جمعرات، 18 فروری، 2016

ایک کہانی تین نسلوں کی!!!

گزشتہ دنوں میں نے ضلع فیصل آباد کا سفر کیا، وہاں چک نمبر 70 ر۔ب ”گجر سنگھ والا“ میں میری ایک خالہ رہتی تھی، جو سن 2006ء میں اگلے جہاں سدھار گئیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ میری والدہ بھی اسی گاؤں میں (تقریباً 1962ء میں) پیدا ہوئی تھیں ، پنجابی زبان میں والدہ کے میکے کو ”نانکے“ اور اردو میں ننھیال کہا جاتا ہے۔ میرے ننھیال نے تقریباً 1970ء  میں ضلع وہاڑی کی طرف ہجرت کی۔ کچھ وجوہ کی بنا پر انہیں نقل مکانی کرنا پڑی۔اور پھر وہاں سے بھی چھوڑ کر ضلع لیہ میں ایک گاؤں میں تھوڑا عرصہ گزارنے  کے بعد چک نمبر 475 ٹی ڈی اے میں اپنی زمین خرید لی اور وہیں رہنے لگے۔ 
میرے ابتدائی بچپن میں، سب سے خوشی کی بات میرے ننھیال  کے ہاں جانا تھا ( شاید آج بھی ہے)،  تب ہم ضلع وہاڑی کے ایک گاؤں چک نمبر 174 ڈبلیوبی ”راجو“ میں رہتے تھے، میری پیدائش بھی وہیں کی ہے۔ ہم نے 1990ء یا 1991 میں ضلع لیہ کے ایک گاؤں میں نقل مکانی کی، یہ چک نمبر 349 ٹی ڈی   اے”رحمان آباد“  تھا۔ سن 2000ء کے 12 اگست  کو میں لاہور آیا اور یہیں کا ہوکر رہ گیا۔
5 فروری 2016ء کو میں اپنی مرحوم خالہ کے گھر والوں سے ملنے  فیصل آباد گیا تھا، اس تصویر میں  میرے خالو کو بائیں جانب دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کا نام شیر ہے۔ درمیان میں ان کے بیٹے، ایم بوٹا شاہین اور دائیں طرف مسٹر عقیل (بوٹا شاہین کا بیٹا) موجود ہے۔ میرے خالو  1947ء کی خونی ہجرت کے چشم دید گواہ ہیں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ان کی عمر اس وقت 13 یا 14 سال تھی  اور آگ اور خون کے منظرنامے میں اپنے آبائی گاؤں کو چھوڑ کر ایک قافلے کے ساتھ آئے تھے۔ ایم بوٹا  شاہین نے ایک مزدور کے طور پر 2 دہائیوں  تک ٹیکسٹائل ملز میں  مزدوری کی اور اب وہ اپنے گھر کے ایک کمرے میں  کریانہ(پرچون)  کی ایک چھوٹی سی دکان چلا   رہے ہیں۔ عقیل صاحب اب سکول میں تعلیم حاصل نہیں جاتے، حالانکہ وہ ایک بچہ ہے۔پاکستان میں اس لالچی معاشرےکے غلیظ نظام میں مناسب طریقے سے  تعلیم حاصل کرنے کے لئے، ایک بچے  کو بہت سے”مسائل“  سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے، جن میں سے کچھ کا اظہار ایک فلم ”تارے زمیں پر“ میں کیا گیا ہے۔
یہ تصویر 6 فروری 2016ء کو میں نے کھینچی ہے۔ عبدالرزاق

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں