پیر، 4 نومبر، 2013

شیطانی توحید کے علمبردار

مسلمان اپنے دین پر عمل کرنے کی بجائے اغیار کے اعمال میں اپنی فلاح ڈھونڈ رہے ہیں۔ توحید باری تعالیٰ اور سنت رسول اللہ  پر عمل پیرا ہونے کی بجائے شرک اور بدعات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جسے بدقسمتی کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
مسلمان اپنے دین پر عمل کی بجائے اغیار کے اعمال میں فلاح ڈھونڈ رہے ہیں: مولانا احمد لاٹ حوالہ نوائے وقت 3 نومبر 2013ء

 تبلیغی جماعت کی بنیاد 1930ءمیں مولانا محمد الیاس نے بستی نظام الدین دہلی میں رکھی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد 1952ءمیں حاجی محمد عبداللہ میواتی نے تبلیغی جماعت کے اجتماع کے لئے رائے ونڈ میں اپنی ذاتی جگہ وقف کر دی۔ اس وقت اجتماع میں صرف 100سے کچھ زائد افراد شریک ہوتے تھے، بعد ازاں 1981ءمیں تبلیغی جماعت کی انتظامیہ نے سندرروڈ پر 150ایکڑ اراضی خرید لی۔ 65سالوں سے وطن عزیز میں تبلیغی اجتماع منعقد ہو رہا ہے اور اس میں ملکی و غیرملکی لاکھوں افراد شرکت کر رہے ہیں۔ تبلیغی اجتماع میں اس مرتبہ بھی لاکھوں افراد نے شرکت کی جن سے خطاب کرتے ہوئے تبلیغی جماعت کے امیر حاجی عبدالوہاب، مولانا طارق جمیل، مولانا احسان الحق، مولانا احمد لاٹ اور دیگر نے بڑی فکرانگیز باتیں کیں۔

لو بھئی مسلمانو! اب آپ سب پر (یا کم از کم اہل سنت وجماعت پر جو کلمہ گو ہیں اور پوری دنیا میں حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی مذاہب کی صورت میں سواد اعظم ہیں) ایک بار پھر اعلانیہ طور پر شرک اور بدعت کی فتوی نما تہمت لگا دی گئی ہے۔ کیونکہ فتوی تو مسلمان مفتی کا ہوتا ہے اور سب سے بڑی اس جماعت کو (جو اہل سنت بھی ہے اور نہ مشرک نہ ہی بدعتی ہے) مشرک کہنے دینے والے کی بات کو فتوی تو کہا نہیں جا سکتا۔
سوال: اب یہ لاٹ صاحب آئے کہاں سے ہیں؟ بھارت سے! ان کو یہاں پاکستان میں آکر مسلمانوں کو مشرک کہنے کی اجازت کیسے ملی؟
جواب: بین الاقوامی اور ملکی سیاست دانوں کی آشیر باد سے!
سوال: تو اب جنہیں مشرک اور بدعتی کہا گیا ہے وہ کیا کریں؟
جواب: بھئی ان کا ایک عالم دین مفتی عمر رضا خان قادری پچھلے دنوں بھارت سے یہاں ختم نبوت کانفرنس میں خطاب کرنے آیا تھا، ملکی انتظامیہ نے کراچی میں روکے رکھا!
سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو بدعتی کیوں کہا گیا؟
جواب: کیوں کہ مسلمان میلاد نبی کی محفلیں اور جلسے جلوس منعقد کرتے ہیں جو کہ حضرت حسان بن ثابت والی نعت (واحسن منك لم ترقط عيني  وأجمل منك لم تلد النساء خلقت مبرأ من كل عيب كأنك قد خلقت كما تشاء) سے ثابت ہیں اور جلوس اس دن کا ثابت ہے جب 12 ربیع الاول پیر والے دن آقا کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے آئے تھے اور مدینہ میں داخل ہو رہے تھے۔ اس وقت مدینہ کی بچیوں نے بھی وہ مشہور زمانہ کلام پڑھا (طلع الـبدر عليـنا, مـن ثنيـات الوداع. وجب الشكـر عليـنا, مـا دعــــا لله داع)
سوال: اور مسلمانوں کو مشرک کیوں کہا گیا؟
جواب: یا رسول اللہ پکارنے کی وجہ سے! جو کہ جنگ یمامہ میں صحابہ کرام سے ثابت ہے جو کہ سن 13 ہجری میں بعد از وصال نبوی ہوئی تھی مسیلمہ کذاب کے خلاف۔ حوالہ ملاحظہ ہو

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں