جمعہ، 5 جولائی، 2013

رمضان ، مہنگائی اور صدقات

افکارِمسلم از قلم عبدالرزاق قادری
پچھلے سال سن دو ہزار بارہ میں لکھی گئی ایک تحریر
میرا ایک دوست کہتا ہے کہ اس استحصالی معاشرے میں غریب پر دو طرح کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
 ۱)غریب جو ہے وہ امیر کا منہ تکنا بند کر دے۔
 ۲) غریب خو د بھی دوسرے غر یب کا استحصال نہ کرے۔
 رمضان شریف کے آنے سے پہلے ہی روز مرہ کی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں ۔وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے بھی رمضان بازاروں کا کاروبار شروع کر دیا اور اربوں روپے کی سبسڈی میں سے اپنا حصہ لینا تو بطور عیدی بھی حق بنتا ہے ۔ پہلے سے موجود نظام کو درست کرنے کی یا تو اہلیت نہیں ہے یا پھر اپنی جیب گرم رکھنے کے لیے نئے منصوبہ جات پر عمل درآمد کرنا ایک سیا ستدان کی مجبوری ہے کیونکہ پالیسیاں بنانے کی ذمہ داری تو بیورو کریٹ مافیا کی ہے ۔ وہ جو بھی لکھ کر دے دیں گے وزیر اعلیٰ کے نام سے اخبار کے پہلے صفحے پر بطور کارنامہ چھپ جائے گا۔ ہم نے آج تک ایک بھی دانش سکول نہیں دیکھا ۔کوئی ایک آدمی ایسا نہیں دیکھا جس نے کہا ہو کہ آشیانہ ہاؤ سنگ سوسائٹی میں اس کو مفت گھر مل گیا ہے ۔ دوسری طرف کو ئی ایک ایسا نہیں دیکھا جو یہ کہے کہ مجھے پچھلی بار بانٹے گئے سر کاری ٹریکٹروں میں سے ایک مفت ٹریکٹر مل گیا ہے ۔ یا کوئی ایسا جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہوا ہو ۔ یا تو ہم اندھے ہیں یا اس معاشرے میں رہتے ہی نہیں یا پھر وہ لو گ جن کو ان سہولیات سے فائدہ ہو تا ہے وہ مافو ق الفطر ت مخلوق ہیں یا پھر وہ اتنے اعلیٰ درجے کے گھرانے کے لو گ ہوتے ہیں کہ ان تک پہنچ پانے کی ہم استطاعت ہی نہیں رکھتے ۔ اربوں روپے کے پر اجیکٹس میں سے آدھے سے زیاد ہ اشتہار بازی کی نذر ہو جاتے ہیں اور باقی ماندہ انہی بیور و کریٹس جنہوں نے منصوبہ تشکیل دیا ہو تا ہے اور سیاست دانوں کا مخصو ص حصہ مخصوص حربوں سے اپنی جیب میں بجٹ بنتے ہیں ۔ عوامی جلسوں میں دعوے کے ساتھ تقاریر ہوتی ہیں۔ محروم تماشا عوام تالیاں بجاتے ہیں ۔ قوم مایوس ہے ۔ قوم افسردہ ہے ۔قوم کا قائد مفقو د ہے ۔قوم کی داد رسی التوا کا شکار ہے ، عدل و انصاف عنقا ہے ۔اشیائے خور د و نوش دو گنا سے زائد مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہیں ۔ بڑے بڑے سرمایہ دار رمضان کے مقدس مہینے میں اربوں روپے لو ٹ کر ایک ، ڈیڑ ھ لا کھ کا عطیہ ان جعلی خیراتی اور فلاحی اداروں کو دیتے ہیں جن کے نام رمضان المبارک میں منظر عام پر آتے ہیں۔ ان نام نہاد اداروں میں سے پانچ فیصد بھی آپ کو حقیقی زندگی میں اپنا کردار ادا کرتے نظر نہیں آتے پھر ان کو ترجیح دلوانے والے ہمارے ملک کے نامور کرکٹرز ، اداکار ، گلو کار ، اینکر پر سن اور کالم نگار ہوتے ہیں۔ ان کی اپیل پر عوام کے خون سے نچوڑی ہوئی خیرات اہل ثروت ان اداروں اور تنظیموں کے حوالے کر کے ان کا نام اگلے سال تک کے لیے بھول جاتے ہیں اور وہ ادارے بھی اپنا نام بھول جاتے ہیں ۔ ایک دوسرا رجحان افطار پارٹی کا ہے ۔ روزے کے بغیر اپنے عزیز و اقارب کی افطاری اس امید پر کرائی جاتی ہے کہ وہ بھی ہمیں اس کا صحیح نعم البدل عطا کریں۔