتا تو آپ کو آکسیجن قرار دیتا جو ایک جان کے لیے ضروری ہے
اگر آپ اُس شام مجھے دُھتکار دیتے اور مول تول کرنے بیٹھ جاتے تو شاید میں کبھی میٹرک تک نہ کر پاتا، جس شام میں اپنی فیس کی بھیک مانگنے آیا تھا
مگر
آپ نے تو کبھی جتلایا بھی نہیں، کسی کو بتایا تک نہیں
میں آپ کی اُس عظیم ماں کو سیلوٹ کرتا ہوں جو 12 ربیع الاول کو وصال کر گئیں
میں آپ کو کیا بتاؤں
کہ
میں نے اُن کے چہلم پر
ساری
تقریر صرف ماں کی تربیت کے گردکیوں گھما دی تھی
وہ میری آخر تقریر تھی
آج پانچ سال گزر گئے
میں کبھی سٹیج پر نہیں بیٹھا، وہ میری آخری تقریر تھی
میرے منہ کی زبان آپ کی مقروض ہے
میرا الجبرا اور حساب آپ کا احسان مند ہے
مجھے وہ مشق اور سوال یاد ہیں
جو
آپ نے
آؤٹ آف سلیبس
دے کر کہا تھا
”پھر وہ میتھ۔میٹیشن کیا ہوا جو سلیبس تک محدود رہ گیا“
مجھے آپ کے جملے یاد ہیں
آپ کا وہ سر ہلانے کا انداز ہے
جب آپ نے  بغیر فیس کے پڑھنے کی اجازت کے لیے گھمایا تھا
آج تک میرے کسی کلاس فیلو کو معلوم نہیں پڑا
گیارہ سال گزر گئے
زمانہ کہاں چلا گیا، میں وہیں کھڑا ہوں۔ آپ کے احسانوں کی نیچے دبا ہوا ہوں۔
آپ مجھے ایم۔اے انگلش دیکھنا چاہتے تھے لیکن افسوس میں نہ کرپایا
آپ کو شاید لوگوں نے کوئی تاجر سمجھ لیا ہو لیکن میرے لیے آپ فرشتہ ثابت ہوئے ہیں، مجھے لوگوں کے غلط کمنٹس کبھی آپ سے متنفر نہیں کر پائے
آپ کے شعر میری یادوں کا اثاثہ ہیں
آپ نے اپنی کتاب کے چھپنے سے ایک سال قبل مجھے اپنی نعت لکھ کر دے دی تھی، وہ ورق آج تک میرے پاس محفوظ ہے، آپ کی مثالیں یاد ہیں،  ان کی بازگشت آج تک چلی آ رہی ہے، جب آپ نے دسویں کا ایک سبق ”اے لیٹر۔فادرز ایڈوائس“ پڑھایا تھا اس کے جملے یاد ہیں
کہ
”روزی دو طرح کی ہوتی ہے، ایک وہ ہے جس کے پیچھے تم بھاگتے ہو، دوسری روزی وہ ہے جو تمہارے پیچھے بھاگتی ہے“۔
مجھے یاد ہے کہ
اُردو کے پہلے ٹیسٹ میں میں بغیر تیاری کے بیٹھا تھا اور ایک دلچسپ سفر کی روداد اپنے لفظوں میں فیصل آباد سے لاہور کا سفر لکھ دیا تھا اور آپ نے کتاب والے رٹے کا تقاضا نہیں کیا تھا۔
جب میں عیدالاضحیٰ پہ گاؤں جانے سے پہلے آپ سے اپنے سٹوڈنٹ کارڈ بنانے کے لیے دستخط کروانے آیا تھا آپ کی امی نے کیا فقرہ بولا تھا مجھے اُس کا درد آج تک کاٹتا ہے کہ انہیں کیا کیا ”دُکھ“ لاحق تھے۔
مجھے آپ کی شادی میں پہلی اور آخری بار روپے نچھاور کی رسم یاد ہے، میں نے تو کبھی کسی کی شادی میں نوٹ نہیں برسائے۔ آپ سے وابستہ یادیں آپ کے اشعار کی طرح میرے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے اور شاید میری رُوح کا حصہ بن چکی ہیں مجھے آپ سے نہ صرف عقیدت ہے بلکہ آپ کے فن کے آگے میرا سرِ تسلیم خم ہے۔
فقط
عبدالرزاق

جمعرات، 23 مارچ، 2017

23 مارچ 1940ء تا 2017ء کیا کھویا کیا لایا

قراداد لاہور یعنی قرارداد پاکستان کے سات برس پاکستان حاصل ہوا

لیکن بہت سے علاقے چھن گئے، پاکستان کو اس کے خزانے میں سے بھی مکمل حصہ نہ ملا،  انتظامیہ کو سہولتیں نہ مل سکیں، مہاجرین اور لاشوں کے معاملات درپیش آئے

پھر 1949ء میں قرارداد مقاصد منظور ہوئی جس کی رو پاکستان کے آئین اور قانون کی بنیادیں اسلامی قانون پر استوار کرنے کا عہد ہوا

لیکن اس سے پہلے جہادِ کشمیر میں مکمل کشمیر آزاد نہ ہو پایا جنرل گریسی نے اپنے چیف کمانڈر کا حکم نہ مانا

رانا لیاقت علی خاں نے بطورِ وزیراعظم ڈکٹیٹر کا عہدہ سنبھال لیا لیکن افسوس انہیں ایک نجانے کس نے قتل کر دیا اور وہ شہید ملت کہلائے

پھر غداروں کی ایک فوج ظفر موج نے اپنی باریاں شروع کر دیں

سکندر مرزا جیسے رذیل بھی پاکستان کے حکمران بنے اور پھر خود ہی مارشل لاء لگوا کر کھڈے لائن لگ گئے

پھر ایوب خاں نے انقلابی کارنامہ ہائے سرانجام دیئے لیکن پاکستان کو قرضوں کی دلدل میں دھنسا گئے

محترمہ فاطمہ جناح کی شان میں ہر قسم کی گستاخی روا رکھی گئی

منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم وجود میں آئے

تعلیم کے لیے آج تک کسی حکومت نے کوئی قابلِ ذکر کارنامہ نہیں دکھایا

تب 1965ء کی جنگ جیت کر میز پر ہارے

پھر ذوالفقار علی بھٹو نے ایک جھوٹ کی تھیلی میں سے تاشقند معاہدہ نکالنے کی کوشش کی لیکن آج تک وہ بلی اسی تھیلے میں ہے اسی کی بنیاد پر پیپلز پارٹی وجود میں آئی

پھر مشرقی پاکستان کھویا

جنرل یحییٰ جیسا بد قماش بھی مکروہ دھندوں میں مشغول رہا

پھر 1973ء میں آئین میسر آیا

پھر بھٹو صاحب ڈکٹیٹر کی اداکاری کرنے لگے تو ان سے بھی بدتر جنرل ضیاء الحق مسلط ہو گئے

پھر پاکستان نے جوہری توانائی حاصل کر لی

ضیاء کے بعد پیپلز پارٹی اور نوازشریف پارٹی کی باریاں شروع ہو گئیں

پھر ایٹمی دھماکے کیے گئے

پھر کارگل ہارے

پھر پرویز مشرف ہیرو بن کے آیا لیکن بعد میں نہایت بزدلانہ فیصلے ہوئے ، پاکستان کو عالمی منڈیوں تک رسائی ملی

دہشتگردی کا جو بیج "الذوالفقار" نے بویا تو لشکرِ جھنگوی اور طالبان تحفے میں ملے جنہیں آج تک پاکستان کے کرتا دھرتا سینے سے لگائے بیٹھے ہیں

پھر میثاقِ جمہوریت اور این، آر، اوز ہوئے اور خلق خدا کی وہ حکمرانی قائم ہوئی کہ جس سے آج تک پاکستان کے درو دیوار چمک رہے ہیں اور عوام کے چہرے دمک رہے ہیں

اب پاک چین راہداریاں اور غلام گردشیں بن رہی ہیں اور پاکستان ترقی کی نت نئی منازل طے کر رہا ہے، امن اس قدر وافر ہے کہ ہر چھ ماہ کے بعد ایک نئی فورس جنم لے رہی ہے لیکن پھر وہ ”اشرافیہ“ کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے، جج سلطان راہی کی طرح بیانات جاری کرکے عوام کو محظوظ کرتے ہیں اور اہلِ اقتدار ٹی وی پر لوگوں کی ماؤں بہنوں پر اپنے افکارِ عالیہ کا اظہار فرماتے ہیں، ہر بار الیکشن آرمی کے زیرِ سایہ منعقد ہوتے ہیں اور وہاں سے اُن کے من پسند ”گلو بٹ“ مسندِ اقتدار پر براجمان ہو جاتے ہیں۔ اوہ! ایک سونامی آنا تھی وہ جانے کیا ہوئی اور بھائی لوگ بھی آج تک بھائی ہیں۔
؎                                                                                                                                                                                                                                    وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھریں ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے