انسان بنیادی حقوق کا طلبگار ہے اس کی روزمرہ کی ضروریات با آسانی میسر ہونا اس کا فطری حق ہے پھر اسے اپنی آئندہ نسلوں کی بقا کا بھی خیال رہتا ہے، زندگی میں بہت سے معاملات پر انسان کا اختیار نہیں ہوتا۔
جس کسی کے حالات و واقعات زمانے کو قابلِ تحسین نظر آرہے ہوں اسے بہت محنتی اور باکمال مانا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ چیزیں اس کا مقدر ہوتی ہیں جو اسے میسر ہیں۔ ان کو حاصل کرنے کے دو طریقے تھے، حقیقت میں ان چیزوں سے بڑھ کر یہ دیکھا جانا چاہئیے کہ یہ وسائل کوئی درست طریقے سے حاصل کرتا ہے یا غلط راستے کا انتخاب کرتا ہے۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ کام کاج کرتے ہیں اس لئے وہ مال و دولت کماتے ہیں، یہ صرف ایک حوصلہ ہے جو خود کو دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ کام کاج کو رزق کا معیار مانتے ہیں دل سے وہ یہ چاہتے ہیں کہ کام نہ کرنا پڑے اور ایسے وسائل ہاتھ لگ جائیں کہ آمدنی کا ذریعہ بند نہ ہو۔ اس کی مثال یہ ہے کہ پاکستان میں اکثر لوگ ملازمت چاہتے ہیں لیکن ملازم بن کر کام نہیں کرنا چاہتے۔ یہ لوگ تعلیم اس لئے حاصل نہیں کرتے کہ ان کی شخصیت میں نکھار آئے گا، بلکہ تعلیمی اسناد کو ایک ایسا ہتھیار مانا جاتا ہے جو کسی تعلیم یافتہ کو مال و زر کمانے کے قابل بنا دے۔ بھلا تعلیم کسی کے روزگار کو ماپنے کا کون سا پیمانہ ہوا؟ تعلیم یافتہ کا مطلب بر سرِ روزگار نہیں ہوتا۔
بلکہ معاشرے میں ایک ایسا عمومی رویہ ہونا چاہئیے جو دورانِ تعلیم بھی بچوں کو کام کاج کی عملی عادت ڈالے۔ کیا گریجویٹ ہونے کا معیار یہ ہے کہ جنابِ گریجویٹ کو سرے سے کسی کام کی سُدھ بُدھ نہ ہو۔ صرف چودہ یا سولہ سالہ تعلیم کی ڈگریاں ایک انسان کو معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کے لئے کافی نہیں ہوتیں، ایک جوان فرد کو کوئی عملی کام بھی کرنا آنا چاہئیے۔ صرف سندیں اکٹھی کرکے نوکری نہ ملنے کے شکوے کرتے رہنا اور بے کار بیٹھے رہنا کوئی کمال نہیں۔
یہ درست ہے کہ اس معاشرے میں ساری گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ جس میں رہنمائی کا فقدان ایک بڑا عنصر ہے۔ اس قوم کو زیادہ سے زیادہ با شعور دانشمند حضرات کی طرف سے رہنمائی کی ضرورت ہے۔ہماری قوم کا رویہ تنقیدی ہے اب یہ تنقیدی انداز بہت ہوگیا۔ اب اس سے نکل کر تعمیری انداز اپنانا چاہئیے جس سے عوام کو معلوم پڑے کہ کرنا کیا ہے، جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے بہت اچھے طریقے سے قوم کی رہنمائی کی جا سکتی ہے
البتہ انسان کو اس کے بنیادی حقوق ہر صورت ملنے چاہئیں اس کے ساتھ ساتھ ہر کسی کو کوئی نہ کوئی کام ضرور کرنا چاہئیے۔ کام کرنا ضروری ہے صلہ قدرت کی جانب سے خود ہی مل جاتا ہے۔ صلے کی خاطر کام نہیں، بلکہ کام برائے کام ہونا چاہیے اور صلہ بطورِ بنیادی حقوق (میسر ہونا چاہیے)۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں