پیر، 27 اگست، 2018

قومی رہنمائی کے ”نظریات“ عبدالرزاق قادری

      

ہمارے دوست ملک تحسین حیات جو کہ جھنگ کے نواحی شہر اٹھارہ ہزاری سے تعلق رکھتے ہیں گزشتہ روز میرے پاس تشریف لائے اور اپنے ہمراہ ایک کتاب لائے  یہ کتاب کیا ہے اور اس کے مندرجات کیا ہیں اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے، میں چاہوں گا کہ اس سے پہلے ملک صاحب کا تعارف کرا دوں، تحسین صاحب 2013ء کے دسمبر میں لاہور تشریف لائے تو داتا دربار سے باہر ان کی ملاقات زید مصطفیٰ سے ہو گئی اور فروری 2014ء میں زید نے مجھے کال کر کے بتایا کہ ایک صاحب آئیں گے ان سے ملاقات کر لینا، میں نے پہلی ملاقات میں ملک تحسین کو چائے پلائی اور اپنے ایک مضمون کی کاپیاں اور ایک کتاب ”الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں “انہیں دے دی،  پھر گاہے گاہے ملاقات ہوتی رہی اور انہیں لاہور میں ایک پرائیویٹ فرم میں کام مل گیا وہ ایک سال سے زائد عرصہ لاہور میں  رہے اور اکثر داتا دربار حاضری دیتے رہے اس دوران میں وہ میرے تقریباً تمام دوستوں سے بھی ملے اور ماہنامہ نوائے منزل لاہور میں کے لیے کچھ مضامین بھی لکھتے رہے۔ ان کے مشاغل میں کتابیں خرید کر یا مفت تقسیم ہونے والی کتابیں حاصل کر کے اپنے علاقے کے عوام الناس تک بانٹنے کا شوق شامل ہے، وہ اپنےشہر میں کئی مذہبی تقاریب منعقد کرتے رہتے ہیں اور انجمن طلباء اسلام کے ذمہ دار بھی رہ چکے ہیں گزشتہ برس (2017ء) میں وہ سٹیٹ یوتھ پارلیمنٹ کے ضلعی صدر منتخب ہوگئے اور اب اس کے ایک فعال کارکن بھی ہیں اور وسیع حلقہ احباب رکھتے ہیں ان کی یہی لگن  انہیں لاہور، راولپنڈی ، سرگودھا اور دیگر شہروں میں سیر و تفریح کرنے کے لیے لے جاتی ہے لہٰذا وہ اپنے دوستوں کو کتب کے تحفے پیش کرتے رہتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ان کی حالیہ پیش کردہ کتاب کے مصنف کون ہیں اور اس کتاب کے مندرجات کیا ہیں اور وہ کیا محرکات تھے کہ جن کی بدولت مصنف نے ایک کتاب کو لکھا اور مجھے اس کے تعارف کے لیے یہ تحریر لکھنا پڑی۔
 


         جنابِ شہیر سیالوی جن کا آج کل اخبارات، سوشل میڈیا اور ٹی وی پر چرچا ہے ایک طالبعلم رہنما ہیں انہوں نے اپنے تعلیمی دور میں نوجوان طلباء میں اسلامی روح کو کم ہوتے دیکھا اور محسوس کیا کہ اگر اس امت کے نوجوانوں میں بقولِ اقبال ”روحِ محمد ی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم“ نکال دی گئی تو  پھر یہ چلتے پھرتے مسلمان تو ہوں گے لیکن نظریات سے خالی ہوں گے جیسا کہ متحدہ ہندوستان پر جب ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے قدم گاڑھ چکی تھی تو انہوں نے مقامی لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے جو اقدامات کیے تھے ان میں سے ایک  تعلیمی مشن لارڈ میکالے لے کر آیا، اس نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ اس نطامِ تعلیم سے تربیت پانے کے بعد ہندوستانی لوگوں کا خون اور جسم تو  مقامی ہوگا لیکن اس میں سوچ فرنگی ہوگی اور وہ انگریزوں کی سوچتے ہوں گے پھر چشم فلک نے دیکھا کہ مغربی طرز کی تعلیم نے برِصغیر کے مسلمانوں کو محض پینٹ کوٹ والے بابو بنا دیا، لیکن اسی سر زمین میں سے چند رہنما پیدا ہوئے  جنہوں نے پھر سے اس قوم کو اپنی آزادی حاصل کرنے  کی جدوجہد میں مصروف کر دیا اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر دنیا اسلام کی اس وقت کی سب کی بڑی مملکت خداداد کو قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
             یہ رہنما کون تھے ان کے متعلق ہمارے طلباء اپنے تعلیمی نصاب میں بہت کچھ پڑھ آئے ہیں لیکن ہمارے کچھ ہیروز اور قائدین ایسے بھی تھے جن سے یہ قوم ناآشنا ہے یا شاید صرف نام کی حد تک متعارف ہے  قوم کی اس محرومی کو دور کرنے لیے اس جواں سال قائد نے جہاں کالجز اور یونیورسٹیز میں سیمینارز کرائے وہاں انہی نظریات کی بقا اور حفاظت کے لیے سڑکوں  پر ریلیاں بھی نکالیں اور اپنی ایک جماعت سٹیٹ یوتھ پارلیمنٹ کا قیام عمل میں لے کر آئے، پھر اسی خونِ مسلم کوگرمانے کے لیے اور ان کی نظریاتی بنیاد کومضبوط کرنے کے لیے ایک  کتاب تصنیف کی ہے جس کا عنوان ”نطریات“ رکھا ہے اوراسے تعلیمی اداروں میں مفت تقسیم کرنے کا شرف حاصل کیا ہے ایک سو صفحات پر محیط یہ کتاب تاریخِ اسلام کے ہیروز کی صحیح معنوں میں نمائندگی کرتی ہے اور طلباء کے اذہان کو اسلامی ہیروز کی تاریخ سے روشناس کرتی ہے اور ساتھ ساتھ ان کے قلوب کو معطر و منور کرتی ہے۔پیش لفظ میں شہیر سیالوی نے اپنے ساتھ چلنے والے ابتدائی نوجوان طلباء کو یاد رکھا ہے اور ان کا شکریہ ادا کیا ہے اس کے علاوہ نظریہ کی تعریف اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے روشن پہلوؤں کو اپنی تصنیف کے آغاز میں جگہ دی ہے۔ خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سوانح عمریاں لکھنے کے بعد حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال، حضرت داتا علی ہجویری، خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کو بیان کیا ہے۔ غازیانِ اسلام میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، طارق بن زیاد، محمد بن قاسم، نورالدین زنگی، سلطان صلاح الدین ایوبی، سلطان محمود غزنوی کے علاوہ ٹیپوسلطان کے تذکرے موجود ہیں جو خوابیدہ قومِ مسلم کو ان کے تابناک ماضی کے جوانمردوں کے حوصلے اور عظیم کارناموں سے شناسا کرتے ہیں۔ اس کتاب میں ایک اہم موضوع گستاخِ رسول اور اس کی سزا پر بھی مفصل گفتگو کی گئی ہے، جس میں صحابہ کرام اور اہلِ بیت عظام رضی اللہ عنہم کے دیگر کئی واقعات بھی موجود ہیں اور اسلامی عدالتی نظام کی جھلکیاں نظر آتی ہیں ۔ کتاب کے آخر میں فلسطین و کشمیر اور قیام پاکستان پر روشنی ڈالی گئی ہے،  اور ہمارے تعلیمی نظام اور بچوں کی تربیت پر سیر حاصل بحث بھی شامل ہے۔

         کتاب کے اختتامیہ میں لکھتے ہیں کہ

         ” مجھے اس بات کا خوف ہے کہ کہیں اس خام مال (نوجوان نسل) کو سیاسی جماعتیں اپنے مفادات اور مقاصد کے لیے استعمال نہ کریں، قائد اعظم نےنوجوانوں کو نصیحت کی تھی کہ وہ کسی سیاسی جماعت کا آلہ ٔ کار بننے کی بجائے ریاست کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہیں، اس لیے ہمیں سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو اندھا دھند فالو نہیں کرنا ہے“
         یہ کتاب کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباء و طالبات کے لیے ایک بیش بہا تحفہ ہے جو قیمتاً بھی میسر ہو تو ضرور لے لینا چاہیے بہرحال اس کتاب کو مفت حاصل کرنے کے لیے تعلیمی ادارے سٹیٹ یوتھ پارلیمنٹ کی انتظامیہ سے رابطہ کر سکتے ہیں، دُعا ہے کہ اللہ عزوجل جنابِ شہیر کو دین و دُنیا کی برکتوں سے مالا مال فرمائے اور امت مسلمہ کی صحیح معنوں میں رہنمائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے وہ اپنے نیک عزائم کو ہمیشہ ساتھ لے کر چلتے رہیں اور قوم ان کی رہنمائی میں ترقی کی منازل طے کرتی رہے۔ آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں