نوٹ: یہ تحریر پچھلے سال(2012) کے پس منظر میں ہے
جو لائی24، 2012بمطابق ۴ رمضان المبارک 1433کو میں شام ساڑھے چار بجے دفتر سے نکلا۔ سٹاپ پر تھوڑی دیر انتظار کیا اور بس پر سوار ہو گیا۔ اگر چنگ چی رکشہ والے اڑھائی گنا زیادہ کرایہ وصول نہ کریں تو ہو سکتا ہے کہ بسوں میں رش بھی کم ہو جائے اور طلباء طالبات کو بھی تھوڑی آسانی بہم میسر آجائے۔ آج بس بڑی تیزی سے جارہی تھی اور اس میں مسافروں کا بے تحاشا رش بھی نہ تھا۔ برکت مارکیٹ، گارڈن ٹاؤن سے بتی چو ک جاتے ہوئے 19نمبر بس پنجاب یونیورسٹی ، اقبال ٹاؤن اور یتیم خانہ سے ہو کر شیرا کوٹ سے آگے پہنچی تو ڈبل سڑکاں سٹاپ سے تھوڑا پہلے ٹریفک جام تھا۔
چند منٹ انتظار کے بعد میں اپنی کتابیں بس ہی میں چھوڑ کر آگے صورت حال دیکھنے گیا ۔ وہاں ایک بڑا کنٹینر کھڑا کر کے آگے صورت حال دیکھنے گیا۔ وہاں ایک بڑا وارڈن سے پو چھا تو پتہ چلا آگے گلشن راوی سٹاپ اور ساندہ کی جانب لو ڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔ میں جاکر بس سے اپنی کتابیں اٹھاکر پیدل چلنے لگا ۔تقریبا تین کلو میٹر تک پیدل سفر کر کے اپنے گھر پہنچا ، روزہ بھی تھا ۔ تھکاوٹ بھی اور پیاس سے برا حال تھا۔ اگلی صبح میرا پیپر تھا اس لیے اس واقعے کو فورا قلم بند نہ کر سکا ۔ میرا مشاہدہ اور مطالعہ بتاتا ہے کہ اس سال بلکہ 2008کے بعد سے لاہور میں جتنے بھی چھوٹے بڑے احتجاج ہوئے۔ ان میں مسلم لیگ (ن) براہ راست یا بلا واسطہ لیکن شامل ضرور رہی ہے۔ وہ 2009کے لا نگ مارچ سے پہلے کی ہڑتالیں ہوں یا 28اکتوبر 2011کی احتجاجی ریلی کے بعد کی۔
جتنی بھی بڑی بڑی مارکیٹیں لاہور میں ہیں۔ ان کی تاجروں کی انجمن کے ذریعے معیشیت کا پہیہ جام کیا جاتا ہے ۔ ہر ایک دوکان دار کے پاس ان کاخط پہنچتا ہے اس پر اس تاجر سے دستخط کروائے جاتے ہیں کہ فلاں دن کو دوکان بند رکھنی ہے ورنہ یہ سلوک ہو گا۔ ہماری بھولی اور ناتواں قوم چند غنڈو ں کے ہاتھو ں یر غمال بنی ہوئی ہے وہ کہتے ہیں تو یہ قوم کا روبار کر سکتی ہے وہ کہتے ہیں تو یہ کھا نا بھی کھا سکتی ہے ورنہ۔۔۔ غریب اور نادار لو گ اپنا جسمانی علاج تک نہیں کرواسکتے۔ ینگ ڈاکٹرز نجانے پی پی پی یا کسی اور قوت کی شہ پر ہڑ تال کر دیتے ہیں اور ہسپتالوں میں بچے دم توڑ جاتے ہیں۔ مسلم لیگ نون دوسروں کو عدالتی احکام ماننے کا درس دیتی ہے اور ڈاکٹرز کے معاملے میں ہائی کورٹ کے فیصلے کو پس پشت ڈال دیتی ہے۔ یہ دو غلہ پالیسی پتہ نہیں کب ختم ہو گی۔
بھئی، بجلی کی لوڈ شیڈنگ و فاق کا معاملہ ہے یا صوبائی حکومت کا، ہمیں اس سے غر ض نہیں۔ بلکہ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ طلباء کو محض فلمیں دیکھنے کے لیے کروڑوں روپے کے لیپ ٹاپ حرام راستے پر فراہم کیے جاتے ہیں ( ان میں سے بھی نجانے کتنے فی صد نون لیگ کے گھر میں گئے )
اور عوام کی حرام کی کمائی سے بار بار سڑکوں کو بنا کر اور پھر توڑ کر اربوں روپے ضائع کیے جاتے ہیں۔ اگر ان میں سے منصوبہ بندی کر کے بجلی رواں کی جائے تو نہ سڑکوں پر ہڑتا ل کرنے کے لیے نون لیگ کو تکلیف کی ضرورت ہے اور نہ ہی مجھے روزے کی حالت میں پیدل چلنے کی۔