اسلام آباد سے شائع ہونے والے ماہنامہ ”ضیائے حرم“ کے شمارہ مارچ میں صادق علی زاہد کا ایک مضمون بعنوان ”علامہ ڈاکٹر محمد اقبال اور فہم عقیدہ نبوت“ شامل اشاعت ہے۔ اس مضمون میں مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی کی ایک تقریر کو موضوع بنایا گیا ہے جو ماہنامہ ملیہ فیصل آباد کے شمارہ اکتوبر 2013ءمیں شائع ہوئی ہے۔ مولانا لدھیانوی نے علامہ اقبال پر جو تقریری کیچڑ اچھالا ہے اس کا تجزیہ کیا جائے تو علامہ ہی کا ایک شعر ذہن کی تاریکی میں چمکنے لگتا ہے ....
ملا کی نظر نور فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے مے خانہ صوفی کے مئے ناب
مولانا لدھیانوی لکھتے ہیں۔
آجکل ہمارے ملک میں ڈاکٹر سر محمد اقبال کے نظریات و افکار کو پیش کرکے عوام الناس کو علماءکے خلاف اکسایا جا رہا ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ اسلام کی جو تشریح علامہ اقبال نے کی ہے وہی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ اس کے بعد مولانا لدھیانوی نے اقبال کے عقیدہ ختم نبوت پر حملہ آور ہوتے ہوئے لکھا ہے کہ علامہ نے ملا کو اپنے اشعار میں ہدف تنقید علماءسے دوری کی وجہ سے بنایا۔ بعد میں علامہ کو انہی علماءکی جوتیوں میں بیٹھ کر اپنے عقیدے کی اصلاح کا موقع ملا۔ اس سے آگے علامہ کے بارے میں ان کا بغض خود ان کے الفاظ میں پڑھئے۔ لکھتے ہیں۔
”علامہ اقبال مرحوم جو کہ ساری زندگی اپنے آپ کو ایک عاشق رسول کی حیثیت سے متعارف کرواتے رہے وہ ختم نبوت کے عقیدے کو نہ سمجھ سکے۔ اس لئے انکے والد نور محمد اور بڑا بھائی عطا محمد مرزا قادیانی کے ہاتھ پر بیعت ہو گئے تھے بلکہ قادیانیوں کا دعویٰ یہاں تک ہے کہ علامہ اقبال خود بھی مرزا قادیانی کے ہاتھ پر بیعت ہو گئے تھے۔ آگے چل کر خود ہی اپنی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ”اس کے بعد علامہ اقبال نے اپنے والد نور محمد پر محنت کی اور ان کو دوبارہ مسلمان بنایا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ علامہ اقبال نے اپنے والد کا نکاح اپنی والدہ سے دوبارہ خود پڑھایا تھا۔“ .... پھر ایک جگہ لکھا:
”ڈاکٹر اقبال شروع شروع میں ملاں کے سخت مخالف تھے۔ وہ ایک عرصہ تک اپنے طور پر مسائل کے حل کے لئے مرزا قادیانی کے جانشین حکیم نور الدین سے فتوے منگواتے رہے۔ اقبال نے کئی مواقع پر ملاں پر اپنے شعروں میں پھبتی بھی کسی جوکہ آجکل اقبال فروش دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب اقبال نے ملاں کی دینی حیثیت کو نہیں پرکھا تھا مگر جب اقبال علمائے کرام کے قریب آیا اور اس نے علماءاسلام کی دینی فقاہت کو دیکھا جوکہ دینی مدارس کا فیض تھا تو اسے پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ملا۔“
صادق علی زاہد نے ثبوتوں کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ ملاں لدھیانوی نے اپنی تقریری تحریر کے ذریعے ”فی سبیبل اللہ فساد“ پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ جس دور میں علامہ کے والد نے مرزا قادیانی کی بیعت کی تھی اس وقت وہ ایک عالم دین کی حیثیت سے مشہور تھا۔ جبکہ اقبال اس وقت سکول کے طالب علم تھے۔ دعویٰ نبوت کے چھ سال قبل ہی شیخ نور محمد پر مرزا قادیانی کی اصلیت ظاہر ہونے لگی تو 1895ءمیں اس کے نام ایک خط لکھا اور بیعت توڑ ڈالی۔ اس پر مرزا قادیانی نے میر حامد شاہ کے نام خط میں لکھا کہ شیخ نور محمد کو کہہ دیں کہ وہ جماعت سے ہی الگ نہیں بلکہ اسلام سے بھی الگ ہے۔
صادق علی زاہد نے مستند حوالہ جات سے ثابت کیا ہے کہ علامہ کے والد تو مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت سے قبل ہی اسکی جماعت سے الگ ہو گئے تھے لیکن خود لدھیانوی صاحب کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے بزرگ مرزا قادیانی کی عقیدت میں گرفتار رہے۔ رشید احمد گنگوہی نے مرزا قادیانی کو صالح کہا اور اس کے الہامات کی تاویلات پیش کیں۔ اشرف علی تھانوی اسے کافر کہنے کے بجائے مسلمان کہتے رہے اور اس کے حق میں دعائیں کرواتے رہے بلکہ اس کی امامت میں نمازیں بھی پڑھتے رہے۔ مفتی کفایت اللہ نے مرزائیوں کو اہل کتاب قرار دیا اور انکے ہاتھ کے ذبیحہ کو حلال قرار دیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے قادیان میں قادیانی امام کے پیچھے پہلی صف میں کھڑے ہو کر نمازیں پڑھیں۔ مرزا کی وفات پر امرتسر سے لاہور آکر اسکے جنازے کے ساتھ بٹالہ تک سفر کیا۔
مولانا لدھیانوی کے ممدو حسن کا طرز عمل تو یہ تھا جبکہ علامہ اقبال کے بارے میں کتاب سیرت المہدی میں مرزا بشیر قادیانی نے خود لکھا ہے۔”ملک کے نو تعلیم یافتہ طبقہ میں احمدیت کے خلاف جو زہر پھیلا اس کی بڑی وجہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کا مخالفانہ پراپیگنڈہ تھا“
مولانا لدھیانوی تو اقبال کو عقیدہ ختم نبوت کی اصلیت سے ناواقف قرار دیتے ہیں جبکہ 1935ءمیں احمدی عقائد سے متعلق اقبال کے ایک مقالے کی اشاعت پر لکھنؤ کے اخبار ”صدق“ نے یکم اگست کی اشاعت میں لکھا: ....”علامہ سر محمد اقبال کے اس حقیقت خیز اور ولولہ انگیز مقالے نے ہمالیہ سے راس کماری تک ہلچل مچا دی ہے جس میں انہوں نے مسئلہ ختم نبوت کے فلسفیانہ پہلو کو قدرتی قانون پر منطبق کرکے رسول اللہﷺ کی خدمت گزاری کا عظیم شرف حاصل کیا ہے“؟ صادق علی زاہد کا پندرہ صفحات پر پھیلا ہوا تحقیقی مضمون پڑھنے کے بعد ہم سوچ رہے تھے کہ اقبال کے فہم ختم نبوت کو مشکوک قرار دینے والے کا اپنا فہم نبوت کس درجے کا ہے۔ اقبال نے سچ ہی کہا تھا :
پنجاب کے ارباب نبوت کی شریعت
کہتی ہے کہ یہ مومن پارینہ ہے کافر
کالم نگار | ظفر علی راجا 16 اپریل 2014، بشکریہ نوائے وقت لاہور
صرف لدھیانوی صاحب ہی کیا تمام دیوبند کو علامہ اقبال سے جو پرخاش ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں
جواب دیںحذف کریںعلامہ اقبال کے عقیدہ ختم نبوت پہ تو وہ بندہ بات کرے جو خود مقام نبوت کی حقیقت سے واقف ہو
انہوں نے علامہ اقبال کو پڑھا تو کیا ہوگا بس دو چار شعر سن رکھے ہونگے
ورنہ علامہ اقبال کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور ان کا عقیدہ ختم نبوت پڑھنا ہو تو اقبال کا شاہکار "جاوید نامہ " ہی کافی ہے
لیکن خوئے بد را بہانہ بسیار
یہ بغض تب سے ہے جب علامہ اقبال نے دیوبند کے مولانا حسین احمد مدنی کے نظریہ وطنیت کے جواب میں ایک طویل نظم لکھی اور ان کا نظریہ باطل ثابت کیا
علامہ اقبال سے ان کے بغض کی وجہ تحریک پاکستان بھی تو ہے
لیکن آواز سگاں کم نہ کند رزق گدا را
عزت کا مالک اور عزت دینے والا صرف اللہ تعالی ہے ، وہ جس کا چاہے ذکر بلند کر دے
جوگی بھائی! آج کل میرے بلاگ پر کئی ”متفکرین“ تبصرے فرما رہے ہیں جن کے مطابق یہاں پیش کردہ معلومات غلط ہوتی ہیں، لیکن اللہ وارث ہے۔
حذف کریں