سانحہ راولپنڈی میں پہلے مدرسے سے فائرنگ کی گئی۔ بالکل راہ چلتے جلوسوں پر حملے کر دینا صریحا برائی ہے شاید کچھ لوگوں کے نزدیک یہ "جہاد" یعنی فساد ہو ان کے نزدیک نبی پاک صاحب لولاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی یاد میں ربیع الاول میں جلوس نکالنے پہ پابندی ہونی چاہئیے البتہ مدرسوں سے جلوسوں پر حملہ اور فائرنگ کرنے کی اجازت بدستور رہنی چاہئیے یہ ہمارے سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر بھی یہ ایک سوالیہ نشان ہے!!!!! اور صاحبان عقل و دانش کے لیے غور و فکر کا مقام!!!! آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ راولپنڈی میں ہوا کیا تھا
روزنامہ نوائے وقت کی 17 نومبر 2013 کی رپورٹ کے مطابق "پولیس کے حکام کے ساتھ کمشنر آفس میں سر جوڑ کر بیٹھ گئی، شہر بھر میں فوج نے گشت شروع کردیا۔ یوم عاشور پر راولپنڈی پولیس نے دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر سخت ترین سکیورٹی انتظامات کر رکھے تھے۔ ہیلی کاپٹروں سے جلوس کی فضائی نگرانی کی جارہی تھی، جب جلوس فوارہ چوک پہنچا تو دن اڑھائی بجے کے قریب اچانک بعض نامعلوم افراد کی جانب سے ہوائی فائرنگ کے ساتھ اندھا دھند فائرنگ شروع ہوگئی۔ پتھرائو اور پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے استعمال کے ساتھ علاقے میں شدید بھگدڑ مچ گئی۔ پولیس سے کئی افراد نے سرکاری بندوقیں چھین لیں اور ان سے فائرنگ شروع کردی، بعد میں دو سرکاری بندوقیں پولیس نے واگذار کرالیں۔ مشتعل افراد نے راجہ بازار میں کپڑے کے مرکز مدینہ مارکیٹ میں آگ لگا دی جس سے بیسیوں دکانیں جل گئیں، پورے علاقے میں دھوئیں کے بادل چھا گئے۔ آگ قریبی مسجد اور مدرسے تک پھیل گئی۔ 150 سے زائد دکانیں جل کر راکھ ہو گئیں، نقصان کا مجموعی اندازہ ایک ارب روپے سے زائد ہے۔ راولپنڈی میں اس سے حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے"
جبکہ روزنامہ انقلاب (16 نومبر 2013، 11 محرم 1435 کی خبر کے مطابق،) محرم الحرام کے سلسلے میں شیعہ حضرات کے جلوس پر مدرسہ والوں نے فائرنگ کا آغاز کیا چنانچہ جوابی کارروائی کرتے ہوئے شیعوں نے مدرسے والوں پر دھاوا بول دیا۔ جبکہ مدرسہ کے حمایتی اپنی یک طرفہ راگنی الاپ رہے ہیں
(یاد رہے اس دن صبح کے وقت والے قومی اخبارات کو چھٹی تھی اسی لیے نوائے وقت نے اگلے روز خبر نشر کی)
ڈیلی انقلاب لاہور کا عکس بغور ملاحظہ ہو:
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں