مذہب اور الحاد جدید دور میں
عبدالرزاق قادری
اگرآپ اچھےافکاروخیالات والےلوگوں کے ساتھ دوستی رکھتے ہیں تو ان کی اچھی باتوں کا آپ کی شخصیت اور کردار پر بہت مثبت اثر پڑتا ہے اگر آپ دھیمے اور نرم لہجے میں گفتگو کرنے والے علماء کی مجلس میں بیٹھتے ہیں توعین ممکن ہے کہ آپ کا انداز بھی علمی ہو جائے تحقیق کا رخ منفی موضوعات سے پھیر کرمثبت موضوعات کی طرف ہوتوایک محقق زمانے کو کوئی اچھاسبق دےسکتاہے بےشمار اچھے موضوعات قابل تحقیق پڑے ہیں ان پر قلم اٹھانےکی ضرورت ہے
معاشرے کی ضرورت کے مطابق مثبت تحقیق پرمزیدموادکی ضرورت ہے ایک طویل عرصے سے بہت سی توانائی ایسے کاموں پر خرچ ہوچکی ہے جن کی سرے سے ضرورت نہیں تھی اور جن کاموں پر محنت کی ضرورت تھی اس طرف بہت کم لوگوں کادھیان گیا، وسائل کی کمی آڑے آئی اورعوام ان بہت ہی کم لوگوں کے علمی کام سے بوجوہ متعارف نہ ہو پائے عوام کو یوں لگا جیسے علمی کام صرف میدان جنگ کا سا ہوتا ہے اور شاید کسی شخصیت کو تنقید کا نشانہ بنائے بغیر کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا سکتا اس لئے عوام اہل علم سےبھی متنفر ہوگئے یہ ان کاحق تھا اگر ہم عوام کا رشتہ علماء سے جوڑنا چاہتے ہیں تو انداز بھی علمی اپنانا ہوگا۔ عرصہ دراز سے یہ وقوعہ ہوتا آیا ہے کہ عوام الناس کسی بندے کو اپنا حقیقی رہبر مان کر اس کے جھانسے میں آجاتے رہے لیکن ایک وقت کے بعد کسی وجہ سے متنفر ہو کر معاملہ گول ہو جاتا رہا یہ سلسلہ اتنی بار اپنے منطقی انجام سے دو چار ہوا کہ اب شاید عوام میں مزید کسی ایسے لیڈر کو برداشت کرنے کی سکت باقی نہیں رہی اگر ہم اسلام کی بات کریں تو یہ دینِ فطرت ہے، محبتوں کا پیغام ہے اور امن کا نشان ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ کچھ لوگوں نے اسلام کو غیر لچک دار اور شدت پسند رویے کے ساتھ متعارف کرانے کی کوشش کی اور یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ ان شدت پسندوں کا ردبھی کچھ احباب نے شدت سے کیا نوبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ کچھ لوگوں نے ہمارے ان بزرگوں کو بھی شدت پسندانہ رویے کے ساتھ متعارف کروایا جن کا پیغام محبت تھا ان بزرگوں کاپیغام عشق رسول تھا اور رضائے الہی کا حصول تھا میں کہنا چاہوں گا کہ امام اہلسنت مولانا احمد رضا خان قادری محدث بریلوی کے ساتھ بھی یہی زیادتی ہوئی ہے پچھلےدورکوجدیددورکہاجاتاتھا،آج کےدورکومابعدجدیددورکہاجاتاہے جدیددور میں سائنس کی پوجا کی جاتی تھی آج سائنس کو جوتے پڑ رہے ہیں جب کہ آج کے دور میں ٹیکنالوجی اور علم الکلام کا طوطی بول رہا ہے جس کی مثال ہمہ قسم کا جدید میڈیا ہے جدید دور میں امام احمد رضا اور علامہ اقبال نے انسانیت کو بربادی سے بچانے کے لئے خامہ فرسائی کی۔ ان دوشخصیات نے اڑھائی صدیوں کی غلاظت کے آگے بند باندھ دیا اس کے بعد ایک بار پھر الحادی فکر کی یلغار ہو گئی آج کے دور میں سائنس سے لوگوں کا یقین اٹھ چکا ہے اور وہ کسی گوشہ عافیت کی تلاش میں ہیں، امام احمد رضا اور ڈاکٹر اقبال کا صرف مسلمانوں پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے انسانوں پر احسان ہے کہ ان دونوں نے بے دین فلسفے اور باطل سائنس کے چنگل سےانسانیت کومحفوظ رہنے کے لیےخوب خبردار کیا، عین ممکن ہے کہ آنے والے سالوں میں مغرب سے ہی تہذیب یافتہ مسلمان کوئی ایسی جدوجہد فرمائیں جس کے ذریعے سے وہ اس ٹیکنالوجیکل یلغار کے ہتھیار کو ہی اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے عمل میں لے آئیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں