’’پرویز مشرف کی حکومت کہتی ہے کہ عراق پر حملے میں امریکی مؤقف کا ساتھ دے کر ہم نے اپنی معیشت کو مضبوط کر لیا۔ اس کی مثال اُس بدکار فاحشہ عورت کی سی ہے جو بدکاری کرکے مال و دولت کمائے، پھر اس دولت سے اپنے گھر میں سجاوٹ کی چیزیں لا کر رکھے، جب اُس کا گھر مزین ہو جائے تو وہ کہے کہ دیکھو میرا گھر کتنا خوبصورت ہے۔‘‘
یہ اُس تقریر کا خلاصہ ہے۔ جو مولانا الشاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے میں نے 8 اپریل 2003 کی سہ پہر مال روڈلاہور پنجاب صوبائی اسمبلی کے سامنے میں نے خود اپنے کانوں سے سنی۔ مری عمر اس وقت 17 سال 19 دن تھی۔ اس سے پہلے جب عراق پر حملہ ہونے جا رہا تھا تو میں نے موری گیٹ لاہور میں ایک روزنامہ کی شہ سرخی دیکھی تھی جس کا لب لباب تھا کہ پاکستان کو ایک خطیر رقم عطا کی جائے گی کیونکہ پاکستانی حکومت امریکی یلغار کے حق میں ہو چکی تھی۔
یہ میری زندگی میں مولانا شاہ احمد نورانی کا پہلا اور آخری دیدار تھا۔ ہم ان دنوں جامعہ حنفیہ عنایت صدیق نزد داتا دربار ہسپتال (آنکھوں والا ہسپتال) کچا رشید روڈ عقبی جانب داتا دربار میں پڑھتے تھے۔ اُس جامعہ سے آٹھ یا دس طلباء آئے تھے۔ ہم چند لڑکے سولہ،سترہ سال کی عمر کے تھے اور دیگر ہم سے عمر میں بڑے تھے۔ میرے ساتھیوں میں سید محمد حسنین شاہ ، شبیر شاہ اور دیگر تھے(ان میں مظفر گڑھ کا بھی ایک جوان تھا جس کا مصدقہ نام اس وقت یاد نہیں)۔ہم ناصر باغ(گول باغ) کی جنوبی طرف مال روڈ پر جمع ہوئے۔ وہاں جامعہ نظامیہ لاہور اور جامعہ نعیمیہ لاہور اور دیگر اداروں کے طلباء موجود تھے اور مزید چلے آ رہے تھے۔ ان میں سے چند ہمارے جاننے والے بھی تھے۔ مثلاً علامہ رمضان رضا(جو پہلے رمضان ابراری ہوتا تھا) وہ جامعہ نظامیہ سے آیا تھا۔ اس نے انگریزی میں ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا۔ وہاں پولیس اہلکار بھی خاصی تعداد میں تھے۔ میں اپنے ساتھیوں کو الفریڈ وولنر کے مجسمے کی طرف اشارہ کرکے اس کی بابت کچھ غلط بتا رہا تھا۔ ایک پولیس والے نے ہمیں کہا ’’کتھے پڑھدے او؟ تہانوں تہاڈے اُستاد نے اے وی نہیں دَسیا کہ اے کسدا مجسمہ اے(کہاں پڑھتے ہو؟ آپ کے معلم نے آپ کو اس مجسمے کا بھی نہیں بتایا کہ یہ کس کا ہے)‘‘ چند ایک ٹرک نما گاڑیاں تھیں۔ جن پر قائدین سوار تھے۔ ناصر باغ سے آگے کو بڑھے تو آگے پولیس کی رکاوٹیں تھیں۔ بیریئر لگے ہوئے تھے۔ پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے۔ ٹرک میں سے اعلان نشر ہونا شروع ہوا۔
’’قائدین کَہ رہے ہیں رُک جاؤ، آگے مت بڑھو، رُکاوٹیں نہ ہٹاؤ، پولیس سے مت اُلجھو، قائدین کا حکم مانو، رُک جاؤ، قائدین کا حکم ہے کہ رُک جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
لیکن طلباء کا ہجوم ایک سمندر کی مانند تھا۔ میں بہت حیران اور پریشان بھی ہوا کہ یہ قائدین کے حکم کو تسلیم کیوں نہیں کررہے۔ایک رکاوٹ کو کھولا، بیریئر ہٹائے، دوسری کو ، تیسری کو۔۔۔۔۔(پولیس نے تحمل کا مظاہرہ کیا) اور قومی اسمبلی کے سامنے تک جا پہنچے۔ دائیں طرف نقاب پوش عورتوں کا قافلہ نظر آیا۔ وہ بھی چوک کی جانب بڑھ رہا تھا۔ ان کے ہاتھوں میں مولانا شاہ احمد نورانی کے پورٹریٹ تھے۔
مجھے طلباء کی نافرمانی اور جوش پر ایک دُکھ ہوا۔ کیونکہ میرے خیال میں جب کسی کو اپنا امیر مان لیا تو اس کے حکم کو تسلیم کرنا ضروری امر تھا۔ بہرحال وہاں چوک میں مَیں نے اور ایک دو ساتھیوں نے باقاعدہ کھڑے ہو کرتقریر نہ سنی بلکہ اِدھ اُدھر ٹہلتے رہے اور سنتے رہے۔ اور ایک جگہ پانی پلا یا جا رہا تھا شاید وہاں سے پانی بھی پیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ’’احتجاجی ریلی‘‘ کے اختتام پذیر ہونے سے قبل ہی ہم چند دوستوں نے واپسی کی راہ لی۔
اگر مجھے اُس وقت علم ہوتا کہ یہ ہستی جو ٹرک سے دھیمے اور باوقار لہجے میں ٹھوس دلائل سے باتیں کرکے حکومتی ایوانوںمیں تہلکہ مچا رہی ہے۔ یہ اس وقت عالم اسلام کا سب سے بڑا لیڈر ہے۔ یہ وہ بندہ ہے جسے قائد اہلسنت اور قائد ملت اسلامیہ کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اس بندے کی کسی اتنے بڑےجلوس میں یہ آخری تقریر ہے۔ اور اس کے بعد ان کی وفات کی خبر 12 دسمبر 2003ء کے اخبار میں مَیں پڑھوں گا۔ وہاں ان کے بیٹے مولانا انس نورانی کو جنازہ پڑھاتے ہوئے دیکھوں گا۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی پاکستان کے اسلامی دینی اور سیاسی میدان سب سے عظیم شخصیت ہیں۔ تو میں کم از کم ان تک پہنچنے کی کوشش کرتا اور ضرور مصافحہ کرتا یہ بہت بڑی سعادت ہوتی۔ ہمارے جامعہ میں بجلی کے ایک سوئچ بورڈ پر ’’جئے نورانی‘‘ کسی بورڈ مارکر سے لکھا ہوا تھا۔ میں سوچا کرتا تھا کہ یہ کس نورانی کے بارے میں لکھا ہوا ہے۔ کیونکہ مجھے کسی شخص کی خاص طور پر کسی عالم دین کی اس قدر پذیرائی کا ادراک نہ تھا۔ مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہ جو میں بڑا منہ پھاڑ کے کہتا ہوں کہ مرزائیوں کو پاکستان کی اسمبلی نے کافر قرار دیا ہواہے یہ بھی اُسی مولانا نورانی کی محنتوں کا ثمر تھا۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ جمیعت علماء پاکستان کے صدر وہ ہیں۔ ورلڈ اسلامک مشن کے چیئرمین وہ ہیں۔ پوری دُنیا میں ان کے شاگرد موجود ہیں۔ ایک بار داتا دربار پر موریطانیہ سے آئے ہوئے ایک علامہ نے بتایا وہ بھی مولانا نورانی کے شاگرد ہیں۔ ان کے ساتھ ان کا ایک جوان سال بیٹا بھی تھا۔ وہ اردو میں بھی بات کرلیتے تھے۔ وہ اپنے نام کے ساتھ نسبتاً ’’نورانی‘‘ لکھتے تھے۔
’’سنی کانفرسوں‘‘ اور ’’یارسول اللہ کانفرنسوں‘‘ کے روح رواں وہ ہیں۔ تحریک پاکستان میں ایک طالب علم لیڈر کی حیثیت سے حصہ لیا۔ “تحریک نظام مصطفیٰ” کوجاری کیا اور پوری قوم کو اس کے گرد گھما دیا۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے، امام اہل سنت مجدد دین و ملت کے خلیفہ (حضرت مولانا عبدالعلیم صدیقی )کے بیٹے اور حقیقی جانشین ہیں۔ اور پیرانہ سالی میں انتہائی فعال ہیں۔ سترہ زبانوں کو ان کے لہجے میں بول لینے کاکمال رکھتے ہیں۔ ملی یکجہتی کونسل کے بھی وہی بانی اور چیئر مین ہیں۔ اپنے اور بیگانے ان کو صاف دامن اور بے داغ سیاست دان مانتے ہیں۔ اہل سنت وجماعت کے علاوہ دوسرے مسالک کے علماء بھی ان کو اپنا بزرگ تسلیم کرتے ہیں۔ وزیر اعظم کےانتخاب کے لیے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے مد مقابل صرف وہی آئے۔ یہ دعوت اسلامی بھی انہی کی بنائی ہوئی تحریک ہے۔ ان کا پسندیدہ شعرتھا۔
’’سنی کانفرسوں‘‘ اور ’’یارسول اللہ کانفرنسوں‘‘ کے روح رواں وہ ہیں۔ تحریک پاکستان میں ایک طالب علم لیڈر کی حیثیت سے حصہ لیا۔ “تحریک نظام مصطفیٰ” کوجاری کیا اور پوری قوم کو اس کے گرد گھما دیا۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے، امام اہل سنت مجدد دین و ملت کے خلیفہ (حضرت مولانا عبدالعلیم صدیقی )کے بیٹے اور حقیقی جانشین ہیں۔ اور پیرانہ سالی میں انتہائی فعال ہیں۔ سترہ زبانوں کو ان کے لہجے میں بول لینے کاکمال رکھتے ہیں۔ ملی یکجہتی کونسل کے بھی وہی بانی اور چیئر مین ہیں۔ اپنے اور بیگانے ان کو صاف دامن اور بے داغ سیاست دان مانتے ہیں۔ اہل سنت وجماعت کے علاوہ دوسرے مسالک کے علماء بھی ان کو اپنا بزرگ تسلیم کرتے ہیں۔ وزیر اعظم کےانتخاب کے لیے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے مد مقابل صرف وہی آئے۔ یہ دعوت اسلامی بھی انہی کی بنائی ہوئی تحریک ہے۔ ان کا پسندیدہ شعرتھا۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
اس شعر کو بطورِآٹوگراف وہ بچوں کی ڈائریوں میں لکھ دیتے تھے۔ ایک نوجوان رانا محمد ارشدنے یونیورسٹی میں ان سے آٹو گراف مانگا۔ انہوں نے یہی شعر لکھ دیا۔ اُس نوجوان کی کایا اس ایک شعر نے پلٹ ڈالی۔ اور وہ دین کا مبلغ بن گیا۔مجھے کیا خبر تھی کہ جب میں کسی کے ہاتھ پر بیعت کروں گا تو میرے پیر و مرشد محمد ارشد القادری بھی اسی ہستی سے تربیت یافتہ ہوں گے۔ مجھے اُس وقت یہ خیال بھی نہ تھا کہ آنے والے وقتوں میں ان کی سی۔ڈی بازار سے لے کر ان کی تقریریں سُنا کروں گا اور انٹر نیٹ پر ان کے بارے میں سرچ کیا کروں گا اور کتابوں رسالوں سے معلومات اکٹھی کرکے انٹر نیٹ پر لکھا کروں گا۔ اور اگر ان سے متعلقہ کوئی بھی رسالہ ،کتاب یا کسی بھی ذریعے سےمعلومات ملا کریں گی تو ان میں میری خاطر خواہ دلچسپی ہوا کرے گی۔ ہاں! ایم۔ایم۔اے(متحدہ مجلس عمل) کا مجھے پتہ تھا لیکن شاید بانی اور صدر کا علم نہ تھا۔وہ مردِ حق پرست 16 شوال 1424ھ بمطابق11 دسمبر2003ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گیا۔ وہ مدینہ طیبہ میں دفن ہونے کی خوہش رکھتے تھے بالآخر انہیں کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار (کلفٹن) کے احاطے میں ان کی والدہ کی قبر کے پاؤں والی جانب دفنایا گیا۔ پچھلے دنوں 18 جنوری 2004 کو مدون کرکے شائع کیا گیا مجلہ “انوار رضا” ملا۔ جس میں مولانا کے حوالے سے اخبارات و جرائد اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا بھر سے تاثرات اور معلومات درج کی گئی ہیں۔ اسے ملک محبوب الرسول قادری نے جوہرآباد سے شائع کیا۔ اس کے سرورق پر لکھا ہوا ہے۔
کربلائے عصر میں وہ وارثِ حضرت حسین
اور یزیدوں کے لیے وہ موت کا پیغام تھا