پیر، 15 جولائی، 2013

صیام کی لغوی تحقیق از قلم مفتی اعظم پاکستان علامہ مولانا محمد ارشد القادری


صیام کی لغوی تحقیق

عربی بڑی فصیح و بلیغ زبان ہے، جتنی وسعت اس زبان میں ہے، ایسی فصاحت کسی دوسری زبان میں نہیں ہے، اس کا دامن بہت ہی وسیع ہے۔ ایک ایک لفظ اپنے اندر کئی کئی معانی رکھتا ہے، اس کی اس گنجائش کے باعث اس کو تمام زبانوں کی سردار کہا جاتا ہے۔ لغاتِ عرب میں، صوم، صیام اور صائم کے معانی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے۔ عرب، ٹھہرے ہوئے پانی پر لفظِ صائم بولتے تھے وہ کہتے تھے۔
مَاءٌ صَاءِمٌ (المنجد ص ۵۸۳)
ٹھہرا ہوا پانی، رکا ہوا پانی
جب پہاڑوں پر بارش ہوتی تو پانی بڑی تیزی کے ساتھ پہاڑوں کی بلندی سے نیچے اترتا، اس کی تیزی اور بہاؤ اتنا تُند ہوتا کہ جو کچھ سامنے آتا، اسے بہا کر ساتھ لے جاتا، پھر جب وہ پانی بلندی سے نشیب میں اتر آتا تو ایک مقام پر آ کر ٹھہر جاتا، جب اس پانی میں بہاؤ، کٹاؤ اور غرقابی کا ملکہ باقی نہ رہتا۔ اس میں تباہی کی صفت باقی نہ رہتی، اس کی سرکشی معدوم ہو جاتی، اس میں برباد کرنے کی صلاحیت باقی نہ رہتی تو ایسے پانی کو عرب
مَاءٌ صَاءِمٌ کہتے تھے۔
اس کا مطلب ہوتا تھا یہ ایسا پانی ہے جو صائم ہو گیا ہے۔ اردو زبان میں صائم کو روز دار کہتے ہیں، یہ اسم فاعل ہے۔ لہٰذا روزہ دار کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا شخص جس کی سرکشی معدوم ہو گئی ہو، جس کی بغاوت محو ہو گئی ہو، جس کی عداوت کا قلع قمع ہو گیا ہو۔ گویا صائم ایسے شخص کو کہتے ہیں جو ہر طرح کی بغاوت و سرکشی کے جذبات سے بری ہو اور اس کی طبیعت میں صرف اور صرف امن ہو، سلامتی ہو، حق شناسی ہو اور حق پرستی ہو۔ صائم یعنی روزہ دار ایسے آدمی کو کہتے ہیں جو سراپا، شرافت ہو، جو سراپا دیانت ہو، جو سراپا عدالت ہو، جو سراپا محبت ہو، روزہ بندۂ مؤمن میں وہ جوہر نایاب پیدا کرتا ہے، جو عام حالات میں پیدا نہیں ہوتا۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو مسلمانوں میں جذبات طہارت ابھارتا ہے، جذباتِ صدق کو عروج پر لاتا ہے اور جذباتِ تقویٰ کو شباب فراہم کرتا ہے، جس طرح عرب ٹھہرے ہوئے پانی پر ’’مَاءٌ صَاءِمٌ‘‘ کے الفاظ بولتے تھے اسی طرح وہ کُنڈ چھُری پر صائمہ کے لفظ بولتے تھے اور اس چھری پر صائمہ کا اطلاق کرتے تھے وہ کہتے تھے:
الصَّاءِمَۃُ مِنَ السَّکَاکِیْنَ (المنجد ۵۸۳)
یہ ایک ایسی چھری ہے جو کُند ہو گئی ہے۔

حُسنِ عمل کی جیتی جاگتی تصویر

مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ ہے تو چھری مگر اب اس میں کاٹنے، چیرنے، پھاڑنے اور مجروح کرنے کا ملکہ باقی نہیں رہا گویا اب یہ چھری صرف نام کی ہے ورنہ اس میں بغاوت، سرکشی، چیر پھاڑ، قتل و غارت کا ملکہ ہرگز نہیں رہا۔ اسی طرح صائمہ ایسی عورت کو کہتے ہیں جو بے ضرر ہو گئی ہو، جس میں سازش، سرکشی، بغاوت، الزام تراشی، بے راہ روی اور ایسے تمام جذبات کا خاتمہ ہو گیا ہو، جو کسی فرد، خاندان یا قوم کی تباہی کا باعث بن سکیں۔ اب معنیٰ اور بھی بیّن ہو کر سامنے آ گیا کہ روزہ دار ایسی عورت کو کہا جائے گا، جو سراپا پرہیزگار ہو گئی ہو، جو سراپا پیغام امن بن گئی ہو، جس کی ایک ایک ادا موافقِ قرآن و حدیث ہو گئی ہو۔
یہی وہ کمال ہے جو اسلام اپنے ماننے والوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے، یہی روزہ کی غایت ہے۔ اسی کو روزہ کی حقیقت سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اسی انداز شرافت کا نام تقویٰ ہے۔ اسی کو پرہیزگاری کہا جاتا ہے۔ ایسی ہی عورتوں کو متقّیہ کے اعزاز و اکرام سے نوازا جاتا ہے۔
اصلاً، اسلام اپنے ماننے والوں کو ایسا متقی بنانا چاہتا ہے کہ ان کی ایک ایک ادا انسانیت کی فلاح و بہبود پر دلالت کرے، ان کا عمل حُسنِ عمل کی جیتی جاگتی تصویر ہو۔ ان کی گفتار، ہمدردی، محبت، شفقت اور احترامِ انسانیت کے جذبات سے پُر ہو۔
اگر ایسے جذبات کسی مرد و عورت میں پیدا ہو جاتے ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے۔ اس روزہ دار کے روزے اپنا اثر حقیقی چھوڑ گئے اور صائم و صائمہ کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مل گئی اور جنت الفردوس کے حق دار بن گئے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ روزہ صرف تم لوگوں پر ہی فرض نہیں ہوا، بلکہ وہ لوگ جو تم سے پہلے اس جہاں میں آئے تھے ان پر بھی روزہ فرض رہا۔ اس بات کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ کہیں اسلام کے ماننے والوں کے دل میں یہ خیال نہ آ جائے کہ شاید ہمیں ہی اس طرح پابند کیا گیا ہے کہ نظام اوقات ہی تبدیل کر دیئے، فلاں وقت سے فلاں وقت تک نہ کھانا ہے نہ پینا، بلکہ تعلقاتِ ازدواجی بھی ممنوع قرار دے دیئے گئے کہ حالت روزہ میں کھانا پینا بھی منع اور تعلقات ازدواجی پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
اس خدشہ کو زائل کرنے کے لئے فرمایا گیا کہ روزہ ان لوگوں پر بھی فرض تھا جو تم لوگوں سے پہلے اسی جہانِ رنگ و بُو میں آئے تھے اور اپنا وقت گذار کر یہاں سے چلے گئے۔