زیرِ حراست صدر موگابے اور خاتونِ اول گریس موگابے: ویکیپڈیا |
رپورٹ: عبدالرزاق قادری
گریس موگابے، زمباوے کے صدر رابرٹ موگابے کی بیوی اور خاتونِ اول ہے وہ جنوبی افریقہ میں بینونی کے مقام پر پیدا ہوئی تھیں اور ان کی شادی صدر موگابے کے ساتھ 1996ء میں ہوئی۔ سن 2014ء سے میڈم گریس، زمبابوے افریقی نیشنل یونین - پیٹریاٹک فرنٹ کے خواتین ونگ کی سربراہ مقرر ہوئیں، زمباوے کی حکومت میں اُن کے کردار کی وجہ سے ان پر یورپی یونین اور امریکا کی جانب سے پابندیاں عائد ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ، ملک کے دارالحکومت ہرارے میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے 51 سالہ گریس موگابے کا کہنا تھا کہ ”ایک دن جب خدا کی مرضی سے رابرٹ موگابے فوت ہو جائیں گے تو ہم ان کی لاش کو انتخابات میں کھڑا کریں گے۔“ زمبابوے کی خاتونِ اول کا مزید کہنا تھا کہ ”آپ دیکھیں گے کہ لوگ موگابے کی لاش کو بھی ووٹ دیں گے، میں یہ بات آپ کو سنجیدگی سے بتا رہی ہوں۔ لوگ ایسا صدر کے ساتھ اپنا پیار دیکھانے کے لیے کریں گے۔“
زمبابوے افریقی نیشنل یونین ۔ پیٹریاٹک فرنٹ ایک سیاسی جماعت ہے جو 1980ء سے زمباوے کی آزادی سے لے کر حکومت میں رہی ہے، رابرٹ موگابے پہلے بطورِ وزیر اعظم ” زمبابوے افریقی نیشنل یونین“ کی قیادت کرتے رہے اور پھر جب 1988ء میں اُنہوں نے” زمباوے افریقن پیپلز یونین “کے ساتھ انضمام کر لیا تب صدرکے طور پر اس کے رہنما رہے اور پھر اپنی سیاسی جماعت کے لیے ”زمبابوے افریقی نیشنل یونین ۔ پیٹریاٹک فرنٹ“ کا ٹائٹل اختیار کر لیا۔
سن 2008 ء کے پارلیمانی انتخابات میں، زمبابوے افریقی نیشنل یونین - پیٹریاٹک فرنٹ ، اپنی پارٹی کی تاریخ میں پہلی اور آخری مرتبہ پارلیمان کا کنٹرول کھو گئی اور ”دی موومنٹ فار ڈیموکریٹک چینج۔ سوانگیرائی“ کے ساتھ اتحاد کرکے مخلوط حکومت کا معاہد کر لیا۔لیکن اس کے بعد 2013 ء کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت سے فتح حاصل کی۔
جبکہ، ”دی موومنٹ فار ڈیموکریٹک چینج زمباوے“ جسے عام طور پر موومنٹ فار ڈیموکریٹک چینج ۔ سوانگیرائی کہا جاتا ہے اسمبلی میں موجود ایک مرکزی اپوزیشن جماعت ہے۔ سن 2005ء کی تقسیم کے بعد یہ مورگن سوانگیرائی کی زیرِ قیادت اس جماعت کے دو دھڑوں میں سے اکثریتی حصہ ہے، دوسرا قدرے اقلیتی حصہ ”موومنٹ فار ڈیموکریٹک چینج۔نکیوبے“ ہے جس کے قائد ویلشمین نکیوبے ہیں۔
رابرٹ گیبریل موگابے،فروری 1924ء میں پیدا ہونے والے ایک زمباوی انقلابی اور سیاستدان ہیں جو 1987ء کے بعد سے زمبابوے کے صدر ہیں۔ اس سے قبل وہ 1980ء سے لے کر 1987ء تک زمباوے کے وزیرِاعظم رہے وہ 1975ء سے اپنی سیاسی جماعت کے چیئرمین ہیں، نظریاتی طور پر ایک افریقن نیشنلسٹ، 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں وہ خود کومارکسٹ۔لینینسٹ جبکہ 1990ء کی دہائی سے صرف سوشلسٹ قرار دیتے ہیں، ان کی پالیسیوں کو موگابیزم کہا جاتاہے۔
صدر موگابے ترانوے برس کے ہو چکے ہیں اور اُنہوں نے سیاسی سرگرمیاں بھی محدود کر دی ہیں تاہم ان کی پارٹی سن 2018ء کے انتخابات کے لیے انہیں ایک بار پھر صدارتی امیدوار نامزد کرنا چاہتی تھی کہ اچانک مارشل لاء لگنے کی خبریں آگئیں۔14 نومبر 2017ء کی شام، زمبابوے کی دفاعی افواج کے افسرانِ بالا، زمبابوے کے دارالحکومت ہرارے کے ارد گرد جمع ہوئے، اور زمبابوے براڈکاسٹنگ کارپوریشن اور شہر کے دوسرے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اگلے روز انہوں نے یہ بیان جاری کیا کہ یہ مارشل لاء نہیں لگایا گیا اور صدر موگابے بالکل محفوظ ہیں اور جب وہ موگابے کے اردگرد موجود زمباوے کے معاشرتی۔ معاشی مسائل کے ذمہ داران ”مجرموں“ کے ساتھ نمٹ لیں گے پھر حالات معمول کی جانب پلٹ آئیں گے۔ جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زُما، نے موگابے کو فون پر کال کر کے معلوم کیا تو تصدیق ہوئی کہ موگابے بالکل ”ٹھیک“ ہیں لیکن زیرِ حراست ہیں۔
مارشل لاء ایسے حالات میں عائد ہوا ہے جب زمبابوے افریقی نیشنل یونین - پیٹریاٹک فرنٹ کے سابقہ وائس پریزیڈنٹ ایمرسن منانگاگوا (جنہیں فوج کی حمایت حاص ہے) اور خاتونِ اول گریس موگابے (جنہیں ینگر جی۔40 دھڑے کی حمایت حاصل ہے) کے درمیان 93 سالہ بوڑھے صدر موگابے کا جانشین بننے کی چپقلش جاری تھی۔ ایمرسن منانگاگوا کے جب پارٹی سے نکالا گیا اور جبراً ملک بدر کیا گیا تو ایک ہفتے کے بعد، لیکن فوج کے دارلحکوم ہرارے میں داخل ہونے سے ایک روز قبل آرمی چیف کونسٹین ٹینو چیونگا نے ایک بیان جاری کیا تھا کہ زمبابوے افریقی نیشنل یونین - پیٹریاٹک فرنٹ کے اعلیٰ عہدے دار جیسا کہ ایمرسن منانگاگوا کو بے دخل کیا گیا ہے، ایسی حرکتوں سے باز رہناچاہیے۔