اتوار، 19 فروری، 2023

انقلاب فرانس کی بازگشت

Public Domain - Wikipedia

عبدالرزاق قادری

ایک سال میں قوم نے دیکھ لیا کہ بہت سے صحافیوں، تجزیہ کاروں اور مبصرین کی آراء غلط ثابت ہوئیں اور ان کے اندازے بھی غلط ثابت ہوتے رہے حتی کہ ایک واقعہ یا پیش آمدہ صورتحال ابھی مکمل بیان نہ ہو پائی ہوتی اور اس کے ساتھ ہی کچھ مزید واقعات جنم لے چکے ہوتے۔


میں نے پچھلے سال (مارچ 2022ء میں) وڈیو لاگز بنانے شروع کر دئیے تھے لیکن پھر تحریک عدم اعتماد آ گئی اور میں خود کو سیاسی ابحاث سے علیحدہ رکھنا چاہتا تھا۔ میرا یہ شوق نہیں ہے کہ لوگ مجھے سیاسی تبصرہ کار کے طور پر پہچانیں، حالانکہ یہاں نامور تجزیہ کاروں کی چربہ سازی سے کچھ بہتر حافظہ رکھتا ہوں اور کسی بات کو مختلف پہلوؤں سے دیکھنے اور بیان کرنے کی بھی صلاحیت موجود ہے لیکن میں نے صحافت کو اپنی روزی روٹی کا ذریعہ نہیں بنایا اور ان طریقوں سے بنانا بھی نہیں چاہتا جو کہ رائج ہیں۔


بہت سے صحافی گفتگو اور تحریر کے دوران لکھ کر اس امر کا ہلکا سا اشارہ دیتے رہتے ہیں کہ جس سے وہ تنخواہ لیتے ہیں اسی کے ڈر سے وہ "مکمل سچ" نہیں بول پاتے، یا یوں سمجھ لیں کہ وہ کسی میڈیا ہاؤس کے پالیسی بیانیے کے خلاف نہیں جا سکتے اور مجبورا خود کو ملے ہوئے ٹاپک پر چیف ایڈیٹر یا ایم۔ ڈی۔ کے احکامات کے مطابق تبصرہ لکھتے ہیں اور سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کرتے ہیں۔


بہرحال اس ایک سال کے سیاسی واقعات نے صحافت کا چہرہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھا ہے اور سوشل میڈیا پر "چینلز" کا جو جمگھٹا لگ رہا تھا اس کی قلعی بھی کھل چکی ہے، کہ کوئی کیوں سنے تمہارا چینل؟ جب لوگوں کو فرسٹ ہینڈ انفارمیشن مل رہی ہے وہ آپ سے گھسی پٹی جعلی خبریں کیوں سنے اور کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے 30 سال پرانے مائنڈ سیٹ کے ساتھ جو فضول "خبر" آپ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دس مہینے سے وہی جھوٹ الاپتے چلے جا رہے ہیں جو مئی جون میں سوچا گیا تھا تو لوگ کب تک ان چیزوں کو حقیقت سمجھتے رہیں گے۔


قومی سلامتی کے اداروں کے حوالے سے ہمیشہ سے پاکستانی عوام کے جذبات یہی رہے ہیں کہ یہ ہمارے ملک کی سرحدوں کے محافظ ہیں لیکن سن 2022ء میں ہونے والے بے شمار واقعات نے عوام کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اور حتی کہ پشاور میں پولیس کی مسجد میں دھماکے کے بعد پولیس کے لوگوں نے جلوس نکالا اور نعرے لگائے کہ، "یہ جو نامعلوم ہیں سب ہمیں معلوم ہیں"۔


پاکستان کی 75 سال کی تاریخ میں ایسی واضح آوازیں کبھی نہیں اٹھیں کہ لوگ چیزوں کو سمجھ بھی رہے ہیں اور انہیں بیان بھی کر رہے ہیں۔


اس کے ساتھ ساتھ ٹی۔ایل۔پی کی اسلامیات ساری ایکسپوز ہو گئی کہ ایک حکمران کے لیے فرانس بلاوجہ "حرام" تھا دوسرے حکمران کے لیے وجہ کے ساتھ بھی "حلال" ہی رہا۔

جو یہاں پیو تو حرام ہے وہاں پیو تو حلال ہے۔ انہی کے ٹولے کے مفتی منیب الرحمان صاحب بھی قرآن و حدیث کی ایسی تشریحات کرتے رہے کہ علماء سوء ہوتے کیا ہیں؟ سب کو سمجھ آگئی۔


ان عناصر کے ساتھ ساتھ

1۔ عامر لیاقت

2۔ جواد احمد

3۔ شاہد آفریدی

4۔ قاسم علی شاہ

اور

5۔ مرزا انجینئر جیسے زبان درازوں کو بھی میدان میں اتارا گیا۔


ان سے پہلے بھی "جعلی صحافیوں" کی ایک کھیپ گوگلی نیوز اور "نیا دور" کی صورت میں گالیوں کی برسات کر رہی تھی۔

لیکن۔۔۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، کے مصداق جتنے بھی بدزبان مارکیٹ میں اتارے گئے وہ منہ کی کھا کر ایسے راندہء درگاہ ثابت ہوئے کہ لوگوں کے دلوں سے اتر گئے۔


ترے دل سے نکالے تو کہاں پہنچے

جب پہنچے تو یاد آیا، نکلنا بھی ضروری تھا


چشم فلک نے بدمعاشی کی وہ حدیں بھی دیکھیں کہ جس میں سیاستدانوں کو زود و کوب کیا گیا، ارشد شریف کو قتل کیا گیا اور باقی ماندہ تجزیہ نگاروں کو بھی ارشد شریف کی طرح خبردار کر کے بھیگی بلی بنا دیا گیا، ٹی وی شوز بند ہو گئے۔ اور قانونی کارروائی کرنے کے الفاظ کو دہشتگردی سے نہ صرف تعبیر کیا گیا بلکہ اسی پر سال بھر چکر لگتے رہے، اور ڈاکوؤں کو منبر و محراب کی مسندیں مل گئیں ان پر تحقیق و تف کرنے والے سرکاری ملازم بے موت مارے گئے۔ ملک میں سے اشیائے خورد و نوش ختم ہو گئیں، کسان کو انہی تجربہ کاروں کے سابق دور کی طرح برباد کر دیا گیا۔


لیکن

زمین جنبد نہ جنبد گل محمد

اب صورتحال یہ ہے کہ سری لنکا میں تو شاید چند لوگ ایسے تھے جن کے اندر انقلاب فرانس کے جیسی خراب کھوپڑیاں موجود تھیں لیکن یہ تو پاک سر زمین شاد باد ہے یہاں ایسے حالات کی ضرورت کیوں پیش آئے۔

اگے تیرے بھاگ لچھئیے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں