ایک تازہ رپورٹ کے مطابق روس تیل کی قیمتوں میں کمی اور معاشی پابندیوں کے باوجود اسلحے کی دوڑ یا دوسرے لفظوں میں عسکری اخراجات کے لحاظ سے 2016ء میں تیسرے نمبر پر رہا ہے ، روس نے 2016ء میں 62.2 بلین ڈالر عسکری مد میں خرچ کیے جو 2015ء کی نسبت 5.9 فیصد اضافی ہیں ۔
سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ اپنی آزادی کے بعد سے روس کی طرف سے آج تک اس مد میں خرچ کیا جانے والا سب سے بڑا تناسب ہے۔سن 2014ء میں جب یوکرائن کا تنازع ہوا تھا تب سے مغرب کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں اور تیل کی قیمتوں میں کمی واقع ہونے کے باعث روس کی سخت مشکلات میں گھری ہوئی معیشت کے لیے اخراجات میں یہ اضافہ ایسے حالات میں بہت بڑا بوجھ ہے۔
سن 2015ء میں سعودی عرب اسلحہ کا تیسرا بڑا صارف تھا لیکن 2016ء میں 63.7 بلین ڈالر کے عسکری اخراجات میں 30 فیصد کمی کے ساتھ چوتھے نمبر پر آ گیا، باوجود یکہ وہ خطے میں جنگیں مسلط کرنے میں ملوث رہتا ہے، ادارے کے ایک محقق نان تیان کا کہنا ہے کہ تیل کے زر مبادلہ میں کمی اور دیگر متعلقہ معاشی مسائل نے تیل کی قیمت کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس کی بناء پر تیل پر انحصار کرنے والے متعدد ممالک عسکری اخراجات کم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں، مزید یہ کہ سعودیہ نے 2015ء اور 2016ء کے درمیان عسکری اخراجات میں سب سے زیادہ کمی دکھائی ہے۔
امریکا 2015ء اور 2016ء کے درمیان 611 بلین ڈالر میں 1.7 فیصد اضافے کے ساتھ ہتھیاروں کی دوڑ میں سرِ فہرست رہا جبکہ چین نے 215 بلین ڈالر کے اخراجات میں 5.4 فیصد اضافہ کیا جو کہ گزشتہ برسوں کی نسبت قدرے کم ہے ۔رپورٹ کے مطابق امریکی عسکری اخراجات میں سن 2016ء میں اضافہ ”شاید اِن اخراجات میں کمی کے رُجحان کو ختم کر دے“ جو سن 2008ء میں معاشی بُحران کی وجہ سے آیا تھا اور امریکی افواج کا افغانستان اور عراق سے انخلا ہوا تھا۔
اپریل کی 13 تاریخ کو امریکہ نے افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار کےدور دراز کے علاقے میں دولتِ اسلامیہ (داعش) گروپ کے ٹھکانے کو نشانہ بناتے ہوئے اپنا سب سے بڑا (غیر ایٹمی) بم گرایا تھا۔سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر عاد فلورینٹ کا کہنا ہے، ”ان اخراجات میں مزید اضافے کی معلومات ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں سیاسی تبدیلی کی وجہ سے ابھی تک غیر واضح ہیں“۔
مغربی یورپ، جو کہ 2015ء سے دہشتگردی کے سانحات کی زد میں ہے، نے بھی 2016ء میں تواتر کے ساتھ دوسرے سال بھی اپنے عسکری اخراجات میں 2.6 کی نسبت سے اضافہ کیا ہے۔ وسطی یورپ نے بھی 2016ء میں 2.4 فیصد کی نسبت سے اخراجات میں اضافہ کیا ہے۔انسٹیٹیوٹ کے ایک سینئرتحقیق کار سائمن ویزمن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وسطی یورپ میں عسکری اخراجات میں بڑھوتری کو کسی حد تک اس رائے کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے کہ روس اُن کے لیے ایک بڑا خطرہ بن رہا ہےتاہم انہوں نے مزید کہا کہ حالانکہ یہ حقیقت اس کے باوجود اپنی جگہ ہے کہ اکیلے روس کا 2016ء میں عسکری بجٹ، یورپی نیٹو ارکان کے کُل اخراجات کا 27 فیصد تھا۔
سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ اپنی آزادی کے بعد سے روس کی طرف سے آج تک اس مد میں خرچ کیا جانے والا سب سے بڑا تناسب ہے۔سن 2014ء میں جب یوکرائن کا تنازع ہوا تھا تب سے مغرب کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں اور تیل کی قیمتوں میں کمی واقع ہونے کے باعث روس کی سخت مشکلات میں گھری ہوئی معیشت کے لیے اخراجات میں یہ اضافہ ایسے حالات میں بہت بڑا بوجھ ہے۔
سن 2015ء میں سعودی عرب اسلحہ کا تیسرا بڑا صارف تھا لیکن 2016ء میں 63.7 بلین ڈالر کے عسکری اخراجات میں 30 فیصد کمی کے ساتھ چوتھے نمبر پر آ گیا، باوجود یکہ وہ خطے میں جنگیں مسلط کرنے میں ملوث رہتا ہے، ادارے کے ایک محقق نان تیان کا کہنا ہے کہ تیل کے زر مبادلہ میں کمی اور دیگر متعلقہ معاشی مسائل نے تیل کی قیمت کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس کی بناء پر تیل پر انحصار کرنے والے متعدد ممالک عسکری اخراجات کم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں، مزید یہ کہ سعودیہ نے 2015ء اور 2016ء کے درمیان عسکری اخراجات میں سب سے زیادہ کمی دکھائی ہے۔
امریکا 2015ء اور 2016ء کے درمیان 611 بلین ڈالر میں 1.7 فیصد اضافے کے ساتھ ہتھیاروں کی دوڑ میں سرِ فہرست رہا جبکہ چین نے 215 بلین ڈالر کے اخراجات میں 5.4 فیصد اضافہ کیا جو کہ گزشتہ برسوں کی نسبت قدرے کم ہے ۔رپورٹ کے مطابق امریکی عسکری اخراجات میں سن 2016ء میں اضافہ ”شاید اِن اخراجات میں کمی کے رُجحان کو ختم کر دے“ جو سن 2008ء میں معاشی بُحران کی وجہ سے آیا تھا اور امریکی افواج کا افغانستان اور عراق سے انخلا ہوا تھا۔
اپریل کی 13 تاریخ کو امریکہ نے افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار کےدور دراز کے علاقے میں دولتِ اسلامیہ (داعش) گروپ کے ٹھکانے کو نشانہ بناتے ہوئے اپنا سب سے بڑا (غیر ایٹمی) بم گرایا تھا۔سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر عاد فلورینٹ کا کہنا ہے، ”ان اخراجات میں مزید اضافے کی معلومات ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں سیاسی تبدیلی کی وجہ سے ابھی تک غیر واضح ہیں“۔
مغربی یورپ، جو کہ 2015ء سے دہشتگردی کے سانحات کی زد میں ہے، نے بھی 2016ء میں تواتر کے ساتھ دوسرے سال بھی اپنے عسکری اخراجات میں 2.6 کی نسبت سے اضافہ کیا ہے۔ وسطی یورپ نے بھی 2016ء میں 2.4 فیصد کی نسبت سے اخراجات میں اضافہ کیا ہے۔انسٹیٹیوٹ کے ایک سینئرتحقیق کار سائمن ویزمن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وسطی یورپ میں عسکری اخراجات میں بڑھوتری کو کسی حد تک اس رائے کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے کہ روس اُن کے لیے ایک بڑا خطرہ بن رہا ہےتاہم انہوں نے مزید کہا کہ حالانکہ یہ حقیقت اس کے باوجود اپنی جگہ ہے کہ اکیلے روس کا 2016ء میں عسکری بجٹ، یورپی نیٹو ارکان کے کُل اخراجات کا 27 فیصد تھا۔