ہمارے قائد حضرت علامہ مفتی محمد ارشد القادری کے چھوٹے بیٹے احمد رضا قادری ایک عرصہ سے چاہتے تھے کہ ہماری تحریک تعلیم و تربیت اسلامی بھی اپنے جامعہ سے باہر نکل کر مختلف پروگرام منعقد کرے۔ اس میں خاص رائے یہ تھی کہ چونکہ حضرت علامہ صاحب کاخاصہ داتا دربار والی جامع مسجد میں سوالوں کے جوابات دینا ہے اس لیے سوال و جواب ہی کی نشست کو منعقد کیا جائے۔ تاکہ ترویج دین کا یہ انداز بھی عوام الناس کے سامنے آئے۔ ہمارے آج کے دور میں فتنوں کی بھرمار کی وجہ سے نت نئے سوالات جنم لیتے رہتے ہیں۔ جن کا حل قرآن و حدیث کی روشنی میں مطلوب ہوتا ہے۔ جدید سائنس کی بدولت آنے والے تبدیلیوں کی وجہ سے مسائل کا حل بھی اسلامی تعلیما ت کی رو سے معلوم ہونا ضروری ہوتا ہے۔ بہر حال اس کے لیے ایوان اقبال میں اس پروگرام کو ترتیب دینے کے لیے سوچا جانے لگا۔ اور اس کے لیے انتظامات کیے گئے۔ احباب کو دعوت دی گئی۔ اشتہارات اور فلیکس وغیرہ کے ذریعے دعوت کو عام کیا گیا۔ میں اٹھائیس اپریل کو وقت سے قبل ایک فون کال کرنے کے بعد محمد کامران اخترؔ کے ہاں شاہ عالم مارکیٹ گیا اور ہم دونوں ایک بج کر بیس منٹ پر ایوان اقبال کے باہر جا پہنچے۔ سامنے سے ایک قافلہ آ رہا تھا۔ جس کے جھرمٹ میں حضرت مفتی صاحب بھی چلے آ رہے تھے۔ ہال میں جا کر دیکھا ہم ہی اولین لوگ تھے جو داخل ہوئے۔ ایک دو منٹ بیٹھنے کے بعدسوچا کہ جانے یہاں قریب مسجد ہے یا نہیں؟ وہاں ایک صاحب اپنی ٹیم کو انتظامی امور سمجھا رہے تھے۔ اور ان میں انتظامیہ کے کارڈز تقسیم فرما رہے تھے۔شاید ان کا نام منور تھا۔ میں بھول چکا ہوں۔ ہم نے باہر جا کر کسی سے مسجد کا پوچھا۔ انہوں نے اسی محترم کی طرف اشارہ کیا انہوں نے کہا مسجد ادھر ہی ہے اندر کہیں لیکن مجھے اس کا راستہ معلوم نہیں۔ ایک صاحب نے بتایا کہ اُس طرف چلے جائیں وہاں نمل یونیورسٹی کے کیمپس کی طرف آگے جا کے مسجد ہے۔ وہاں جا کر وضو کیا اور جامعہ اسلا میہ رضویہ کے صدر مدرس علامہ سعید احمد کی اقتداء میں نماز ظہر اداکی۔ میرے موبائل پر محترم محمد زید مصطفی رابطہ کر رہے تھے۔ دو بجنے والے تھے۔ میں پھر ہال میں جا پہنچا۔ محمد زید مصطفی اپنا لیپ ٹاپ لے کر وہاں موجود تھے۔ انہیں یہ پروگرام یو سٹریم پر اپنے چینل پر نشر کرنا تھا لیکن صرف ایک تار کی کمی تھی۔ وہ بھی مل گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد محترم عاکف قادری نے حاضرین کو پروگرام کے بارے میں بریفنگ دی۔ انہوں نے سوال کرنے کا طریقہ سمجھایا۔ انہوں نے مہمانوں اور علماء کرام کو خوش آمدید کہا ۔ پھرانہوں نے علامہ عثمان نوری قادری کو نقابت کے لیے مائیک پر بلایا۔
پھر محترم احمد رضا قادری نے اپنے خیالات کا اظہار کیا
علامہ عثمان نوری قادری نے علامہ قاری سعید احمد صاحب کو تلاوت قرآن مجید کی دعوت دی۔
اور علامہ سعید احمد صاحب نے سورہ رحمان کی چند آیات کی تلاوت فرمائی۔
ہال بھرا ہوا تھا اور اس دوران میں علماء کرام بھی تشریف لے آئے۔
جناب احمد رضا قادری نے مائیک پر آ کر تمام مہمانوں اور علماء کرام کو خوش آمدید کہا۔
علامہ عثمان نوری قادری نے کراچی سے تشریف لائے ہوئے حضرت علامہ سید ارشد حسین کچھوچھوی کو بلایا۔ اور شاہ صاحب نے اسلامک لرننگ سیشن کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔
محبی محمد زید مصطفی کی آن لائن براڈکاسٹنگ جاری تھی۔ لیکن ان کا کیمرا صرف مقرر کا چہرہ دکھا سکتا تھا۔ النور میڈیا ڈاٹ نیٹ والے چار کیمروں کی مدد سے بہت ہی بہترین قسم کی وڈیو آن لائن براڈکاست کر رہے تھے۔ یہ میری غلطی کہہ لیں کہ قبل از وقت دوستوں کو لنک نہ دیئے۔ اسی دوران میں میرے دوست حافظ سید محمد حسنین اور محمد دانش بھی تشریف لائے۔
مولانا عثمان نوری صاحب ایک بار پھر ڈائس کے سامنے آئے۔
انہوں نے اسلامک لرننگ سیشن کے مقاصد سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مفتی صاحب کے پاس داتا دربار مسجد میں ان کی نشست میں ایک بار سوال کرنے تین نوجوان آئے وہ کسی جامعہ کے فاضل تھے۔
ان میں سے ایک نے نماز کے بعد ذکر بالجہر کے بارے میں سوال کیا۔
مفتی صاحب نے جوابا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث سنائی۔ کہ وہ فرماتے ہیں میرا گھر مسجد نبوی کے ساتھ تھا جب میں ذکر کی آواز سنتا تو سمجھ لیتا کہ نماز مکمل ہو گئی۔
جلدی سے دوسرے نوجوان نے سوال کیا کہ وہ خود نماز کیوں نہیں پڑھتے تھے۔
مفتی صاحب نے کہا کہ وہ اس وقت تک نابالغ تھے۔ اس وقت تک ان پر نماز فرض نہ تھی۔
تیسرے نوجوان نے کہا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ نابالغ کی گواہی یعنی روایت قبول نہیں۔
مفتی صاحب نے نے کہا کہ انہوں نے یہ روایت بچپن میں بیان نہیں کی۔ وہ معرکہ کربلا کے بعد تک زندہ رہے۔ اور انہوں نے اس عمر میں بیان کی۔
بہرحال وہ تینوں نوجوان مطمئن ہو گئے۔
عثمان نوری صاحب نے اکبر الٰہ آبادی کے ایک شعر سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ علوم عربیہ کا فاضل پوری قوم و ملت کے بارے میں سوچتا ہے جبکہ جدید علوم کا فاضل صرف فکر معاش میں سرگرداں رہتا ہے۔
اس کے بعد انہوں نے علامہ فاروق ضیائی قادری کو دعوت خطاب دی۔ لیکن پہلے مانچسٹر سے تشریف لائے ہوئے ایک پاکستانی نعت خواں نویدالقمرنے نعت سنائی جنہیں احمد رضا قادری صاحب نے بلایا تھا۔ پھرعلامہ فاروق ضیائی قادری صاحب نے ذراجاندار الفاظ میں اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی خوب خبر لی۔ جسے بعد میں کچھ لوگو ں نے سخت رویہ قرار دیا۔
بعد ازاں تعلیم و تربیت اسلامی کے مبلغ مولانا مظہر اقبال قادری نے ایک چھوٹی سی تقریر کی۔
ان کے بعد حضرت علامہ مفتی محمد ارشد القادری کو سٹیج سے ڈائس کی طرف دعوت دی گئی۔ اسی اثناء میں مولانا نذیر احمد قادری نے شیخ الحدیث مولانا عبدالستار سعیدی صاحب کے مبصر کے طور پر مائیک سنبھال کر اپنا اظہار خیال کیا۔ اور علامہ محمد ارشدالقادری کے ساتھ وابستہ پرانی یادوں کو تازہ کیا۔ اور حضرت علامہ پر قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی کی خصوصی نظر کرم کو یاد کیا۔ پھر تین بج کر چونتالیس منٹ کے بعد مفتی صاحب مائیک کی زینت بنے۔
چند منٹ انہوں نے اپنی بات کہی۔ پھر تین بج کر اٹھاون منٹ پر سوالات کا آغاز ہوا۔ جو ایک گھنٹے کے دورانیے پر محیط تھا۔ پہلا سوال تصویر کی حرمت کرے بارے میں ہوا دوسرا ووٹ کے بارے میں ہوا۔ پھر میں بھی اس لائن میں چلا گیا جہاں لوگ سوالات پوچھ رہا تھے۔ حاضرین کے لیے دو جگہوں پر مائیک کا انتظام تھا۔ میں بائیں جانب گیا۔ کچھ سوالات تحریری بھی تھے۔ میں نے بھی ایک سوال طریقہ انقلاب نبوی کا کیا۔
پروگرام کے آخر میں دانش اور میں پینے کے پانی کی تلاش میں اوپر ادھر ادھر پھرے لیکن پانی نہ ملا واپس ہال میں پہنچے تو علامہ مولانا نورالمصطفیٰ دعا مانگ رہے تھے۔ اور لوگوں کا ہجوم ان کے اردگرد جمع تھا۔ میں اس روئیداد میں تمام مشاہدے اور کیفیات کو بیان نہیں کر پایا۔ بہرحال اس سے بھی گزارہ چل ہی جائے گا.
پھر محترم احمد رضا قادری نے اپنے خیالات کا اظہار کیا
علامہ عثمان نوری قادری نے علامہ قاری سعید احمد صاحب کو تلاوت قرآن مجید کی دعوت دی۔
اور علامہ سعید احمد صاحب نے سورہ رحمان کی چند آیات کی تلاوت فرمائی۔
ہال بھرا ہوا تھا اور اس دوران میں علماء کرام بھی تشریف لے آئے۔
جناب احمد رضا قادری نے مائیک پر آ کر تمام مہمانوں اور علماء کرام کو خوش آمدید کہا۔
علامہ عثمان نوری قادری نے کراچی سے تشریف لائے ہوئے حضرت علامہ سید ارشد حسین کچھوچھوی کو بلایا۔ اور شاہ صاحب نے اسلامک لرننگ سیشن کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔
محبی محمد زید مصطفی کی آن لائن براڈکاسٹنگ جاری تھی۔ لیکن ان کا کیمرا صرف مقرر کا چہرہ دکھا سکتا تھا۔ النور میڈیا ڈاٹ نیٹ والے چار کیمروں کی مدد سے بہت ہی بہترین قسم کی وڈیو آن لائن براڈکاست کر رہے تھے۔ یہ میری غلطی کہہ لیں کہ قبل از وقت دوستوں کو لنک نہ دیئے۔ اسی دوران میں میرے دوست حافظ سید محمد حسنین اور محمد دانش بھی تشریف لائے۔
مولانا عثمان نوری صاحب ایک بار پھر ڈائس کے سامنے آئے۔
انہوں نے اسلامک لرننگ سیشن کے مقاصد سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مفتی صاحب کے پاس داتا دربار مسجد میں ان کی نشست میں ایک بار سوال کرنے تین نوجوان آئے وہ کسی جامعہ کے فاضل تھے۔
ان میں سے ایک نے نماز کے بعد ذکر بالجہر کے بارے میں سوال کیا۔
مفتی صاحب نے جوابا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث سنائی۔ کہ وہ فرماتے ہیں میرا گھر مسجد نبوی کے ساتھ تھا جب میں ذکر کی آواز سنتا تو سمجھ لیتا کہ نماز مکمل ہو گئی۔
جلدی سے دوسرے نوجوان نے سوال کیا کہ وہ خود نماز کیوں نہیں پڑھتے تھے۔
مفتی صاحب نے کہا کہ وہ اس وقت تک نابالغ تھے۔ اس وقت تک ان پر نماز فرض نہ تھی۔
تیسرے نوجوان نے کہا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ نابالغ کی گواہی یعنی روایت قبول نہیں۔
مفتی صاحب نے نے کہا کہ انہوں نے یہ روایت بچپن میں بیان نہیں کی۔ وہ معرکہ کربلا کے بعد تک زندہ رہے۔ اور انہوں نے اس عمر میں بیان کی۔
بہرحال وہ تینوں نوجوان مطمئن ہو گئے۔
عثمان نوری صاحب نے اکبر الٰہ آبادی کے ایک شعر سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ علوم عربیہ کا فاضل پوری قوم و ملت کے بارے میں سوچتا ہے جبکہ جدید علوم کا فاضل صرف فکر معاش میں سرگرداں رہتا ہے۔
اس کے بعد انہوں نے علامہ فاروق ضیائی قادری کو دعوت خطاب دی۔ لیکن پہلے مانچسٹر سے تشریف لائے ہوئے ایک پاکستانی نعت خواں نویدالقمرنے نعت سنائی جنہیں احمد رضا قادری صاحب نے بلایا تھا۔ پھرعلامہ فاروق ضیائی قادری صاحب نے ذراجاندار الفاظ میں اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی خوب خبر لی۔ جسے بعد میں کچھ لوگو ں نے سخت رویہ قرار دیا۔
بعد ازاں تعلیم و تربیت اسلامی کے مبلغ مولانا مظہر اقبال قادری نے ایک چھوٹی سی تقریر کی۔
ان کے بعد حضرت علامہ مفتی محمد ارشد القادری کو سٹیج سے ڈائس کی طرف دعوت دی گئی۔ اسی اثناء میں مولانا نذیر احمد قادری نے شیخ الحدیث مولانا عبدالستار سعیدی صاحب کے مبصر کے طور پر مائیک سنبھال کر اپنا اظہار خیال کیا۔ اور علامہ محمد ارشدالقادری کے ساتھ وابستہ پرانی یادوں کو تازہ کیا۔ اور حضرت علامہ پر قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی کی خصوصی نظر کرم کو یاد کیا۔ پھر تین بج کر چونتالیس منٹ کے بعد مفتی صاحب مائیک کی زینت بنے۔
چند منٹ انہوں نے اپنی بات کہی۔ پھر تین بج کر اٹھاون منٹ پر سوالات کا آغاز ہوا۔ جو ایک گھنٹے کے دورانیے پر محیط تھا۔ پہلا سوال تصویر کی حرمت کرے بارے میں ہوا دوسرا ووٹ کے بارے میں ہوا۔ پھر میں بھی اس لائن میں چلا گیا جہاں لوگ سوالات پوچھ رہا تھے۔ حاضرین کے لیے دو جگہوں پر مائیک کا انتظام تھا۔ میں بائیں جانب گیا۔ کچھ سوالات تحریری بھی تھے۔ میں نے بھی ایک سوال طریقہ انقلاب نبوی کا کیا۔
پروگرام کے آخر میں دانش اور میں پینے کے پانی کی تلاش میں اوپر ادھر ادھر پھرے لیکن پانی نہ ملا واپس ہال میں پہنچے تو علامہ مولانا نورالمصطفیٰ دعا مانگ رہے تھے۔ اور لوگوں کا ہجوم ان کے اردگرد جمع تھا۔ میں اس روئیداد میں تمام مشاہدے اور کیفیات کو بیان نہیں کر پایا۔ بہرحال اس سے بھی گزارہ چل ہی جائے گا.