قراداد لاہور یعنی قرارداد پاکستان کے سات برس پاکستان حاصل ہوا
لیکن بہت سے علاقے چھن گئے، پاکستان کو اس کے خزانے میں سے بھی مکمل حصہ نہ ملا، انتظامیہ کو سہولتیں نہ مل سکیں، مہاجرین اور لاشوں کے معاملات درپیش آئے
پھر 1949ء میں قرارداد مقاصد منظور ہوئی جس کی رو پاکستان کے آئین اور قانون کی بنیادیں اسلامی قانون پر استوار کرنے کا عہد ہوا
لیکن اس سے پہلے جہادِ کشمیر میں مکمل کشمیر آزاد نہ ہو پایا جنرل گریسی نے اپنے چیف کمانڈر کا حکم نہ مانا
رانا لیاقت علی خاں نے بطورِ وزیراعظم ڈکٹیٹر کا عہدہ سنبھال لیا لیکن افسوس انہیں ایک نجانے کس نے قتل کر دیا اور وہ شہید ملت کہلائے
پھر غداروں کی ایک فوج ظفر موج نے اپنی باریاں شروع کر دیں
سکندر مرزا جیسے رذیل بھی پاکستان کے حکمران بنے اور پھر خود ہی مارشل لاء لگوا کر کھڈے لائن لگ گئے
پھر ایوب خاں نے انقلابی کارنامہ ہائے سرانجام دیئے لیکن پاکستان کو قرضوں کی دلدل میں دھنسا گئے
محترمہ فاطمہ جناح کی شان میں ہر قسم کی گستاخی روا رکھی گئی
منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم وجود میں آئے
تعلیم کے لیے آج تک کسی حکومت نے کوئی قابلِ ذکر کارنامہ نہیں دکھایا
تب 1965ء کی جنگ جیت کر میز پر ہارے
پھر ذوالفقار علی بھٹو نے ایک جھوٹ کی تھیلی میں سے تاشقند معاہدہ نکالنے کی کوشش کی لیکن آج تک وہ بلی اسی تھیلے میں ہے اسی کی بنیاد پر پیپلز پارٹی وجود میں آئی
پھر مشرقی پاکستان کھویا
جنرل یحییٰ جیسا بد قماش بھی مکروہ دھندوں میں مشغول رہا
پھر 1973ء میں آئین میسر آیا
پھر بھٹو صاحب ڈکٹیٹر کی اداکاری کرنے لگے تو ان سے بھی بدتر جنرل ضیاء الحق مسلط ہو گئے
پھر پاکستان نے جوہری توانائی حاصل کر لی
ضیاء کے بعد پیپلز پارٹی اور نوازشریف پارٹی کی باریاں شروع ہو گئیں
پھر ایٹمی دھماکے کیے گئے
پھر کارگل ہارے
پھر پرویز مشرف ہیرو بن کے آیا لیکن بعد میں نہایت بزدلانہ فیصلے ہوئے ، پاکستان کو عالمی منڈیوں تک رسائی ملی
دہشتگردی کا جو بیج "الذوالفقار" نے بویا تو لشکرِ جھنگوی اور طالبان تحفے میں ملے جنہیں آج تک پاکستان کے کرتا دھرتا سینے سے لگائے بیٹھے ہیں
پھر میثاقِ جمہوریت اور این، آر، اوز ہوئے اور خلق خدا کی وہ حکمرانی قائم ہوئی کہ جس سے آج تک پاکستان کے درو دیوار چمک رہے ہیں اور عوام کے چہرے دمک رہے ہیں
دن پھریں ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
لیکن بہت سے علاقے چھن گئے، پاکستان کو اس کے خزانے میں سے بھی مکمل حصہ نہ ملا، انتظامیہ کو سہولتیں نہ مل سکیں، مہاجرین اور لاشوں کے معاملات درپیش آئے
پھر 1949ء میں قرارداد مقاصد منظور ہوئی جس کی رو پاکستان کے آئین اور قانون کی بنیادیں اسلامی قانون پر استوار کرنے کا عہد ہوا
لیکن اس سے پہلے جہادِ کشمیر میں مکمل کشمیر آزاد نہ ہو پایا جنرل گریسی نے اپنے چیف کمانڈر کا حکم نہ مانا
رانا لیاقت علی خاں نے بطورِ وزیراعظم ڈکٹیٹر کا عہدہ سنبھال لیا لیکن افسوس انہیں ایک نجانے کس نے قتل کر دیا اور وہ شہید ملت کہلائے
پھر غداروں کی ایک فوج ظفر موج نے اپنی باریاں شروع کر دیں
سکندر مرزا جیسے رذیل بھی پاکستان کے حکمران بنے اور پھر خود ہی مارشل لاء لگوا کر کھڈے لائن لگ گئے
پھر ایوب خاں نے انقلابی کارنامہ ہائے سرانجام دیئے لیکن پاکستان کو قرضوں کی دلدل میں دھنسا گئے
محترمہ فاطمہ جناح کی شان میں ہر قسم کی گستاخی روا رکھی گئی
منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم وجود میں آئے
تعلیم کے لیے آج تک کسی حکومت نے کوئی قابلِ ذکر کارنامہ نہیں دکھایا
تب 1965ء کی جنگ جیت کر میز پر ہارے
پھر ذوالفقار علی بھٹو نے ایک جھوٹ کی تھیلی میں سے تاشقند معاہدہ نکالنے کی کوشش کی لیکن آج تک وہ بلی اسی تھیلے میں ہے اسی کی بنیاد پر پیپلز پارٹی وجود میں آئی
پھر مشرقی پاکستان کھویا
جنرل یحییٰ جیسا بد قماش بھی مکروہ دھندوں میں مشغول رہا
پھر 1973ء میں آئین میسر آیا
پھر بھٹو صاحب ڈکٹیٹر کی اداکاری کرنے لگے تو ان سے بھی بدتر جنرل ضیاء الحق مسلط ہو گئے
پھر پاکستان نے جوہری توانائی حاصل کر لی
ضیاء کے بعد پیپلز پارٹی اور نوازشریف پارٹی کی باریاں شروع ہو گئیں
پھر ایٹمی دھماکے کیے گئے
پھر کارگل ہارے
پھر پرویز مشرف ہیرو بن کے آیا لیکن بعد میں نہایت بزدلانہ فیصلے ہوئے ، پاکستان کو عالمی منڈیوں تک رسائی ملی
دہشتگردی کا جو بیج "الذوالفقار" نے بویا تو لشکرِ جھنگوی اور طالبان تحفے میں ملے جنہیں آج تک پاکستان کے کرتا دھرتا سینے سے لگائے بیٹھے ہیں
پھر میثاقِ جمہوریت اور این، آر، اوز ہوئے اور خلق خدا کی وہ حکمرانی قائم ہوئی کہ جس سے آج تک پاکستان کے درو دیوار چمک رہے ہیں اور عوام کے چہرے دمک رہے ہیں
اب پاک چین راہداریاں اور غلام گردشیں بن رہی ہیں اور پاکستان ترقی کی نت نئی منازل طے کر رہا ہے، امن اس قدر وافر ہے کہ ہر چھ ماہ کے بعد ایک نئی فورس جنم لے رہی ہے لیکن پھر وہ ”اشرافیہ“ کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے، جج سلطان راہی کی طرح بیانات جاری کرکے عوام کو محظوظ کرتے ہیں اور اہلِ اقتدار ٹی وی پر لوگوں کی ماؤں بہنوں پر اپنے افکارِ عالیہ کا اظہار فرماتے ہیں، ہر بار الیکشن آرمی کے زیرِ سایہ منعقد ہوتے ہیں اور وہاں سے اُن کے من پسند ”گلو بٹ“ مسندِ اقتدار پر براجمان ہو جاتے ہیں۔ اوہ! ایک سونامی آنا تھی وہ جانے کیا ہوئی اور بھائی لوگ بھی آج تک بھائی ہیں۔
؎ وہی حالات ہیں فقیروں کےدن پھریں ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں