ہفتہ، 31 اکتوبر، 2015

لاہور کے ایک نواحی گاؤں میں بلدیاتی الیکشن

آج 31 اکتوبر 2015 ہے لاہور سمیت پنجاب کے بارہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں میں پرسوں شام سے اپنے ایک دوست حسیب نذیر کے گاؤں سرائچ آیا ہوا ہوں۔ یہ گاؤں لاہور سے قصور جانے والی بڑی سڑک فیروز پور روڈ کے سٹاپ سوا آصل کے  مشرق میں پانچ کلو میٹر دوری پر واقع ہے۔ میرا گھر داتا دربار لاہور کے پاس ہے اس طرح میں گھر سے تقریباً  پینتیس کلومیٹر دور حسیب کے گھر کی  سیڑھیوں کے اوپر والے کمرے میں بیٹھا یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔
چند روز قبل یہاں ایک شدید زلزلہ آیا تھا جس سے آپ لوگ واقف ہوں گے اس کے آفٹر شاکس بھی چوبیس گھنٹے میں  آئے  لیکن ہماری تماش بین قوم نے کل کی ہیڈ لائن  کو اس کے آفٹر شاکس مان لیا لازمی طور پر آپ عمران خان کی طلاق والی ہیڈ لائن اور اس پر قیاس آرائیاں بھی ملاحظہ فرما چکے ہوں گے۔ 
اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں چونکہ آج الیکشن کا دن ہے اور جس یونین کونسل کی حدود میں میرا قیام ہے  اس کے بڑے بڑے انتخابی نشانات بالترتیب بالٹی، ہیرا، شیر، بلا ، سیف الماری اور پریشر ککر ہیں، ان میں سے شیر نون لیگ کا اور بلا تحریک انصاف کا ہے دیگر نشانات آزاد امیدواروں کے ہیں مندرجہ بالا ترتیب میرے دوست حسیب کے حساب سے ہے وہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس لحاظ سے اکثریتی ووٹوں کے نتائج سامنے آئیں گے، حالانکہ ان کی ہمدردیاں تحریک انصاف سے وابستہ امیدوار کے ساتھ ہیں لیکن وہ جذبات کی رو میں بہنے کی بجائے اپنے تجزیے کو  اپنے  تنقیدی مشاہدے اور جائزے کی بنا پر  بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا اپنے دوستوں کو صرف ایک ہی پیغام ہے کہ شیر نہ جیتنے پائے باقی جسے مرضی ووٹ دے دیجیئے گا ۔ صرف شیر پر مُہر نہ لگانا۔  درحقیقت میرے اپنے جذبات کچھ اسی طرح کے ہیں کہ نون لیگ جیسی ظالم جماعت کا امیدوار نہ جیتنے پائے اس کے علاوہ کوئی بھی کامیاب ہوجائے میری بلا سے۔ میرای اپنی  ووٹر لسٹ میرے شناختی کارڈ کے مطابق ضلع لیہ میں ہے یوں میں صرف اس جمہوری فرض کو نبھانے کے لئے تگ و دو کرکے  لیہ نہیں جا  سکا، ویسے بھی  میرے کئی تحفظات اس جمہوریت  سے وابستہ ہیں۔
کل میرے کچھ آن لائن اسباق تھے جو  میں نے  حسیب کے لیپ ٹاپ سے پڑھائے اور شام کے وقت ہمارے ایک دوست اشفاق میئو  کے گھر ڈنر کیا ۔ آج کا دن بہرحال کافی جوش و خروش کا دن رہا، میری توقعات سے زیادہ گہما گہمی رہی بلکہ ابھی تک ووٹرز کی آمد کا سلسلہ جاری ہے جبکہ  سہہ پہر کے سوار چار  کا وقت ہے۔ مقامی سیاست، چودھراہٹ  اور برادری نوازی کا مطالعہ کرنے کا یہ ایک بہترین موقع ہے۔ کہنے کو یہ ایک گاؤں ہے لیکن اگر اس کا موازنہ ہمارے ضلع لیہ کے دیہات سے کیا جائے تو یہ لاہور شہر کا ایک حصہ ہی مانا جائے گا اس کے شواہد بھی موجود ہیں یعنی ہمارے دیہات سے جو مزدور کسب معاش کے سلسلے میں لاہور آتے ہیں ان میں سے  بعض لوگ اسی سوا آصل سٹاپ کے آس پاس والی فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں بلکہ ضلع لیہ سے میرے کئی جاننے والے ان فیکٹریوں میں کام کرتے رہے ہیں اور سوا آصل بس سٹاپ سے بخوبی واقف ہیں۔ اس گاؤں کی آبادی میرے اندازے کے مطابق پندرہ سو افراد سے زیادہ ہوگی جبکہ ہمارے لیہ والے گاؤں 475 ٹی ڈی اے میں شام کے وقت پندرہ نوجوان کرکٹ کے میدان میں جمع نہیں ہوسکتے کیونکہ وہاں آبادی بہت کم ہے۔
زیادہ مصروفیت والے لوگ صبح سویرے جاکر مقامی سکول کی اس قطار میں کھڑے ہوگئے جہاں ووٹرز کی تصدیق کی جاتی اور انہیں ووٹ کاسٹ کرنے کا طریقہ بتایا جاتا جبکہ میرے دوست اس انتظار میں رہے کہ  کب ہجوم میں کمی واقع ہو اور وہ مکمل پروٹوکول کے ساتھ اپنا حقِ رائے دہی استعمال فرما سکیں، ان دوستوں  میں حسیب نذیر، قاسم سجاد میئو اور  ریحان پی سی او  والے  اشفاق جٹ سرِ فہرست ہیں۔ سہہ پہر کے تین بجے ان ساتھیوں نے سکول کے اندر جا کر جائزہ لیا توہجوم ابھی باقی تھا ، لہٰذا حسیب اور قاسم طوعاً و کرھاً  اسی قطار میں کھڑے ہوگئے جبکہ جٹ صاحب نے  ہنوز لیت و لعل سے کام لیا اور ایک بار پھر دکان کی راہ لی۔ یہ مناظر دیکھ کر میں یہاں گھر واپس آگیا اور حسیب کے بھائی عبدالرؤف سے چائے کا تقاضا کرکے  اس تحریر کو لکھنے میں مصروف ہوگیا اسی اثنا میں حسیب بھی تصدیق کروا کے ایک بار آیا اور اپنی والدہ کو میری چائے کا کہہ کے شاید واپس سکول کی جانب چلا گیا، عبدالرؤف کب کا مجھے چائے دے بھی گیا ،  جس کاذائقہ ابھی تک میرے دہن میں ہے۔
اس الیکشن کے منظرنامے میں مجھے سب سے دلچسپ پہلو دیہاتیوں کی بذلہ سنجی اور برداشت کا دکھائی دیا، دوپہر کے وقت ایک مقام پر دو آدمیوں کے درمیان ہلکی سی  تلخ کلامی کی افواہ سنائی دی تھی جبکہ  مجموعی طور پر برداشت کی روایت برقرار رہی، لطف کی بات یہ کہ میرے جاننے والے کئی لوگ یعنی حسیب کے ہی دوست مختلف امیدواروں کے حق میں تھے پھر بھی آپس میں گاڑھی چھن رہی تھی بلکہ مخالف جماعتوں کے یا آزاد امیدواروں کی خوبیاں بھی سننے کو ملتی رہیں مثلاً ایک امیدوار ذرا جدت پسندانہ طریقے سے لوگوں کو قائل کرتا تھا اور دیگر کئی  دلکش خوبیوں کا  حامل تھا حسیب اور قاسم دونوں اس کی خوبیوں کی داد دے رہے تھے حالانکہ دونوں ہی  اسے ووٹ نہیں دینے والے تھے۔
ہمارے لاہور والے علاقے بلال گنج اور ملک پارک میں نون لیگ اور تحریک انصاف کا زیادہ واویلا تھا بلکہ نون لیگ چھائی ہوئی ہے یوں سمجھنا چاہیے کہ لاہور کا یہ علاقہ مسلم لیگ (نون) کا گڑھ ہے کیونکہ وزیر اعظم میاں نواز شریف  کا انتخاب اسی حلقے سے  بطور ایم۔این۔اے ہوا  تھا۔ اس گاؤں کے حلقے کی کہانی یہ ہے کہ یہاں سے وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب بطور ایم۔پی۔اے ہوا تھا، تو عین ممکن ہے کہ  اس علاقے کی یونین کونسلز سے نون لیگ کے امیدواران کامیاب ہوجائیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں