لاہور میں سردی کی لہر کافی شدید ہے، سب کو اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ اس بار میں نے اور فیملی نے مختلف قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار کی ہے جنہیں بیان کیا جائے گا۔ اور جب بھی کسی دوست سے ملتا ہوں، انہیں محتاط رہنے اور ہاتھوں کو گرم رکھنے کا مشورہ دیتا ہوں۔
میں نے کئی چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ ہاتھ ملا کر دیکھا ہے برف کی طرح ٹھٹھرے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ سرد موسم کے اعتبار سے انسان کو ٹمپریچر میں رہنا چاہیے۔ یہاں ٹمپریچر سے مراد بخار نہیں ہے۔ انجوائے کرنے والی حرارت کی بات کر رہا ہوں جس کو پنجابی میں "نگھ" کہتے ہیں۔
حکیم اعجاز صاحب Hakim Ijaz Hussain
کہتے ہیں کہ انسان کو ہر موسم میں موسمی شدت سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔
لاہور شہر کے اندر سرکاری نلکوں میں جو پانی کبھی کبھار آ جاتا ہے اور لوگ اس کو پانی کی ٹینکی میں محفوظ کر لیتے ہیں وہ اگلے چوبیس گھنٹے موجود رہتا ہے اور نہایت ٹھنڈا ہوتا ہے۔ لوگ اسی ٹھنڈے پانی کو استعمال کرتے ہیں لیکن جن کے پاس گیزر کی سہولت موجود نہیں وہ ٹھنڈے ٹھار پانی سے ہاتھ منہ دھوتے ہیں، اور وضو کرتے ہیں۔ سموگ کے دور میں بار بار چہرہ دھونے سے بھی خوفزدہ رہتے ہیں کیونکہ ٹھنڈا پانی جان نکالتا ہے اور اس سے بیمار ہونے کا خدشہ رہت ہے۔
لاہور کی سردی ہمارے لیے شدید ہے لیکن پہاڑی اور برفانی علاقوں کی نسبت یہ سردی درمیانے درجے کی ہے اگر یہ ان علاقوں کی طرح منفی درجہ حرارت میں چلی جائے تو ہمارا رہن سہن مختلف ہوگا۔ کیونکہ برفانی علاقوں میں گھروں کو ہر وقت گرم رکھا جاتا ہے اور پانی گرم ہی استعمال کیا جاتا ہے اس کے علاوہ گرم کپڑوں کا التزام اور خشک میوہ جات کے ساتھ ساتھ جو کچھ بھی دیسی اور گرم چیز کھانے کو مل جائے، جیسا کہ دیسی گھی، گوشت اور دودھ یا دیسی انڈے! لوگ انہیں کھاتے ہیں اور بچوں کو سردی میں آزاد نہیں چھوڑ دیتے۔ ان کی مکمل حفاظت کی جاتی ہے۔ اور سرد علاقوں کے بچے بھی یہ سب چیزیں سیکھ لیتے ہیں۔
جبکہ لاہور والے مفلس و نادار لوگ، امیر لوگوں کی نقالی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جن لوگوں کے پاس بہتر لائف سٹائل موجود ہے کہ وہ گرم گھر سے نکلے تو گرم کار میں جا گھسے، وہاں سے نکلے تو فوراً گرم ریسٹورنٹ میں چلے گئے۔ اور اسی طرح وہ سردی کے موسم میں آئس کریم بھی کھا سکتے ہوں گے۔ لیکن جن لوگوں کے پاس اس طرح کی آٹومیٹک سہولیات موجود نہیں ہیں وہ کیوں پہلوانی ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کچھ دور دراز کے دیہات میں دن کے وقت خوب دھوپ پڑتی ہے تو گھر کا ماحول گرم ہو جاتا ہے وہاں زمین سے نلکے یا موٹر پمپ سے گرم پانی بھی مل جاتا ہے، ان کا معاملہ دوسرا ہے۔ جبکہ لاہور شہر کے ڈربوں میں مرغیوں کی طرح قید وہ دیہاتی لوگ جو سہولیات ڈھونڈنے کے چکر میں یہاں چلے آئے اور ادھر آ کر نئی مصیبتوں میں پھنس گئے ان کی زندگی، گاؤں والوں سے کئی گنا زیادہ مشکل ہو چکی ہے یہاں نہ تو دھوپ ملتی ہے نہ ہی صاف فضا۔ نہ تازہ پانی نہ دیسی غذا۔ یہاں جعلی دودھ۔ فارمی انڈے۔ اور مہنگائی۔۔۔ نہ میدان، نہ کھیت، نہ کوئی پارک۔۔۔ کنکریٹ کے بنے مکانات کا ایک جہنم زار ہے، جس کا نام لاہور رکھا ہوا ہے۔ اور اس میں قید نئی نسل کے معصوم بچے، جنہیں زندگی کی رونق کا اندازہ ہی نہیں کہ ان کے ماں باپ کس خوبصورت ماحول کو چھوڑ کر یہاں آ بسے تھے۔
تو اب میں اپنا بتاتا ہوں کہ اس مرتبہ ہم نے ان سردیوں کے ساتھ جنگ کرنے کا کیا طریقہ کار اختیار کیا۔
ہم چونکہ شاہدرہ لاہور کے مضافات میں چلے گئے تو یہاں قریب فصلیں ہیں جو دریائے راوی کے سیلاب کے خدشے کے باعث مکانات میں تبدیل نہیں ہو پائیں۔ یہاں دھوپ بھی مل جاتی ہے، دیسی انڈے بھی مل جاتے ہیں۔ بھینسوں کی حویلیاں بھی ہیں، پیسے ہوں تو تازہ خالص دودھ بھی مل جاتا ہے۔ اور فصلوں میں سے تازہ پھل (امرود) بھی دستیاب ہیں۔ یہاں کچھ مسائل بھی ہیں جیسا کہ فیکٹریوں کا دھواں، اور اینٹوں کے بھٹے کی چمنی سے نکلنے والا زہر، اڑتی گرد اور ناقص رویے کے حامل لوگ۔۔۔ لیکن لاہور شہر کے قرب میں رہنے کی اتنی سی قیمت تو چکانی پڑے گی۔
یہاں چولہے میں گیس آنے کے اوقات مقرر کر دئیے گئے ہیں تو سحری کے وقت چائے وغیرہ پینے کے لیے ہم نے گیس کا ایک سلنڈر بھر رکھا ہے۔ اور آگ تاپنے کے لیے ٹال سے لکڑیاں بھی خرید رکھی ہیں۔ کمروں میں آگ جلا کر ان کا درجہ حرارت بڑھا کر گرم رکھتے ہیں، گرم چیزیں کھاتے ہیں۔ گھر کے تمام افراد گرم پانی پیتے ہیں۔ پانی ابال کر کولر میں یا کسی برتن میں رکھ لیتے ہیں اور ٹھنڈا پانی ہرگز نہیں پیتے۔ موٹر چلا کر گرم پانی سے منہ ہاتھ دھوتے ہیں گرم پانی سے وضو، اور پانی ابال کر تازہ پانی میں مکس کر کے بھی کام چلاتے ہیں۔
دن کے وقت جب دھوپ نکلے تو لازمی طور پر اسے سینکتے ہیں۔ میں رات کو سردی میں ٹھنڈے ماحول میں نہیں پڑھاتا لازمی طور پر کچھ کھاتا یا پیتا ہوں تا کہ ٹھنڈ کا اٹیک نہ ہو پائے۔
میں ہر وقت جرسی اور کوٹ اوڑھے رکھتا ہوں کل چند منٹ بے احتیاطی ہو گئی تھی تو سر کو ٹھنڈ لگ گئی جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا، سن 2008ء کی جنوری سے ہمشیہ سردیوں میں سر کے گرد گرم ٹوپی لپیٹے رکھتا ہوں اور موجودہ دور میں دماغ کا زیادہ خیال رکھ رہا ہوں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین
ان سب احتیاطی تدابیر کے باوجود اگر سردی کا جھٹکا لگ جائے تو اس کے خلاف جا کر کچھ اقدامات کئے جاتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ 2022ء/2023ء کی سردیوں میں کسی نے بھی مجھ سے ہاتھ ملایا تو میرا ہاتھ گرم ہی محسوس ہوا۔ کبھی ٹھنڈا نہیں رہا۔ الحمدللہ