منگل، 28 مارچ، 2017

احسان مند ہوں جناب کا ۔۔۔ اُستاد نعیم قیصر صاحب کا

لوگ باتیں کرتے ہیں دو دو ٹکے کے ”بکاؤ مال“ کی۔مجھ سے کسی نے بات کرنی ہو تو
کتاب و سُنت پڑھ کے آئے اور بات کرے
فلسفے کے سقراط کی کرے
طب کے بوعلی سینا کی کرے
تاریخ کے البیرونی کی کرے
جیومیٹری کے فیثا غورث کی کرے
ریاضی کے الخوارزمی کی کرے
فزکس کے نیوٹن اور البرٹ آئن سٹائن کی بات کرے
نفسیات میں سگمنڈ فرائڈ، ارکسن اور پیاجے کی بات کرے
کہانی میں پئولو کولو اور منٹو کی کرے
نثر میں یونس ادیب کی بات کرے
شعر میں غالب کی بات کرے ادب میں اقبال کی بات کرے
سخن میں رومی، جامی، سعدی اور شیرازی کی بات کرے
ولی، درد  اور میر کی بات کرے
داتا، خواجہ اور مردِ قلندر کی بات کرے
کوئی مجھ سے عارفِ کھڑی شریف، سلطان باہو، بلھے شاہ، بابا فرید اور امیر خُسرو کی بات کرے
شیکسپیر اور امتیاز علی تاج کی بات کرے
کوئی مجھ سے
اہلِ دل کی بات کرے اہلِ درد کی بات کرے
دور غم کی رات کرے
پیش اپنی سوغات کرے
میں نے اِن شہر کے دکانداروں میں” کاروبارِ اُلفت“ کرنے والے ایک شخص کو دیکھا ہے، اندر سے، سینے کی تہہ سے جھانک کے دیکھا ہے۔ عین ممکن ہے اُس کے چہرے پر آپ کو نُور نظر نہ آئے لیکن اُس کا دِل صاف اور شفاف ہے جس میں سے نظر آر پار ہوجاتی ہے اُسے میں نے اپنی رُوح میں محسوس کیا ہے وہ میری سماعتوں میں رس گھولتا ہے وہ حق کی زباں بولتا ہے وہ احساس کی زباں سُنتا ہے اُسے زنگ آلود لوہے کو صیقل کرنا آتا ہے اُسے تعمیرِ سیرت کرنا آتا ہے اُسے شعر کہنا آتا ہےاُسے الجبرا آتا ہے، ٹرنگومیٹری سکھانا آتا ہے، فزکس آتی ہے اُردو  آتی ہے، شعر وسُخن کا دلدادہ ہے اُسے اپنی بات کرنا آتی ہے اُسے بندے کو پرکھنا آتا ہے
لیکن
وہ دُکاندار نہیں ہے
اُسے بھاؤ تاؤ کرنا نہیں آتا
اُسے مول لگا نا نہیں آتا، وہ انمول ہے، میری یادوں کا انمٹ نشاں ہے اُسے تمیز آتی ہے سلیقہ آتا ہے اُسے دلوں میں گھر کر لینے کا فن آتا ہے
مجھے تعارف کرانے دیں
وہ میرا نہ صرف اُستاد ہے بلکہ ایک عملی رہبر کا نمونہ ہے
آج میں جو لکھتا ہوں، جو پڑھاتا ہوں مجھے اُس نے نکھارا ہے سنوارا ہے حوصلہ دیا ہے ایک صُور پھونکا ہے مجھے سچ کہنے کی تربیت دی ہے حق بکنے کا ولولہ دیا ہے
ہاں! اُستاد جی
اگر میں اٹلی کا جج ہوتا تو آپ کے لیے (اشفاق احمد کی طرح) کورٹ میں کھڑا ہو جاتا اور شور مچا دیتا کہ
اے ٹیچر ان دا کورٹ! اے ٹیچر ان دا کورٹ!
اگر میں جمہور کا نمائندہ ہوتا تو آپ کو صدرِ مملکت چُن لیتا
اگر ماہی ہوتا تو آپ کانام آب لکھتا
اگر ہوا ہوتا تو آپ کو آکسیجن قرار دیتا جو ایک جان کے لیے ضروری ہے
اگر آپ اُس شام مجھے دُھتکار دیتے اور مول تول کرنے بیٹھ جاتے تو شاید میں کبھی میٹرک تک نہ کر پاتا، جس شام میں اپنی فیس کی بھیک مانگنے آیا تھا
مگر
آپ نے تو کبھی جتلایا بھی نہیں، کسی کو بتایا تک نہیں
میں آپ کی اُس عظیم ماں کو سیلوٹ کرتا ہوں جو 12 ربیع الاول کو وصال کر گئیں
میں آپ کو کیا بتاؤں
کہ
میں نے اُن کے چہلم پر
ساری
تقریر صرف ماں کی تربیت کے گردکیوں گھما دی تھی
وہ میری آخر تقریر تھی
آج پانچ سال گزر گئے
میں کبھی سٹیج پر نہیں بیٹھا، وہ میری آخری تقریر تھی
میرے منہ کی زبان آپ کی مقروض ہے
میرا الجبرا اور حساب آپ کا احسان مند ہے
مجھے وہ مشق اور سوال یاد ہیں
جو
آپ نے
آؤٹ آف سلیبس
دے کر کہا تھا
”پھر وہ میتھ۔میٹیشن کیا ہوا جو سلیبس تک محدود رہ گیا“
مجھے آپ کے جملے یاد ہیں
آپ کا وہ سر ہلانے کا انداز ہے
جب آپ نے  بغیر فیس کے پڑھنے کی اجازت کے لیے گھمایا تھا
آج تک میرے کسی کلاس فیلو کو معلوم نہیں پڑا
گیارہ سال گزر گئے
زمانہ کہاں چلا گیا، میں وہیں کھڑا ہوں۔ آپ کے احسانوں کی نیچے دبا ہوا ہوں۔
آپ مجھے ایم۔اے انگلش دیکھنا چاہتے تھے لیکن افسوس میں نہ کرپایا
آپ کو شاید لوگوں نے کوئی تاجر سمجھ لیا ہو لیکن میرے لیے آپ فرشتہ ثابت ہوئے ہیں، مجھے لوگوں کے غلط کمنٹس کبھی آپ سے متنفر نہیں کر پائے
آپ کے شعر میری یادوں کا اثاثہ ہیں
آپ نے اپنی کتاب کے چھپنے سے ایک سال قبل مجھے اپنی نعت لکھ کر دے دی تھی، وہ ورق آج تک میرے پاس محفوظ ہے، آپ کی مثالیں یاد ہیں،  ان کی بازگشت آج تک چلی آ رہی ہے، جب آپ نے دسویں کا ایک سبق ”اے لیٹر۔فادرز ایڈوائس“ پڑھایا تھا اس کے جملے یاد ہیں
کہ
”روزی دو طرح کی ہوتی ہے، ایک وہ ہے جس کے پیچھے تم بھاگتے ہو، دوسری روزی وہ ہے جو تمہارے پیچھے بھاگتی ہے“۔
مجھے یاد ہے کہ
اُردو کے پہلے ٹیسٹ میں میں بغیر تیاری کے بیٹھا تھا اور ایک دلچسپ سفر کی روداد اپنے لفظوں میں فیصل آباد سے لاہور کا سفر لکھ دیا تھا اور آپ نے کتاب والے رٹے کا تقاضا نہیں کیا تھا۔
جب میں عیدالاضحیٰ پہ گاؤں جانے سے پہلے آپ سے اپنے سٹوڈنٹ کارڈ بنانے کے لیے دستخط کروانے آیا تھا آپ کی امی نے کیا فقرہ بولا تھا مجھے اُس کا درد آج تک کاٹتا ہے کہ انہیں کیا کیا ”دُکھ“ لاحق تھے۔
مجھے آپ کی شادی میں پہلی اور آخری بار روپے نچھاور کی رسم یاد ہے، میں نے تو کبھی کسی کی شادی میں نوٹ نہیں برسائے۔ آپ سے وابستہ یادیں آپ کے اشعار کی طرح میرے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے اور شاید میری رُوح کا حصہ بن چکی ہیں مجھے آپ سے نہ صرف عقیدت ہے بلکہ آپ کے فن کے آگے میرا سرِ تسلیم خم ہے۔
فقط
عبدالرزاق

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں