ساجد بھائی نے اردو محفل فورم پر سوال کیا اعلیٰ حضرت کے اس شعر
پر
غیظ میں جل جائیں بے دینوں کے دل
"یارسول اللہ" کی کثرت کیجئے
"مجھے ایک سوال پوچھنا ہے کہ جو مسلمان
”یا رسول اللہ “ نہ کہے کیا وہ بے دین ہو جاتا ہے؟۔ جبکہ دینداری کا اسلامی معیار
تو اللہ کی توحید اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی
ماننا ہے ، اس میں تو ”یا رسول اللہ“ کہنے کی شرط نہیں ہے۔"
اقول و باللہ التوفیق
جی سر! یہ ایک علمی گفتگو ہے۔ اس کو علمی سطح
پر ہی جانچا پرکھا جائے ۔ انگریزی وکیپیڈیا میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان
قادری کے تنقید والے حصے میں لکھا ہے کہ انہوں نے علماء دیوبند کی تکفیر کی۔ اس کی
وجہ کچھ لوگ ان کی عشقِ رسول میں حد درجہ مبالغہ آرائی کو قرار دیتے ہیں۔ یہ سراسر
زیادتی ہے کہ عاشق رسول کو عشق کی وجہ سے کفر کے فتوے دینے والی مشین سمجھ لیا
جائے۔ ہمارے ہاں کچھ نعت خواں بھی اسی سوچ کے مظہر ہیں۔ کہتے ہیں کہ کہ وہ کالی کوئل نے جواب دیا میں عشق رسول میں
جل کر کالی ہو چکی ہوں۔ یہ بھی زیادتی و ظلم والی بات ہے کہ عشقِ رسول میں غرقاب بندے کو کالا، جلا ہوا یا مجنون سمجھ لیا جائے اور اسے عقل و دانش سے
بے بہرہ گردانا جائے۔
یو ٹیوب پر علامہ محمد ارشدالقادری کے سوال و
جواب والے جو کلپس ہیں۔ ان کا لنک یہ ہے۔
میں اس وقت یہ ویڈیو دیکھ نہیں سکتا۔ پاکستان
میں یوٹیوب بند ہے۔
اس وجہ سے مجھے ایگزیکٹ کلپ کا بھی اس وقت یقین
نہیں۔ لیکن انہی میں سے کوئی ایک ہوگا۔
یہاں اس سوال کے جواب میں کہ کیا صحابہ نے نبی
پاک کے وصال کے بعد "یارسول اللہ" کا نعرہ لگایا۔
علامہ
نے بتایا کہ جنگ یمامہ جو کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں سن
13 ہجری میں مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی اس میں صحابہ نے اپنا کوڈ ورڈ
(Code Word)
رکھا تھا
"یا رسول اللہ" کا نعرہ۔ کیونکہ مسیلمہ کذاب کے ہرکارے بھی "اللہ اکبر" کا نعرہ
لگاتے تھے۔ صحابہ کو حکم تھا کہ جو کہے "اللہ اکبر، یا محمدَ یارسول
اللہ" اس کو چھوڑ دو۔ جو "یا محمدَ یا رسول اللہ" نہ کہے اسے قتل کر دو۔ اس کا حوالہ وڈیو کلپ میں موجود
نہیں۔ لیکن میں نے خود پوچھا تھا۔ انہوں نے(مفتی محمد ارشدالقادری نے) تاریخ
"وفا ء الوفاء" اور "البدایہ والنھایہ لابنِ کثیر" کا بتایا
کہ ان کتب میں یہ واقعہ موجودہے۔
پھر نماز میں "السلام
علیک ایھاالنبی" کا بیان ہے۔ اسلام کے سب ماننے والے نماز میں پڑھتے ہیں۔
پہلے(بعد از وصال نبوی) صحابہ نے منع فرما کر "السلام علی النبی" کا فتویٰ دیا۔
لیکن پھر رجوع فرما کر نماز میں
"السلام علیک ایھا النبی " پڑھنے کا فتویٰ دیا۔ اس کا حوالہ قاضی عیاض مالکی کی کتاب الشفا
بتعريف حقوق المصطفى سے دیا ہے علامہ نے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ نماز میں سلام بطور
واقعہ ہے۔ مثلاً واقعہ معراج میں اللہ کی طرف سے سلام کو بطور تذکرہ پڑھا جاتا ہے۔
لیکن میری نظر سے مفتی محمد خان قادری کی
کتاب " یارسول
اللہ کہنا امت کا متفقہ مؤقف " اور ایک عرب عالم کی کتاب کا اردو ترجمہ"پکارو یا رسول اللہ" قبلہ مفتی محمد عبدالحکیم شرف قادری کے قلم سے
گزرا ہے۔جن میں اس موضوع کی ابحاث کو
تفصیلاً سمیٹا گیا ہے کہ یہ سلام نماز میں بطور سلام ہی ہے۔ بطور واقعہ نہیں۔
ایک اور دلیل اگر بطور واقعہ سمجھا جاتا تو صحابہ
کرام رضوان اللہ علہھم اجمعین پہلے سلام سمجھتے ہوئے منع نہ فرماتے۔ بعد میں حکم
دینا سلام کے جواز کی دلیل ہے۔
اسی نوعیت کے لا تعداد واقعات کتب تواریخ اور
کتب احادیث سے ملتے ہیں۔
حال ہی میں جب امریکی گستاخوں کی طرف سے ایک
گستاخانہ فلم بنائی گئی تو اُس کے بعد پوری دُنیا خصوصاً عرب دُنیا کے لوگوں نے جو
پلے کارڈز اور بینرز اُٹھا رکھے تھے ان پر یہ نعرہ جابجا درج تھا "لبیک یا
رسول اللہ"۔
وہ بینرز بریلی شریف سے بن کر نہیں گئے تھے
بلکہ عالَم اسلام کے مسلمانوں کے عقیدے کا اظہار تھا۔
رہا آپ
کا سوال
"مجھے ایک سوال پوچھنا ہے کہ جو مسلمان
”یا رسول اللہ “ نہ کہے کیا وہ بے دین ہو جاتا ہے؟۔ جبکہ دینداری کا اسلامی معیار
تو اللہ کی توحید اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی
ماننا ہے ، اس میں تو ”یا رسول اللہ“ کہنے کی شرط نہیں ہے۔"
اس کا جواب میری رائے میں یہ ہے کہ
جب نماز میں شرط ہے تو باہر بھی ہونی چاہیے
اگر یا رسول اللہ پُکارنے کو شرک قرار دیا جائے تو یا تو
پُکارنے والا شاید "بے دین" ہو۔ یا مُشرک کہنے والا خود بخود "بے
دین" ہو جائے گا۔ دونوں میں سے ایک پر اس کا لزوم ہے۔
جو لوگ تھوک کے لحاظ سے مسلمانوں کے مسلّمہ عقیدے کی وجہ سے
اُن پر فتوے لگائیں تواُن "بے دینوں" کے دل غیظ میں جلانے کے لیے
"یا رسول اللہ" پُکارنے کی کثرت کا کہا گیا ہے۔
جب صحابہ کرام نے ایمان کی علامت جنگ یمامہ میں "یا
محمدَ یا رسول اللہ" کے نعرے کو قرار دیا۔یہ ایمان کی علامت ہے۔ تو یہ شرک تو
نہ ہوا۔ صحابہ کرام سے بہتر توحید کون جانتا ہے۔
یہ گزارشات میری بساط کے مطابق ہیں۔ نہ کوئی فتویٰ ہے۔ اور
نہ کوئی لٹھ بردار دھونس۔
اب جس کے جی میں آئے وہ پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کر سرِعام رکھ دیا