منگل، 25 اپریل، 2017

اسلحے کی دوڑ ۔ امریکہ ۔ چین ۔ روس ۔ سعودیہ

             ایک تازہ رپورٹ کے مطابق روس تیل کی قیمتوں میں کمی اور معاشی پابندیوں کے باوجود اسلحے کی دوڑ  یا دوسرے لفظوں میں عسکری اخراجات کے لحاظ سے  2016ء میں تیسرے نمبر پر رہا ہے ، روس نے  2016ء میں 62.2 بلین ڈالر عسکری مد میں خرچ کیے جو 2015ء کی نسبت 5.9 فیصد اضافی ہیں ۔
             سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ اپنی آزادی کے بعد سے روس کی طرف سے آج تک اس مد میں خرچ کیا جانے والا سب سے بڑا تناسب ہے۔سن 2014ء میں جب یوکرائن کا تنازع ہوا تھا تب سے مغرب کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں اور تیل کی قیمتوں میں کمی واقع ہونے کے باعث روس کی سخت مشکلات میں گھری ہوئی معیشت کے لیے اخراجات میں یہ اضافہ ایسے حالات میں بہت بڑا بوجھ ہے۔
             سن 2015ء میں سعودی عرب اسلحہ کا تیسرا بڑا صارف تھا لیکن 2016ء میں 63.7 بلین ڈالر کے عسکری اخراجات میں 30 فیصد کمی کے ساتھ چوتھے نمبر پر آ گیا، باوجود یکہ وہ خطے میں جنگیں مسلط کرنے میں ملوث رہتا ہے، ادارے کے ایک محقق نان تیان کا کہنا ہے کہ تیل کے زر مبادلہ میں کمی اور دیگر متعلقہ معاشی مسائل نے تیل کی قیمت کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس کی بناء پر تیل پر انحصار کرنے والے متعدد ممالک عسکری اخراجات کم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں، مزید یہ کہ سعودیہ نے 2015ء اور 2016ء کے درمیان عسکری اخراجات میں سب سے زیادہ کمی دکھائی ہے۔
             امریکا 2015ء اور 2016ء کے درمیان 611 بلین ڈالر میں 1.7 فیصد اضافے کے ساتھ ہتھیاروں کی دوڑ میں سرِ فہرست رہا جبکہ چین نے 215 بلین ڈالر کے اخراجات میں 5.4 فیصد اضافہ کیا جو کہ گزشتہ برسوں کی نسبت قدرے کم ہے ۔رپورٹ کے مطابق امریکی عسکری اخراجات میں سن 2016ء  میں اضافہ ”شاید اِن اخراجات میں کمی کے رُجحان کو ختم کر دے“  جو سن 2008ء میں معاشی بُحران کی وجہ سے آیا تھا اور امریکی افواج کا افغانستان اور عراق سے انخلا ہوا تھا۔
             اپریل کی 13 تاریخ کو امریکہ نے افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار کےدور دراز کے  علاقے میں دولتِ اسلامیہ (داعش) گروپ  کے ٹھکانے کو نشانہ بناتے ہوئے اپنا سب سے بڑا (غیر ایٹمی) بم گرایا تھا۔سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ  کے ڈائریکٹر عاد فلورینٹ کا کہنا ہے، ”ان اخراجات میں مزید اضافے کی معلومات ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں سیاسی تبدیلی کی وجہ سے ابھی تک غیر واضح ہیں“۔
             مغربی یورپ، جو کہ 2015ء سے دہشتگردی کے سانحات کی زد میں ہے، نے بھی 2016ء میں   تواتر کے ساتھ دوسرے سال بھی اپنے عسکری اخراجات میں  2.6 کی نسبت سے اضافہ کیا ہے۔ وسطی یورپ نے بھی 2016ء میں 2.4 فیصد کی نسبت سے اخراجات میں اضافہ کیا ہے۔انسٹیٹیوٹ  کے  ایک سینئرتحقیق کار سائمن ویزمن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وسطی یورپ میں عسکری اخراجات میں بڑھوتری  کو کسی حد تک  اس رائے کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے کہ روس اُن کے لیے  ایک بڑا خطرہ بن رہا ہےتاہم انہوں نے مزید کہا کہ حالانکہ یہ حقیقت اس کے باوجود اپنی جگہ ہے کہ اکیلے روس کا 2016ء میں عسکری بجٹ، یورپی نیٹو ارکان کے کُل اخراجات کا 27 فیصد تھا۔

ہفتہ، 22 اپریل، 2017

ڈاکٹر تنظیم الفردوس

تنظیم فردوس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ڈاکٹر تنظیم الفردوس


پیدائش 28 مئی 1966 ء
قلمی نام تنظیم الفردوس
پیشہ مصنف، ماہرِ لسانیات، معلم، نقاد، محقق
زبان اردو، انگریزی، سندھی ، فارسی
شہریت پاکستان کا پرچمپاکستانی
تعلیم پی ایچ ڈی
مادر علمی جامعہ کراچی
صنف تنقید، تحقیق، لسانیات
مضمون تاریخِ اردو زبان،مولانا احمد رضا خان کی شاعری
نمایاں کام اردو کی نعتیہ شاعری میں امام احمد رضا کی انفرادیت​ و اہمیت[1]، منظر بدلنا چاہیے مطبوعہ 2016ء [2]، ممتاز شیریں شخصیت اور فن[3]
ویب سائٹ
شعبۂ اُردو ، جامعہ کراچی

                      ڈاکٹر تنظیم الفردوس پاکستان میں اردو زبان کی ایک استاد[4]، محقق اور مصنفہ [5]ہیں۔ وہ مئی 2016ء سے جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں بطورِ صدر شعبہ خدمات سرانجام دے رہی ہیں[6] وہ مقامی اور بیرونی طلباء و طالبات کو اُردو کی تدریس کرتی ہیں اور ساتھ ساتھ اُردو کی اسناد/ڈپلوما جات کے لیے نصاب بھی ترتیب دیتی ہیں۔ وہ نصف درجن سے زائدمطبوعہ کتب کی مصنفہ اور مؤلفہ ہیں۔

تعلیم

ڈاکٹر تنظیم الفردوس نے جامعہ کراچی سے انگریزی، سندھی اور فارسی زبان کے کورسز کیے، اور جامعہ ھٰذا سے 1989ء میں اُردو زبان و ادب میں ماسٹرز کرنے کے بعد سن 2004ء میں اُردو زبان و ادب میں پی ایچ ڈی کی، اُن کے پی ایچ ڈی مقالہ کا عنوان ” اردو کی نعتیہ شاعری میں امام احمد رضا کی انفرادیت​ و اہمیت“ ہے[7]

تدریس

وہ لگ بھگ 1992ء سے مختلف اداروں میں تدریس سے وابستہ ہیں، گورنمنٹ کالج برائے خواتین، پاکستان ایمپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی میں تین برس بطورِ لیکچرر تعینات رہیں، بعد ازاں30 اپریل 1995ء سے جامعہ کراچی کےشعبۂ اُردو میں پوسٹ گریجویٹ کلاسزکو تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں اور اب (2016ء سے تا حال اپریل 2017ء تک) صدرِ شعبہ ہیں۔[8]

تصانیف

اُن کی طبع شُدہ کتب میں سے چند کے عنوانات درج ذیل ہیں۔
  • مجموعہ ٔ شاعری : منظر بدلنا چاہیے مطبوعہ 2016ء، قرطاس، فیصل آباد [9]
  • تنقید: ممتاز شیریں شخصیت اور فن، اکادمی ادبیات پاکستان[10]
  • انتخابِ کلام: رضا علی وحشت (تالیف)، 2017ء، آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی
  • انتخابِ کلام: شبلی نعمانی (تالیف)، 2015ء، آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی
  • انتخابِ کلام: بہادر شاہ ظفر (تالیف)، 2015ء، آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی
  • انتخابِ کلام: امیر مینائی(تالیف)، 2014ء، ادراۂ یادگارِ غالب کراچی
  • اُردو شاعری کی چند کلاسیکی اصناف: عہدِ حاضر کے تناظر میں، 2013ء، ادراۂ یادگارِ غالب کراچی
  • جنگِ آزادی 1857ء؛ تاریخی حقائق کے نئے زاویے، 2012ء، قرطاس، کراچی؛ اشاعتِ اول 2010ء
  • فُٹ فالس ایکو (Foot Falls Echo)، ممتاز شیریں کے انگریزی افسانوں کا مجموعہ، 2006ء، منزل اکیڈمی، کراچی
غیر مطبوعہ کُتُب مشرق اور مغرب کی کہانیاں (تالیف)، نیشنل بُک فاؤنڈیشن، اسلام آباد انتخابِ خطوطِ غالب (تالیف) ، آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی

مضامین

مختلف رسائل و جرائد میں چھپنے والے چند مقالہ جات
  • مولانا احمد رضا خان کی نعت گوئی کا سب سے اہم محرک: ماہنامہ معارفِ رضا کراچی، نومبر 2004ء[11]
  • علامہ مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری میں ہیئت کا تنوع: ماہنامہ معارفِ رضا سلور جوبلی سالنامہ نمبر 2005ء[12]
  • مولانا احمد رضا خان کی شاعری میں لسانی تشکیلات اور مقامی اثرات: ماہنامہ معارفِ رضا کراچی، اپریل 2000ء[13]

حوالہ جات

اتوار، 9 اپریل، 2017

کیا یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے --- عبدالرزا ق قادری


گرمی کے موسم میں کبھی کبھی ہو ا کا جھونکا آئےتو دیہاتوں میں درختوں کے سائے تلے بیٹھے لو گ سکھ کا سانس لیتےہیں۔ اوراپنی دوپہر کو گزارتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھار ہو ا بالکل بند ہوجائےاور جس اس قدر شدید حبس ہو کہ دم گھٹتاہو ا محسوس ہو۔ سینہ دھونکنی کی طرح چل رہا ہو۔ سانس لینے میں دشواری ہو تو وہاں سیانے لوگ کہہ دیتے ہیں آج یوں لگتاہے کہ آندھی آئے گی۔ کئی گھنٹوں کے طویل کرب انگیز دورانیے کے بعد شام سے پہلے کسی ایک طرف سے گردکے آثار نظر آتے ہیں۔ جوتھوڑی ہی دیر میں آندھی اوربارش کے طوفان کی صورت میں سر پر آپہنچتا ہے۔ پھر زور کی ہوا، تھپیڑے دار بارش اور تاریک شام کے مناظر چھا جاتےہیں۔ لوگ دوڑ کر گھروں میں گھس جاتے ہیں۔ پہلے گرمی سے چھٹکا رے کا شکر اداہوتاہے۔
پھر جب شدید طوفان تھمنے کا نام نہ لے تو اس سے خوف آناشروع ہو جاتاہے۔چند گھنٹوں کے لیے سارا نظام درہم برہم ہو جاتاہے۔جل تھل کا عالم بن جاتاہے۔اس بارش سےدرختوں ،فصلوں اور مویشیوں کی کثافتیں دُھل جاتی ہیں۔پرندوں کے گھونسلے ٹوٹ کر برباد ہوجاتے ہیں۔ ان غریبوں کے
بچے اورانڈے تباہ ہو جاتے ہیں۔مویشی کانپنا شروع ہو جاتے ہیں ۔لوگوں کے لیے یہ مشکل ہو جاتاہےاپنے جانوروں کو بروقت چارے کا بندوبست کرکے دے چھوٹے چھوٹے بے شمار مسائل جنم لیتے ہیں۔ خوب تباہی ہوتی ہے۔رات کے کسی پہر بارش رُک جاتی ہےبادل کسی دوسرے علاقے کا رُخ کرتےہیں۔
اگلی صبح بڑی شاندار ہوتی ہے۔ہر چیز صاف ستھری ہوتی ہے۔وہی بے گھر پرندے خوشی کے نغمے گارہے ہو تے ہیں۔اُنہیں مویشیوں کے انگ انگ سے اتھراپن دِکھتاہے۔سبزہ خوش نما اور فصلیں سیراب شدہ نظرآتی ہیں۔ہزاروں روپے کے ڈیزل کی بچت ہو جاتی ہے۔کیونکہ بارشی پانی سے فصلیں مفت میں پانی پانی ہو جاتی ہیں۔ ریتلے علاقے تہہ ہو جاتے ہیں۔ندیاں اوردریاسینکڑوںمیلوں تک پانی لے جانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ کسان کا چہرہ تمتا اُٹھتا ہے۔ بچوں کے چہروں پر رونق ہوتی ہے۔ شکر کے نوافل ادا ہوتے ہیں۔ کسی شب میں سحر ہو جاتی ہے۔ اس کی روشنی سے دور تک اُجالا ہو جاتاہے۔ کل والی بارش او ر طوفان سے ناراض لو گ اس کی سختی کو بھول جاتے ہیں۔اوراُس کے نیتجے میں آنے والی نئی صبح سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
طوفان آنے کے پیش خیمہ میں گھٹن حبس ہو ا کی بندش اورسکوت کاتذکرہ ہو تا ہے۔کچھ اسی طرح کاحال آج انسانیت کا مجموعی طورپر ہے۔ اس پر کالا قانون راج کر رہاہے۔ حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ عدل کے نام پرظلم کیا جارہاہے۔ جدت کے نام پر بدی فروغ پارہی ہے۔ نظام نے انسان کو مشین بنا دیاہے۔ اُسے بے حس بے بس اوربے جان پُر زے کی طرح استعمال کیا جا رہاہے۔ کہیں سے کیمونزم نے اور لادینت کے سانپ نے سری اُٹھائی ہو ئی ہے کہیں سے اور آزادی اظہاررائے کے ناگ نے پھن پھیلایا ہو ا ہے۔ اُن پر ظالم حکمران مسلط ہیں۔ خود غرضی کے طلسم ہوش رُباکا جادو اُن کے سرچڑ ھ کر بو ل رہاہے ۔خود پرستی کی چکا چوند انہیں پھانسی کے گھاٹ تک لے آئی ہے۔ مال وزر کی ہوس نے ان کے اندر انسان کو ذبح کر دیاہے۔
 ایک گہراسکوت ہے۔ تاریکی ہی تاریکی ہے۔کفار ان کو ہائی پوٹینسی کے جھٹکے لگا کر لگا کر میٹھی نیند کی گولی بھی دے ڈالتے ہیں۔وہ درد کے انجکشن سے بلبلا آٹھاہے لیکن گولی کی وجہ سے پھر سوجاتاہے۔ہوش میں آنے کا شعور چھن گیا ہے۔ للکارنے والا کو ئی نہیں۔ ہوش دلانے والا طبیب مفقودہے۔ مسئلے کا حل تلاش کر نے والا معالج عنقا ہے۔ اگرتو یہ درد کے جھٹکے اور بلبلانے کی شدت گرمی کے موسم کی ہلکی پھلکی ہو ا کی مانند ہے تو پھرنہ اُمت مسلمہ سے کو ئی آندھی اُٹھے گی اورنہ ہی کو ئی طوفان تہ وبالا کرے گا، لیکن اگر یہ خاموشی گرمی کی گھُٹن اور حبس کے جیسی ہے تو ان شاءاللہ وہ گھنگھور گھٹائیں ضرور اُٹھیں گی۔ اور وہ طوفان ضرورآئے گا۔ جوکفار کی ہرطرح کی یلغار کو خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔اُس میں چند مائوں کے گھر پرندوں کے گھونسلوں کی مانند ضرورتباہ ہوں گئے۔ پرندوں کے انڈوں کی طرح انسانوں کے کچھ بیٹے اس طوفان کی زدمیں تو ضرور آئیں گے۔
 لیکن اگلی نکھری نکھری صبح کی تازگی میں سارے غم بھو ل جائیں گے۔کروڑوں اربوں لوگوں کو خوش دیکھ کر چند پیاروں کی یاد دل سے محو ہو جائےگی۔وہ سحر ضرورطلوع ہوگی۔اُس کے مرکز کی نشان دہی کاحق سب جہانوں کے مالک کے پاس ہے۔ اور امید کی کرن اورصبح کے ستارے کا انتخاب بھی آسمانی ہی ہو گا۔ لیکن اُس صبح کے ستارے کے منتظر لاکھوں کروڑوں لوگ اس وقت آسمان کو تک رہے ہیں۔ اور پُرامید ہیں۔ وہ صبح ضرور طلوع ہوگی اوران شاءاللہ جلدہوگی۔