جمعہ، 24 اگست، 2012

Jamia Islamia Razwia (Rizvia) Lahore Ferozewala Pakistan

جامعہ اسلامیہ رضویہ ایک دینی تعلیمی ادارہ اور اسلامی مرکز ہے۔ جامعہ اسلامیہ رضویہ کا سنگ بنیاد 1998 میں رکھا گیا۔ اس موقع پر بانی جامعہ مفتی اعظم پاکستان علامہ مولانا محمد ارشد القادری کے علاوہ مولانا عبدالتواب صدیقی ، مفتی عبدالقیوم ہزاروی، مفتی محمد عبدالحکیم شرف قادری ، علامہ الٰہی بخش ضیائی قادری، صاحب زادہ رضائے مصطفیٰ نقشبندی، مولانا عثمان نوری قادری اور دیگر علمائے کرام موجود تھے۔ یہ جامعہ شاہ خالد ٹاؤن جی ٹی روڈ شاہدرہ میں واقع ہے۔ اس میں دینی علوم یعنی حفظ و ناظرہ، تجوید و قرءات، درس نظامی، اور تحریر و تقریر کے علاوہ جدید عصری علوم میٹرک تا ماسٹرز کی تعلیم دی جاتی ہے۔ تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان کا مرکز جامعہ اسلامیہ رضویہ ہے۔ جامع مسجد نصرت مدینہ بھی مرکز میں واقع ہے


جمعرات، 16 اگست، 2012

ہر ملک ملک ما است

جس بندے نے کتابیں ’’جب امرتسر جل رہا تھا‘‘ مصنف خواجہ افتخار ’’شہاب نامہ‘‘ مصنف قدرت اللہ شہاب ’’خاک اور خون‘‘ مصنف نسیم حجازی نہیں پڑھیں اسے شاید ان حقائق سے آگاہی نہ ہو جو قیام پاکستان کے دوران تھے دراصل 14 اگست 1947 بمطابق 27 رمضان 1366بروز جمعرات یا اگلا دن کہہ لیں، یعنی کہ جس دن آزاد پاکستان قائم ہونے کا اعلان تھا کیونکہ ہندوستان پر تو تب بھی ماؤنٹ بیٹن کی حکومت تھی، آزاد تو صرف پاکستان تھا، بھارت تو اس دن بھی غلام ہی رہا۔ میرامطلب اس دن دہلی پر پاکستان کا پرچم لہرایا تھا۔ لیکن بد قسمتی سے تین دن بعد چاند رات کو آل انڈیا ریڈیو دلی(دہلی) کی سماچار کے مطابق اہنسا کے دیوتا کے پجاری دہلی، جونا گڑھ، حیدرآباد دکن،فیروز پور، گورداس پور، اور دیگر بیشتر علاقہ جات کو ماؤنٹ بیٹن اور ریڈ کلف کی بد دیانتی اور بنیے کی فسطائیت والی سوچ کے بل بوتے پر کائنات کی پرامن قوم امت مسلمہ سے چھین کر لے جا چکے تھے۔ لیکن لوگ جس کو تقسیم کہتے ہیں در اصل وہ آزادی تھی۔ لیکن جن اساتذہ نے سرحد پار بھی مشرقی پاکستان کے بچوں کو فکری طور پر یرغمال بنا کر قومیت کے نام پر اپنے اسلامی ملک کو دو ٹکڑے کرنے تک مشتعل کر دیا تھا انہوں نے انڈیا میں بسنے والے بچوں کے افکار کے ساتھ کیا کیا سلوک نہ کیا ہو گا اب آج 2012 میں بلوچستان کی مثال ہمارے سامنے ہے اگر ریڈ کلف اینڈ کمپنی یہ مکروہ دھندہ کر کے ’’خاک اور خون کی نئی لکیر‘‘ نہ کھینچتی تو کیا دس لاکھ مسلمان شہید ہوتے کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ 14 اگست 1947 سے تین دن تک مسلمانوں نے اعلان کردہ اپنے حصے میں ایک بھی ہندو یا سکھ پر ظلم کیا ہو؟ غیر متعصب مؤرخ سے ثابت کیا جائے۔۔۔۔۔۔ ! یا پاکستانی مسلمانوں نے جوابی طور پر بھی ظلم کیا ہو؟ غیر متعصب مؤرخ سے جواب۔۔۔ ؟ کشمیر تو ڈوگرہ راج کے ظلم کی نذر ہوا، جونا گڑھ اور حیدرآباد دکن کے معاملے میں کیوں نا انصافی برتی گئی؟ پاکستانی بچے بچیاں اس معاملے میں اس لیے نہیں بولتے کیونکہ ظاہر ہے کہ وہ میٹرک، ایف اے، بی اے میں بھی ’’مطالعہ پاکستان‘‘ کو مجبورا پڑھتے ہیں خدارا آپ ریسرچ کیجیے میں کیا کیا اور کہاں تک لکھوں آپ کو محمد علی جناح اور اہنسا کے دیوتا کے اصلی چہرے تحقیق کے بعد نظر آئیں گے آخر میں کشمیر پر یہ کہوں گا کہ ہم بد طنیت لوگ ہیں اگر ’’ماڈرن ورلڈ اینڈ پاکستان‘‘ 1950 والی تقریر والے دورہ امریکہ کی بجائے، روس کا دورہ رد نہ کیا ہوتا تو شاید کشمیر کا کوئی نہ کوئی حل ابتدائی ایام میں ہی نکل آتا اور صورت حال کچھ مختلف ہوتی پھر ہمارا ’’نمبردار‘‘ایک ہی رہتاچاہے وہ بھی اشتراکیت اور دہریت میں ڈوبا ہوا تھا لیکن دو طرفہ یا چومکھی پردانسی کے گھیراؤ سے پاکستان بچ جاتا اور شاید فیصلے کرنے کا کچھ اختیار خود بھی رکھ لیتا جس طرح انڈیا 15 اگست 1947 کو آزاد نہ ہوا بلکہ ماؤنٹ بیٹن کی تحویل میں رہا بالکل اسی طرح ہماری پاک فوج بھی جنرل گورسی کی کمانڈ میں تھی ورنہ کشمیر 1947 والے جہاد میں آزاد ہو چکا ہوتا اور ہمارا عقیدہ ہونا چاہیے کہ جنوبی کوریا کے مسمانوں سے لے کر ایشیا، افریقہ، یورپ و امریکہ اور نیوزی لینڈ تک کے مسلمان ’’خودمختار اور آزاد‘‘ تو ضرور ہونے چاہئیں مگر بنگال اور بلوچستان کی طرح باغی نہیں میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ہم نے اپنے بنگالی بھایؤں اور بلوچ بھایؤں کے ساتھ ہر گز انصاف نہیں کیا لیکن وہ بھی فکری یرغمال ضرور ہوئے ہیں ہم سب ایک ہیں سب کو ’’انما المؤمنون اخوۃ‘‘کی تصویر ہونا چاہیئے ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کے مصنف کے بارے میں میرے جملہ تاثرات محفوظ ہیں یہ فرق فکری تربیت کا ہوتا ہے ان شاء اللہ اب ہم اسلامی خطوط پر امت مسلمہ کی فکری اور عملی تربیت کریں گے اور آنے والا وقت ہمارا ہے کشمیر بھی ہمارا ہے ڈھاکہ و دہلی وغرناظہ بھی ہمارا ہو گا ان شاء اللہ! اب وہ وقت تھوڑی ہی دور رہ گیا ہے جب کشمیر فسطائیت کے ظلم سے نجات پائے گا تو امریکی ایجنٹ دہشت گرد تنظیموں کی گرفت میں نہیں، رسول اللہ کے غلاموں کی حفاظت میں ہو گا۔ ’’وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین‘‘ کے مصداق اگر ہم آج اپنی نیتیں صاف کر لیں تو اللہ عزوجل ہم پر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا کوئی ایک غلام حکم بنا دے گا۔ اور قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہو جائے گی پھر ہم کہیں گے ان شاء اللہ ’’ہر ملک ملک ما است‘‘

کیا پاکستان محض ایک قطعہ اراضی کا نام ہے؟

کچھ لوگ ابلیس کے وسوسوں میں آ کر یہاں تک ہذیان بکتے ہیں کہ فلاں دور میں فلاں کانگریسی (مسلم نما) لیڈر نے یہ کہا تھا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ؟ اگر پاکستان بن گیا تو۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ! کچھ نیشنلسٹ زر خرید ملاؤں کی باتوں کو اپنے لیے حجت قرار دیتے ہیں کہ انہوں نے آج سے اتنا عرصہ پہلے مسٹر جناح (قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ) کو انگریز کا ایجنٹ قرار دیا تھا اس طرح کے شیطانی وسوسے پھیلانے والے کچھ مذہب کے لبادے میں ہیں کچھ دہریت کے لبادے میں اور کچھ مہاجریت کے! ہر تین طرح کے حاملین کا ایک ہی ایجنڈا ہے اور وہ ہے امت مسلمہ کو تنزل میں دھکیلنا۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی اسلام کے خلاف، کبھی اسلامی شعار کے خلاف، کبھی مسلم ممالک کے خلاف اور کبھی مسلم بزرگوں کے خلاف میں ان قوتوں سے صرف یہی کہوں گا کہ آپ نے جو فرمایا وہ ایک خاص مکتبہ فکر کے حامل لوگوں کی فکر کا غماز ہے حقیقتا آپ نے ایک قطعہ اراضی کو موضوع بحث بنایا حالانکہ یہ ایک نظریہ حیات یعنی اسلامی نظریہ ہے جو یہ پاکستان کہلاتا ہے آپ کے مکتبہ فکر کی خصوصیت یہی ہے کہ وہ نان ایشو کو ایشو بنا کر غلط طریقے سے درست چیز پر تنقید کرتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ابن علقمی کے پیروکار ابھی زندہ ہیں ان باطل قوتوں کو کچلنے کے لیے پھر سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کسی غلام کی ضرورت ہے

اتوار، 12 اگست، 2012

Girls Education



Quaid e Azam Aur Qaum








بچیوں کی تعلیم و تربیت

معاشرے کا سب سے نازک تر ین اور حساس ترین طبقہ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور ان میں بھی اہم ترین بچیاں ہیں نو مولود سے شباب تک اور شادی سے بڑھاپے تک کا سفر کوئی معمولی نہیں ہوتا ہمارے ہاں ایک نہیں سب معاملات ہی الٹ ہیں بچیوں کی درست تعلیم وتربیت کوئی کرتا ہی نہیں اور پھر مور ودِ الزام ٹھہراتے ہیں زمانے کو، چھوٹے بچے تو ایک صاف شفاف صفحے کی طرح بالکل کورے ہوتے ہیں آپ اس صفحے پر یعنی ان کے ذہن پر کچھ بھی لکھ سکتے ہیں جیسے غوث اعظم سرکار رحمۃ اللہ علیہ کے نانا نے اپنے داماد سے کہا تھا کہ میری بیٹی اندھی، لو لی لنگڑی اور گونگی ہے دراصل شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ علیہ کی والدہ کی تربیت ایسے ماحول اور ایسے انداز سے کی گئی تھی کہ ان کی والدہ محترمہ نے اپنی شادی ( نکاح) سے پہلے نہ تو کسی نامحرم کو دیکھا، نہ کہیں چل کر غیر محرم کے گھر گئیں اور نہ ہی کبھی حتیٰ  کہ پردے کے پیچھے بھی کسی سے بات کی، وہ پندرہ سپاروں کی حافظہ بھی تھیں اور ان سپاروں کو اکثر زبانی پڑھتی رہتی تھیں اگر بیٹیوں کی ایسی اسلامی تعلیم و تربیت کی ہوئی ہو تو پھر بیٹا بھی غوث الثقلین ہی بنتا ہے کسی نے کہا تھا کہ تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمہیں پڑھی لکھی قوم دوں گا ایک دانا کا قول ہے کہ ایک مرد کی تعلیم و تربیت صرف ایک فرد کی تعلیم ہے جبکہ ایک لڑکی کی تعلیم و تربیت ایک پورے کنبے کی تعلیم و تربیت کا بندوبست ہے علامہ اقبال بھی بچیوں کی اچھی تعلیم و تربیت کے قائل تھے لیکن وہ مغربی تعلیم اور مغربی تعلیمی نظام کو زہر ہلاہل سمجھتے تھے حتیٰ کہ مو صوف تو نوجوانوں کے لیے بھی اس تعلیم کو زہر قاتل ہی گردانتے تھے بچیاں تو بہت دور کی بات ہے اسی مغربی نظامِ تعلیم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے فرمایا
گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا اَلہ الا اللہ
اس لفظِ مدرسہ سے مُراد دین کی تعلیم دینے والا مدرسہ ہر گز نہ تھا اقبال کے طرز تفکر کو یہ زیب نہیں دیتا اس سے ان کی مراد مغربی باطل نظام تعلیم تھا کیونکہ اس دور میں اس تعلیم کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا آج بھی بچیوں کی تعلیم و تربیت کا معاملہ انتہائی مخدوش ہے ہم ان ننھی منھی کو نپلو ں کو آغاز بچپن میں انگریزی نظام تعلیم کو سونپ دیتے ہیں اور پندرہ ، سو لہ سال کی کافرانہ طرز کی تعلیم و تربیت کے بعد ہماری اپنی بیٹی اندر سے انگریزی ذہن بنا کر ہمارے سامنے کھڑی ہوتی ہے اور ہم ہی کو پاگل جاہل جنگلی وحشی دقیانوسی اور قدامت پسند کہتی ہے ورنہ خو د کشی اور دوسرے اخلاق باختہ راستے اس کی تباہ کاری پر آخری ضرب کاری ہوتے ہیں۔ یہاں بات ہوتی ہے خواتین کو دیئے گئے اسلام کے حقوق کی، لیکن عملی طور پر کہیں بھی ان کو وراثت میں سے حصہ نہیں دیا جاتا اور ان کی کمائی کو کہیں بھی ان کی ذاتی ملکیت قرار نہیں دیا جاتا ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے ہم دو غلے ہیں منافق ہیں غدار ہیں اور جو کچھ جھیل رہے ہیں اسی کے سزا وار ہیں جیسا کہ ڈاکٹر نے فرمایا
اقبال بڑا اُپد یشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا کر دار کا غازی بن نہ سکا
ہم نے اسلام کی حقیقی تعلیمات کو چھوڑ کر غیروں کی تقلید کو اپنا لیا اور اپنی ہی بوئی ہوئی فصل کاٹ رہے ہیں ہر ایک بچی کو اگر زمانہ طفولیت ہی سے وہ پیار اور شفقت نصیب ہو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹیوں کو دی اور ان کے ذہن کی زرخیز سر زمین پر اسلامی تعلیمات کا پودا کاشت کیا جائے اور ان کے حقوق کو پورا کرنے کا عملی مظاہرہ کیا جائے ان کی تعلیم و تربیت اسلامی انداز میں کی جائے ان کی نیک گھروں میں شادیاں کی جائیں تو کیا وجہ ہے کہ آنے والوں زمانوں میں محمد بن قاسم اور محمود غز نوی کے پیرو کاروں کی قطاریں نہ لگ جائیں ہمارے ہاں بچی پیدا بعد میں ہوتی ہے ماتم پہلے شروع ہو جاتا ہے حالا نکہ اللہ کے سب سے اعلیٰ وارفع نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے اللہ کی رحمت قرار دیا ہم کہاں کے مسلمان ہیں جو اپنے نبی کی بات کو ماننا گوارا نہیں کرتے ویسے بہت بڑے عاشق رسول بنتے ہیں پھر بچی کو گھر میں بیٹوں کے بعد ثانوی حیثیت دی جاتی ہے جیسے وہ کوئی گھٹیا مخلوق ہو پھر اس کی تعلیم و تربیت میں لڑکوں کی نسبت حد درجہ تک غفلت برتی جاتی ہے حالا نکہ نبی کریم روف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص دو بچیوں کی ( ایک روایت میں چار بچیوں کی) اچھی پرورش کرے اور ان کو اچھی جگہ نکاح دے تو وہ قیامت کے دن یوں میرے ساتھ ہو گا جیسے میری یہ دو انگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں آج ہم بڑا واو یلا کرتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو وہ حقوق اتنی صدیاں پہلے عطا کر دیئے تھے جو مغرب نے آج تک بھی نہیں دیئے اور مغربی انسانی حقوق کی ظالم تنظیمیں فضول میں ہی شور مچاتی رہتی ہیں دراصل اس دور کے عرب معاشرے میں وہ قانون فوراَ لا گو بھی ہو گیا تھا اور اس پر عمل بھی ہوا ہمارے پاکستانی اور ہندو ستانی خطے میں انگریزی سام راج سے لے کر اب تک بیٹی اور بہن کو وراثت کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے میں آئین کی بات نہیں کر رہا عمل کی بات کر رہا ہوں آ ئین میں نجانے کیا لکھا ہو گا بہر حال یہاں عمل نام کی کوئی چیزنہیں ہے اور پھر آج ثقافتی یلغار کا دور ہے ہم نے اپنے بچوں کو گھر میں ٹی وی اور کمپیوٹر تو لا کر دے دئیے لیکن ان کو ان کا درست استعمال نہیں بتایا اور نہ ہی عملی مظاہر ہ کر کے ان کو اچھے چینلز اوراچھی ویب سائٹس کا عادی بنایا سارا دن ہندو ستانی کافرانہ تہذیب و کلچر اور مور تیوں کا پو جا جانا، دیکھنے والے بچوں سے اسلام پسندی کی توقع رکھنا عبث ہے ان کو ہندو ستانی رسم و رواج اور ان کی شادی بیا ہ کے طریقے، ہولی اور دیوالی کی تو مکمل سو جھ بو جھ ہے مگر افسوس اسلامی نظامِ حیات کا کچھ پتہ ہی نہیں اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات تھا اور ہم نے اُسے صرف چند عبادات کا مجموعہ سمجھ لیا اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری مغربی افکار کے حامل اساتذہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود بری الذمہ ہو گئے اورمعاشرہ ناسور بنتا جارہا ہے ہمیں صرف دھن دولت اکٹھی کرنے کی پڑی ہوئی ہے اور آسمانوں پر ہماری تباہی کے تذکرے ہورہے ہیں ہم خوابِ خر گوش سے کب جاگیں گے اور اپنے آپ کو کب پہچانیں گے وہ وقت کب دوبارہ آئے گا جب اقوام عالم ہمیں ہمارے اعلیٰ کردار سے جانیں گی اور ہم ان کے آئیڈیل بن جائیں گے

اتوار، 5 اگست، 2012

نوجوانوں میں ہیجان کا حل



حدیث پاک سےمیلاد کی نعت


Hadrat Imam Shafi




Imam Ahmad bin Hunbal



ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات



گفتگو اور خاموشی کے آداب


Fikr e Raza Conference Press Report





علامہ اقبال اور کشمیر



بدھ، 1 اگست، 2012

اسے کیا خبر تھی

بچپن میں بہنوں، بھائیوں کے ساتھ فصلوں میں کھیلنا اور تجسس کی وجہ سے الٹے سیدھے کام کرنا اُس کا مرغوب مشغلہ تھا ہمسائیوں کے گھر میں جاکر بوہڑ کے درخت کے سائے تلے جھولے جھولنا اور رنگ برنگی تتلیوں کے پیچھے بھاگنا اور ان کو نہ پکڑ پانے سے مایوس ہونے کی بجائے پھر سے نئی تگ و دو میں جُت جانا یہی زند گی تھی
کھیتوں میں اپنے گھر کے اردگرد مٹر گشتیاں کرتے رہنا ہی صبح سے شام تک کا حاصل تھا۔ کھیتوں میں ہی موجود ایک دوسرا گھر اُس کا ہمسایہ تھا ان ہمسائیوں کے ہم عمر بچوں سے کھیلنا اور گفتگو میں اپنے مو قف کو درست ثابت کرنا ہی کل کائنات تھی کبھی ہمسائیوں کے گھر میں بوہڑ کی گولیں کھانا اور کبھی اپنے شہتوت کے درختوں سے شہتوت کی گولیں کھا نا سب سے بڑی عیاشی تھی۔
جمعرات کو نہری پانی کے کھا لو ں میں پانی کے آنے پر پانی میں نہانا، کپڑوں کا دُھلنا اور اُسی پانی میں سے پینے کے گھڑوں کا بھر لیا جانا ہی مکمل لطف اندوزی تھی کیونکہ اُس کے گاؤں کا زمینی پانی میٹھا نہ تھا اس لیے اُ ن کو کھالے کا گدلا پانی پھٹکری کی مدد سے صاف کر کے پینا پڑتا تھا اور گھر کے سامنے لگے ہوئے دستی نلکے سے صرف صبح کے وقت چہرہ وغیرہ دھو لینے کا کام لیا جاتا تھا اس پانی سے نہاتے وقت سر کے بال نہ نکھرتے تھے اور کپڑوں کے داغ نہ دُ ھلتے تھے پینے کے لیے وہ منا سب نہ تھا کیونکہ یہ کھارا پانی تھا


اُن کے کھالے میں انہوں نے بانس کے درختوں کے جُھنڈ سے آگے ایک گڑھا بنا رکھا تھا جسے وہ پنجابی میں ’’ ڈِ گی‘‘ کہتے تھے(یہ انگریزی کا لفظ ہو سکتا ہے)۔ ڈگی میں جمعرات کے دن پانی بھر جاتا تھا پھر ہفتہ بھر وہی پانی پینے اور دھونے دھلانے کا کام دیتا تھا۔ کتنی سادہ اور رنگین زندگی تھی! برسات کی شاموں میں نہری پانی کے کھا لوں کی منڈیروں پر اُگی ہوئی گھاس سے جگنو نمودار ہوتے اور رات کے وقت وہ جگ مگ جگ مگ کرتے نظر آتے تو اس کا جی چاہتا کہ وہ اُن جگنوؤں کو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں میں پکڑ کر دیکھے کہ آخر یہ روشنی آتی کہاں سے ہے 
اُن کے گھر کے بالکل سامنے کھالے پر ایک چھوٹا سا مصنوعی جوہڑ بنا ہوا تھا جس میں ذخیرہ شدہ پانی ہفتہ بھر جانوروں یعنی مو یشیوں کے نہانے اور پینے کے کام آتا ہے اور وہ کھالا یعنی پانی کا چھوٹا سا نالا سیدھا آگے کچی سڑک تک جاتا تھا لیکن بچپنے کی وجہ سے ایک لمبا راستہ محسو س ہو تا تھا۔ جس جانب سے یہ کھالا آتا تھا کو ئی ایکڑ بھر کے فاصلے پر یہ بڑے یعنی مرکزی کھالے سے نکلتا تھا۔ اُس کے لیے یہ بھی طویل فاصلے پر موجود ایک موڑ تھا۔ یہ مرکزی کھالا جنوب کی طرف سے آتا تھا۔ تھوڑی دُ ور ہی گنے کے کھیتوں میں سے گزر کر یہ کھالا کچی سڑک تک پہنچ جاتا تھا اور جو چھوٹے کھالے کے اختتام پر مغربی طر ف کچی سڑک گزرتی تھی وہ بھی اسی سڑک کے ساتھ جنوب مغرب کی طرف سے منسلک تھی۔ چھوٹے کھالے کے اختتام پر کچی سڑک کے پاس چند گھر آباد تھے۔ ان میں سے چند افراد کا اُس کے گھر میں روز کا آنا جانا تھا۔ اُن میں ایک آدمی کے پاس ایک بڑی سی ٹیپ یعنی کیسٹ پلیئر ہوتی تھی۔
اور اس میں اُس دور کے گانے چل رہے ہوتے تھے 

ُُ’’ چِٹا میں کبوتر اُڈار چھوڑ یا 
ماہیا تیریاں یاداں میکوں مار چھوڑیا ‘‘

’’تیرے ظُلماں توں ہو کے مجبور 
اسیں چلے تیرے و طناں تو ں دُور 
جین نہیں دیندی دنیا 
جین نہیں دیندی دنیا 
( جب وہ جوانی کو پہنچ گیا تو تب بھی یہ نغمے اس کی یادوں سے محو نہ ہو سکے)

وہ شام کے اوقات میں گھر کی بیرونی جانب بیٹھا کرتے اور خو ش گپیاں لگایا کرتے اُن کی یہ محدود سی دُنیا تھی اور محدود سی خو شیاں تھیں اور تب غم بھی محدود ہی تھے تب ان کو زمانے کے نشیب و فراز سے آگاہی نہ تھی اور حسرتوں کے خون ہو جانے کا علم نہ تھا یہ اس کے بچپن کی یادیں تھیں ان میں سے اُسے بہت سی یاد رہیں اور وہ اُن کو چاہ کر بھی نہ بھُلا سکا لیکن وہ اُن کو بھُلا نا بھی تو نہیں چاہتا تھا کیونکہ یہی تو وہ بے فکری کے دن تھے جب اُسے غمِ روزگار نہ تھا جب اُسے غمِ دنیا نہ تھا جب اُسے اُمت کے مسائل سے واقفیت نہ تھی جب اُسے سود زیاں کا ادراک نہ تھا جب اُسے کسی مفلس کی مفلسی کا غم نہ تھا جب اُسے کسی نادار کی ناداری کا دکھ نہ تھا جب اُسے بے بسی کے آنسوؤں کی خبر نہ تھی جب اُسے غریبوں کی غریبی کا احساس نہ تھا اور جب اُسے یہ بھی علم نہ تھا کہ امیر کیا ہوتے ہیں ۔جب اُسے ماضی و مستقبل کی خبر نہ تھی اور اُسے تو اپنے حال کا بھی علم نہ تھا وہ تو شام کو اپنے ریڈیو سے نکلتی آوزیں سُن کر بے فکر ہو کر سو جا یا کرتا تھا اُس کی راتوں کی نیند ابھی اُچاٹ نہ ہوئی تھی اور وہ خود کو بے منزل راہی تصور نہ کرتا ہے اُسے اپنی منزل کی خبر نہ تھی اور کسی ’’نوائے منزل‘‘ کا بھی انتظار نہ تھا


اُسے یاد تھا کہ ایک دن وہ کسی مہمان کے لیے کھانا لے کر گھر سے دوپہر کے وقت بغیر جوتوں کے نکلا تو سامنے شہتوت کی چھاؤں تک پہنچتے پہنچتے اُس کے پاؤں گرمی سے تپی ہوئی زمین پر یوں لگا جیسے جُھلس گئے ہوں اُس کے بعد ہو کبھی بھی ننگے پاؤں نہ چلا تھا اپنی زندگی میں اُ س نے درجنوں بچے ایسے دیکھے کہ جنہیں جوتوں کے پہننے کا کبھی شعور نہیں رہا اور وہ سخت گرمیوں میں بھی ننگے پاؤں دھوپ میں چلتے پھرتے بھاگتے کودتے اور کھیلتے نظر آتے۔ لیکن آج اُس کے پاؤں کا گرم ہو جانا اُس کے لیے ایک نصیحت بن گیا تھا اور اُس نے اس نصیحت کو پلے بندھ لیا اُسے یاد تھا کہ ایک بار اُس کے پسندیدہ بزرگ دوست کے خیالات کے ہم آہنگ وہ خو د بھی ایک سیاسی پارٹی کا حامی رہ چکا تھا حالانکہ وہ اتنا چھوٹا تھا کہ سیاست تو کجا اُسے اپنے ملک کا نام یا اپنے گاؤں تک کا نام معلوم نہ تھا اور جب وہ پارٹی ہار گئی تو اُسے بھی پتاچل چکا تھا کہ اُس کی پارٹی ہار چکی ہے اور جب وہ بزرگ ان کے گھر آئے تو اُس نے بے ساختہ کہا تھا ’’بابا اپنی بالٹی تے مودھی ہو گئی‘‘یعنی ہماری بالٹی اُلٹ گئی اس نے ابھی تک اپنی زبان سے تو تلے الفاظ میں پارٹی کو صرف بالٹی کہنا سیکھا تھا یعنی اُسے اپنے انتہائے بچپن کی باتیں بھی یاد تھیں حالا نکہ اُس کا مشاہدہ تھا کہ اُس کے دوسرے ہم عمر اور ہم جولی لو گ جو اُسے زندگی کے مختلف موڑوں پر ملے انہیں اپنی دس بارہ سال کی عمر کے بعد کے واقعات بمشکل یا د تھے

تب وہ دور سُہانا تھا وہاں صبح کے وقت گنے کی فصلوں میں دُھند چھائی ہوتی تھی اور صبح کے وقت جا گ کر صبح کا کھانا کھانے سے قبل باہر جوہڑ کے کنارے لگے ہوئے دستی نلکے سے مُنہ دھونا ایک روزمرہ کا ضروری امر ہوتا تھا  وہ اپنے بڑے بہن بھائیوں کے ساتھ نلکے تک ہاتھ منہ دھونے کے لیے جاتا تھا اُس کے بڑے بہن بھائی اُسے ڈراتے تھے کہ و ہ خو د پہلے گرم گرم پانی سے اپنا ہاتھ منہ دھولیں گے اور وہ ٹھنڈے پانی سے بعد میں منہ دھوئے گا حالانکہ اُسے علم نہ تھا کہ سردیوں میں تو نلکے کے نیچے سے نکلنے والا مزید گرم تر آتا ہے  یہ اُس بچپنے کی طبیعت کی سادگی تھی اور یہ سادگی عمر بھر اُس کے ساتھ ہی رہی اُس کے جاننے والوں نے اس کی اسی نفسیاتی کمزوری کو خوب استعمال کیا اور اکثر مواقع پر اُسے ہمیشہ نلکے پر ہاتھ منہ دھونے کے عمل کی طرح بلیک میل کیا گیا یہ سادگی اس کی سرشت میں شامل تھی وہ ذہین ہونے کے باوجود بھی عیار نہ بن سکا وہ لو گوں کو دھوکے نہ دے سکا وہ جھوٹ بول کر اپنا اُلو سیدھا کر لینے والا نہ بن سکا اس نے اپنی سادگی کی بناء پر دھوکے کھانے تو سیکھ لیے لیکن دھوکے دینا نہ سیکھا

اُسے یا د تھا کہ ایک بار بارش ہوئی تھی تو اُن کی وہ بڑی سی چار پائی جو پلا سٹک کے بان سے بُنی ہوئی تھی وہ صحن میں ہی پڑی رہی اور بارش کے بعد وہ اس پر آکر لیٹا تھا تو کتنا خوش گوار محسوس ہوا تھا پھر گھر کے تمام افراد ایک بڑی سی چادر لیے شہتوت کے درخت کے نیچے کھڑے ہوگئے اور گھر کے بزرگوں نے شہتوت کو ہلایا تو بہت ساری گولیں یعنی شہتوت کے پھل اُس چادر پر گر گئے تو بارش کے بعد ان لو گوں کو کھانے کا جو لُطف تھا اور جو موسم کا سہانا پن تھا وہ اُسے بعد میں عمر بھر نظر نہ آسکا اُس کے بعد ہمیشہ سُہانے موسم میں وہ پریشان ہو جاتا تھا اور اُداس رہنے لگا تھا اُس پہلے سہانے مو سم کا نعم البدل اُسے کوئی اور موسم محسوس نہ ہو سکا اور وہ موسموں کے ان ہیر پھیر میں اُلجھ کر رہ گیا


پھر ان کے ابو نے ہمسائے کے بڑ( بوہڑ) کے درخت سے ایک بڑی سی قلم لا کر اپنے جو ہڑ کے کنارے لگا دی زندگی کے ایک موڑ پر دوبارہ اس کا گزر اپنے بچپن کے گھر کے پاس سے ہوا تو اُس نے دیکھا تھا کہ وہ پودا اب ایک جوان درخت کی صورت اختیار کر گیا تھا اُسے یاد تھا کہ ایک بار ان سب بہن بھائیوں نے مل کر پیچھے ہمسائیوں کے گھر سے واپسی پر کھیتوں میں جلی ہوئی راکھ کا ایک ڈھیر دیکھا وہ سمجھے کہ یہ ٹھنڈی راکھ ہے تو وہ اُس راکھ میں سے گزر گیا یکایک اُسے احساس ہوا کہ یہ راکھ ٹھنڈی نہ تھی بلکہ اس میں آ گ کے دہکتے ہوئے انگارے چھپے ہوئے تھے اور اُس کے پاؤں کو جلن کا احساس ہوا۔ اُس نے اپنے بھائی اور بہن کو بتایا کہ اس آگ نے اس کے پاؤں جلا دیئے ہیں ۔تو سب مل کر اس آگ سے بدلہ لینے کے لیے اُس راکھ میں مٹی کے ڈھیلے پھینکنے لگے۔ انہوں نے بے شمار ڈھیلے پھینک کر اپنا انتقام لے لیا اور گھر آکر سارا ماجرا کہہ سنایا۔ گھر کے بزرگوں نے جب سنا تو انہوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا کیونکہ اُس راکھ یعنی آگ میں انہوں نے کوئی دوائی تیار کرنے کے لیے ہڈیاں وغیرہ جلنے کو رکھی ہوئی تھیں۔

تب گھر کے بزرگوں نے جاکر اُس راکھ کے ڈھیر میں سے اپنی تیار کردہ دوائی کو نکالا اور بچوں کو اس طرح کی غلطیوں سے محتاط رہنے کو کہا حالانکہ غلطیوں سے محتاط تو انسان ہوتا ہی غلطی ہو جانے کے بعد ہے اور اس کے بعد زندگی میں بے شمار غلطیاں سرزد ہوئیں اور ہر بار آئندہ ان سے محتاط رہنے کا پختہ ارادہ کیا لیکن آئندہ پتہ ہی تب لگتا جب کام غلط ہوجاتا اور بعد میں پھر مستقبل کے لیے تازہ عزائم باندھے جاتے


اُسے یہ یاد تھا اُن کی ایک لال رنگ کی ایک گائے ہوتی تھی اور اُسے وہ دن بھی یاد تھے جب اُس کے ماموں کے قتل ہوجانے پر اس کی امی اس کے ننھیال گئیں اور ان تین بہن بھائیوں کو گھر چھوڑ گئی تھیں تو وہ وہیں رہے ماموں کے قتل ہوجانے کے افسوس کا تو اُسے احساس نہ تھا کیونکہ وہ بہت ہی چھوٹا بچہ تھا بلکہ تب تک اُ ن کو صحیح صورت حال کا عمل نہ تھا اُن کی والدہ کو بھی درست حقیقت نہ بتائی گئی تھی اُسے بھی یہی بتایا گیا تھا کہ اُس کے بھائی کی کسی کے ساتھ لڑائی ہوئی تھی اور اُسے چوٹیں آگئی تھیں اور وہ ان چھوٹے بچوں کو گھر میں چھوڑ گئی تھی یہ بچے ان چند دنوں میں اپنے چچا کے ساتھ رہے ایک شام جب اُن کا چاچو گھر سے تھوڑی دور فصلوں کو نہری پانی دے رہا تھا تو وہ اُسے پکارتے رہے کیونکہ وہ گھر میں گھبرا رہے تھے


اُسے یہ بھی یاد تھا کہ اُس کی بڑی بہن نے قریبی گاؤں میں سکول پڑھنے کے لیے جانا شروع کر دیا اور ایک بار اُس نے گھر میں سے کتابیں خریدنے کے بہانے سے کافی سارے روپے مختلف افراد (امی ، ابو اور چاچو) سے لے کر جمع کر لیے اور سکو ل جاکر اپنی سہیلیوں کے خربوزے اور تربوز کھائے تھے

پھر اُس کے بڑے بھائی نے بھی سکول جانا شروع کر دیا پچھلے ہمسائے کے لڑکے کے ساتھ وہ سکول جانے لگا بڑے بھائی کے بعد آخر کار اُسے بھی سکول داخل کروا دیا گیا وہ بھی اُن دونوں کے ساتھ کھالے سے سڑک تک اور سڑک سے سیدھے گاؤں کے شروع ہونے سے پہلے پرائمری سکو ل میں پڑھنے کے لیے جانے لگا۔ اُسے یہ بھی یاد تھا کہ جب وہ اُس سکو ل میں جاتا تھا تو ایک دن سکول سے واپسی پر ہمسائے لڑکے نے (جو کہ اس کے بڑے بھائی سے بھی بڑا تھا ) اُس کے بھائی سے کہا تھا کہ تم گھر سے کل دس پیسے کا سکہ لانا اپنے گھر والوں سے کہنا کہ سکو ل میں چندہ جمع کروانا ہے یہ سکو ل گاؤں کی بیرونی جانب ہی واقع تھا سکول میں چھوٹے چھوٹے پلا ٹ بنے ہوئے تھے ان پلاٹوں کے کنارے گینڈے کے خو بصورت پھول لگے ہوئے تھے اور پلا ٹوں کو پانی کی فراہمی کے لیے پانی کی نالیاں بنی ہوئی تھیں اُسے ابھی تک سکو ل کے قواعد و ضوابط کا بھی علم نہیں تھا اُسے صرف اپنا ایک ٹانگوں سے معذور مانیٹر لڑکا یاد تھا وہ شہتوت کے درخت کی پتلی سی نرم چھڑی سے شرارتی لڑکوں کی پٹائی کرتا تھا اُسے مانیٹر کی طبیعت سے بہت خو ف آتا تھا لیکن اُس کی پٹا ئی کبھی بھی نہ ہوئی کیونکہ وہ بہت ہی چھوٹا بچہ تھا اور ڈرتا رہتا تھا پھر اس نے کبھی کوئی شرارت بھی تو نہ کی تھی۔ اُس نے وہاں اُردو کا نیا قاعدہ چند صفحے ہی پڑھا تھا ۔ جس صفحے پر ب الف، با، ب الف با، بابا، ن ، الف نا، ن الف نا، نانا، ب الف با، ج الف جا، باجا اور ت الف تا، ی الف یا ، تایا سبق تھے۔ اس کے بعد وہ اُس سکو ل میں پڑھنے کے لیے نہ جاسکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اُسے یاد تھا کہ وہ ایک بار وہ اپنی امی کے ساتھ قریبی اڈے تک کوئی میڈیسن لینے بھی گیا تھا اُن میں سے کوئی بچہ بیمار تھا وہاں اس کو دیکھی ہوئی چند دکانیں یا د تھیں۔ ان میں ایک کپڑے کی دکان بھی تھی اور ایک میڈیکل سٹور بھی تھا اُسے یہ بھی یا د تھا کہ ایک بار انہوں نے اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے اُن کے ہاں جانے کے لیے ایک طویل سفر بھی کیا تھا اُس سفر میں انہوں نے صوبہ پنجاب کے ایک طویل حصے کا چکر کاٹا تھا اُس دورے کے دوران اُس نے پہلے بار فلش سسٹم والا بیت الخلا ء بھی دیکھا تھا ۔  ان کے ہمسائے کی اُس کی بڑی بہن کی ہم عمر لڑکی کہا کرتی تھی کہ میں نے تو اس سے شادی کرنی ہے یہ بات سُن کر وہ جھینپ جاتا تھا اور اسے شرمندگی ہو اکرتی تھی۔


اُس نے اپنے ننھیال میں دو پالتو کتے دیکھے تھے ان کے نام بالترییب کالو اور پھمن تھے جبکہ اُن کے اپنے گھر میں پانچ کتے تھے ان میں سے ایک پستہ کتا یعنی چھوٹے قد کا سفید بالوں والا کتا بھی تھا ان کو جب روٹی ڈالی جاتی تھی تو ان میں سے چھوٹے کتے کو اپنی نگرانی میں کھلانی پڑتی تھی کیونکہ دیگر کتے اس سے روٹی چھین کر لے جاتے تھے ایک بار اُن کے چا چو نے ایک دو رنگوں والی کتیا (جو کہ کسی قریبی گھر کی تھی) کو کلہاڑی سے مارا تھا تو اُسے اُس کتیا کو دیکھ کر اپنے ننھیال کا پھُمن یاد آیا اور اُسے افسو س ہوا کہ پھمن کی ہم مشکل کتیا کو کیوں پیٹا گیا حالا نکہ ان دونوں کے درمیان سینکڑوں کلومیٹر کی دوری تھی ایک بار اُس کے داد  نے اُسے سائیکل پر بٹھا کر ایک دوسرے گاؤں میں لے جاکر کُشتی کا ایک میچ بھی دکھایا تھا وہ مغربی سڑک سے شمالی کی طرف گئے تھے اور قبرستان کے پاس سے بڑی سڑک سے ہوتے ہوئے دوسرے گاؤں پہنچے تھے


اُس کا چاچو کسی بڑی کلا س میں پڑھتا تھا اور باداموں کو پانی میں بھگو کر رکھتا تھا صبح کو وہ ان باداموں کی سردائی بناکر پیتا تھا تو وہ ہمیشہ لالچی سو چ سے اپنے چاچو کو بے حس بن کر ساری گریوں کی سردائی ہڑپ کر تے دیکھتا رہ جاتا  اُن دنوں اُن کے چاچو کے استعمال میں ’’ڈنٹونک‘‘ دانتوں کو صاف کرنے والا پاؤڈر ہوتا تھا اُس کے بڑے بہن ، بھائی ڈنٹونک کی خالی ڈبیوں میں روشناہی ڈال کر اُن کو دوات کے طور پر استعمال کرتے تھے

ان گھر کے دو کمرے تھے جن کا رُخ جنوب کی طرف تھا دونوں کمروں کے درمیان صحن میں ایک دیوار تھی اور اُس دیوار میں ایک راستہ بھی تھا۔ یہ بائیں ہاتھ والا مشرقی کمرا ان کے چاچو اور دادا کا تھا۔ اپنے دادا کو وہ بابا کہا کرتے تھے۔ ایک بار اُن کے ابو لاہور سے واپس آئے تو اُن سب کے لیے مختلف کھلونے لے کر آئے۔ ان میں ایک گڑیا، ایک آئینہ اور ایک سبز پلا سٹک کا طوطا تھا۔ بڑی بہن نے گڑیا، بھائی نے طوطا اور اُس نے آئینہ اپنے اپنے حصے میں سے بانٹ لیا تھا۔ حالانکہ اُسے طوطا زیادہ پسند تھا۔ اُ سے یا د تھا کہ ایک بار اُن کے تما م کھیتوں میں ہل چلایا گیا تھا اور تمام کھیتوں کی مٹی نرم ہو گئی تھی تو وہ چاندنی رات کو دیر تک اپنے ابو کے ساتھ وہاں نرم مٹی میں کھیلتے رہے تھے اور اُن کے ابو نے اپنی گردن کے اوپر سے ٹانگ کو کندھوں پر رکھنے کا مظاہر ہ بھی کیا تھا

ایک بار اُس کی امی نے نیا سوٹ سی کر اسے دیا تھا اور اُسے کہا تھا کہ یہ پہن کر اپنے بابا کو یعنی دادا کو دکھا کر آؤ کہ ’’سوہنا ہے؟ تو اُس نے دادا نے فرمائشی طور پر بتایا کہ ہاں بھئی سوہنا ہے‘‘ ایک بار ان کی پھو پھو اپنے سُسرال اور اس کے ننھیال سے آئی تو وہ عصر کا وقت تھا اور وہ سب اس سے ملنے مشرقی طرف کھیتوں میں گئے تھے۔ تھوڑی دیر وہاں بیٹھنے کے بعد وہ واپس گھر آگئے تھے۔ ان کے دادا اور چاچا اپنا کھانا خو د پکاتے تھے تاہم کبھی کبھار وہ ان کی امی سے بھی روٹیاں پکوا لیتے تھے۔ اُس کی ایک چھوٹی سی بہن تھی ایک بار اس کی امی آٹا گوندھ رہی تھی تو اُس نے ’’ کاکی‘‘ کو اٹھانے کا چاؤ پورا کیا لیکن وہ اس کو سنبھال نہ پایا اور دوسرے ہی لمحے کاکی پیچھے پڑی ہوئی بالٹی میں گر گئی اور رونے لگی


اُن کے گھر کا ایک تیسرا کمرا بھی تھا جو مشرقی کمرے کے باہر مشرقی طرف ہی تھا اور اُس کا دروازہ بھی جنوب کو ہی تھا ۔ وہ بیٹھک کے طور پر اس کے چاچا کے مطالعہ کا کمرا تھا اور ان کے مغربی کمرے کے ساتھ مغربی طرف ایک ’’چھیر‘‘ تھا جس سے پچھلی یعنی شمال کی طرف بھی راستہ تھا اور اُسی طرف اُن ہمسائیوں کا گھرتھا جن کی بڑی لڑکی اُس سے کہا کرتی تھی کہ اُس نے تو اسی سے بیاہ کرنا ہے

ایک بار ا س کے دادا نے کہا کہ باہر میرا حقہ لے کر جاؤ اور اپنے چاچو سے کہو کہ وہ ڈگی میں سے پانی ’’نتار‘‘ کر دے یعنی صاف پانی اُس میں ڈال کر دے۔ اُن دنوں پانی کی کمی تھی کھالے میں شاید پانی نہ آتا ہوگا تو ایک بار اُس نے چاچو نے بڑی مشکل سے پانی کسی نہ کسی طرح اس حقے کے لوٹے میں ڈال دیا اور وہ اسے لے کر اپنے گھر میں دادا کے پاس لے آیا۔ اور دادا نے اس نایاب پانی سے حقے کو دھو ڈالا اور پھر پانی لانے کو کہا اب وہ دوبارہ پانی لینے گیا تو اس کا چاچو اُسے ڈانٹنے لگا کہ پہلا پانی کیوں ضائع کیا حالا نکہ اس سارے معاملے میں اگر کوئی غلطی تھی تو اُس کے دادا کی تھی اوروہ قصور وار نہ تھا۔ پھر بھی جھڑکیاں سہنی پڑیں۔ زندگی میں بہت بار ایسا ہوا کہ اُسے قصور کے بغیر ہی قصور وار ٹھہرایا گیا اور وہ اپنا دفاع نہ کر پایا۔ کبھی تو وہ دفاع کی طاقت ہی نہ رکھتا تھا اور کبھی کسی مصلحت نے اُس کو روکے رکھااور کبھی اُس کے پاس ہر سوال کا جواب بھی ہو تا تھا اور وہ سامنے والے کو پچھاڑبھی سکتا تھا لیکن اپنا ضمیر مطمئن ہونے کی و جہ سے وہ تیز رفتاری سے سوچتا رہتا لیکن اپنا دفاع نہ کرتا اور اپنے صاف دامن پر جھوٹے داغ کا الزام سہہ جاتا۔ لیکن اُسے کیا خبر تھی کہ یہ زمانہ تو طاقتوروں کا ہے کمزور کو تو یہ درخورِ اعتنا ہی نہیں سمجھتا اُسے کیا خبر تھی کہ انصاف ہمیشہ چپ رہنے سے نہیں ملتا کبھی کبھی اپنا حق چھیننا بھی پڑجاتاہے۔