پیر، 6 مئی، 2013

خو اہشات نفس اور توبہ

از قلم
عبدالرزاق قادری 
انسانی خو اہشات ختم نہیں ہو تیں ۔جب انسان خواہشوں کے پیچھے بھاگنا شروع کر دے تو کہا جاتا ہے کہ یہ بندہ نفس کا غلا م بن گیا ہے ۔ بزرگوں نے نفس کی تین مختلف ناموں سے تقسیم بتائی ہے ۔ جب کوئی بندہ اپنے نفس کے کہنے پر بُرے کام کرنا شروع کر دیتا ہے اور حیا کھو دیتا ہے ۔ تو اس کے ایمان میں کمی واقع ہو نا شروع ہو جاتی ہے ۔ کیونکہ حیا ہی وہ پر دہ ہے جو ایمان کو ڈھانپ کر رکھتا ہے۔ بے حیائی میں انسان وہ حرکتیں بھی کر بیٹھتا ہے جن کی اخلا قیات اجازت نہیں دیتی ۔ پھر وہ ان بُرے کاموں میں مزید پھنستا چلا جاتا ہے ۔ خیال یہ ہو تا ہے کہ میں مستقل طو ر پر تو ان بُرے کاموں کو نہیں اپناؤں گا ۔ بس گھڑی دو گھڑی کا شُغل میلہ بنایا ہو اہے ۔ درحقیقت نفسانی خو اہشات کی غلا می اختیار کر کے اللہ کی تو فیق کے بغیر ان سے باز آجانا ناممکن ہے اور اللہ کی طرف سے ہدایت تو اُسی بندے کو ملے گی جو ہدایت پانا چاہتا ہے اور جو بندہ ہدایت پانا ہی نہ چاہتا ہو اس کے نفس کو نفس اَمارہ کہاجاتا ہے ۔ نفس امارہ وہ حالت ہے جو انسان کو صرف برائی کے کاموں کی طرف راغب کرتی ہے ۔ انسان کو اس حالت میں گناہ کرنے کے بعد بھی شرمندگی نہیں ہوتی ۔ وہ اپنے جرم کا علی الا علان اقرار کر کے فخر بھی کر تا ہے اور خو د کو دوسروں سے زیادہ قدرت والا سمجھتا ہے اس کے ذہن میں یہ خیال ہوتا ہے کہ میں جو چاہوں کر سکتا ہوں ۔ میں کسی سے نہیں ڈرتا۔ مجھے کسی چیز کی بند ش نہیں۔ وہ بندہ اخلاق ، معاشرہ ، مذہب اور قانون کا باغی بن جاتا ہے ۔ اللہ عز وجل بڑی شان والا ہے ۔ وہ چاہے تو اُ سے بھی ہدایت عطا کر دے اگر ایسے بندے کے دل میں کبھی بھی کسی وجہ سے متاثر ہو کر خد ا کا خو ف آجائے تو اس کی کایا پلٹ سکتی ہے اور پھر وہ عام لو گوں سے بھی بہترین شخص بن جانے کی کو شش کرتا ہے ۔ جس طرح غو ث اعظم سید عبدالقادر جیلا نی ؒ کے قافلے کو لوٹنے والے وہ ڈاکو توبہ کر گئے وہ دنیا کے اعلی انسان بن گئے اس طرح کے واقعات سے تاریخ انسانی بھر ی پڑی ہے۔ جس طرح شیخ ہندی سرکار ؒ کی کایا پلٹ گئی تھی اور وہ لو گوں کے لیے راہ نما بن گئے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اجتماع میں سے ایک بندے کی دل ہی دل میں خفیہ تو بہ کی وجہ سے پوری بستی پر اللہ کی رحمت بر س پڑی اور ایک لمبے عرصے سے رُکی ہوئی بارش برس گئی ۔ یہ کچھ مثالیں وہ تھیں جن میں ہم یہ کہتے ہیں کہ نفس امارہ کا شکار بندہ اس طرح کے معاملا ت میں ملو ث ہوتا ہے ۔ لیکن اللہ عزوجل تو اس کا رب ہے جو اپنی ساری مخلوق سے بہت پیار کرتا ہے اللہ کی رحمت اس بات کا انتظار کرتی ہے کہ کب کوئی بھولا بھٹکا واپس آجائے ۔ کیونکہ اللہ کی طرف سے واپسی کا دروازہ بند نہیں ہے۔ تو بہ کرنے کی نو بت کسی انسان کی زندگی میں کسی پل بھی آسکتی ہے ۔ ہم بے شمار ایسے واقعات سنتے ہیں کہ کسی بندے نے برائیوں سے تو بہ کی اور نیک انسان بن گیا ۔ پھر عرصے کے بعد وہ فو ت ہوا تو کبھی کسی کے خو اب میں نظر آیا تو پو چھنے پر بتایا کہ میں تو بہ کرنے کی وجہ سے بخشا گیا۔ لیکن یاد رہے جب ہم پر حقیقت آشکار ہو جاتی ہے تو اس کے فورا بعد توبہ نہ کرنا بھی شیطان اور نفس کا ایک حملہ ہوتا ہے ۔ جو مثالیں پہلے بیان ہوئیں ان میں خصوصیت یہ تھی کہ وہ لو گ پہلے حق بات کو جانتے نہیں تھے ۔ لیکن جس دن آنکھوں کے سامنے سے پر دہ ہٹ گیا وہ لو گ فورا تائب ہو گئے اور اپنے حقیقی خالق و مالک کے شکر گزار بندے بن گئے کہ اس مالک و مولیٰ نے انہیں ہدایت کی روشنی عطاکی۔ پھر وہ لوگ کبھی بھی گناہ کے قریب نہ پھٹکے اور دنیا کی رنگینیوں میں نہ بھٹکے ۔ اگر کبھی نفس و شیطان کا حملہ کسی خیال کی صورت میں ذہن میں آبھی گیا تو فورا اللہ سے رُجو ع کیا اور اسی کی پنا ہ مانگی۔ صرف کسی غلط خیال کے آجانے پر بھی توبہ کرتے رہے اور استغفار کا دامن نہ چھوڑا پھر وہ لو گ زمانے کے لیے مثال بن گئے اور زمانہ ان سے فیض یاب ہونے لگا ۔ نفس امارہ کے جال سے نکلنے کے لیے اللہ کی ہدایت و توفیق کی ضرورت ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ پیغام اُس بندے تک کسی ذریعہ سے ہی آسکتا ہے ۔ چاہے وہ کوئی تحریر ہو یا تقریر ہو ۔ وہ بندہ قرآن پاک کی کسی آیت کو سن کر غورو فکر کرنے لگے یا کوئی حدیث پاک سن کر یا پڑھ کر دل کی دنیا بدل جائے اور قسمت سنور جائے یاکسی اللہ والے بزرگ کے کسی قو ل یا فعل سے متاثر ہو کر راہ ہدایت کا متلاشی بن جائے یا کسی اچھے انسان کے اخلاق سے متاثر ہو کر اپنا رویہ تبدیل کرلے یا کسی مردِ درویش کی نگاہ کیمیا اثر کا کمال ہو جائے۔ بہر حال انسان کے لیے ہدایت کا راستہ تمام عمر کھلا رہتا ہے ۔ ہاں موت واقع ہو جانے کے بعد تو بہ کا راستہ بند ہو جاتاہے۔ لیکن یادرکھا جائے جن لو گوں تک حق بات پہنچ چکی ہے وہ کبھی بھی اس انتظار میں نہ بیٹھے رہیں کہ وہ آخر ی عمر میں توبہ کر لیں گے ۔ کیونکہ اس بات کی تو کسی کو خبر نہیں کہ اس کی عمر کا آخری حصہ کون ساہے ۔ بلکہ جن لو گوں کی مثالیں بیان کی جاتی ہیں پہلے وہ اس ہدایت کے نور سے دور تھے ۔ جیسے ہی دل سے پر دے ہٹ گئے انہوں نے حق کو قبول کرلیا اور بقیہ تمام عمر اس کرم نوازی کا شکر ادا کرتے رہے کہ حق تعالیٰ نے ان کو نیکی کی راہ پر لگا دیا اور برائیوں کی دلدل سے باہر نکال لیا۔ جبکہ تمام لو گوں کا معاملہ تو اس طرح نہیں ہو تا بلکہ اکثر لو گ ساری حقیقت حال سے واقفیت رکھنے کے باوجو د بے خبری میں وقت ضائع کر تے رہے ہیں۔ حالا نکہ ہمیں چاہیے کہ کل سے آج بھلی۔ اپنے پیار کرنے والے رحیم و کریم اللہ کے حضور آج ہی کیوں نہ جھک جائیں۔ جب ہمیں دنیا میں ہر طر ف سے بے وفائی کا سامنا کر نا پڑتا ہے ۔ جن سے بہت امید یں ہوتی ہیں وہ بہت قریبی لو گ بھی دغا دے جاتے ہیں تو ایسے مایوسی کے عالم میں اپنے حقیقی مالک کے ہاں جاکر اپنا دُکھڑا کیوں نہ روئیں اس کی بارگاہ میںآنسو بہاکر اپنے دل کے بوجھ کو کیوں نہ ہلکا کرلیں۔ اگر دنیا کے لوگوں کے سامنے روپیٹ کر اپنا حال زار بیان کریں گے تو لو گ بجائے ہم دردی کے مذاق اُ ڑائیں گے ۔ تو کیوں نہ پھر پیارے بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کو اپنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے رات کے کسی پہر کسی اندھیرے کمرے میں اپنے اللہ سے رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی چاہیں اور اس کی کریم ذات کے لطف و کرم کو اپنے قریب محسوس کریں۔
اور اتنی زیادہ اپنائیت کا احسا س ہونے کے بعد آئندہ کے لیے گناہوں سے باز آجانے کا عہد کر لیں۔ جب ہم اس طرح کے عمل سے گزریں تو ہمیں شدید قسم کا احساس ہو گا کہ اللہ نے واقعی ہماری دعا سن لی ہے اور اسی کرم کی وجہ سے ہمارا دل اطمینان محسو س کر رہا ہے کیونکہ دلوں کو اطمینا ن تو صرف للہ کے ذکر ہی سے ملتا ہے ۔ جب ہمیں اپنے پرو ردگار سے اپنی توبہ کی قبولیت کا یقین آجائے گا تو ہم ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر جگہ ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہمیں اسی پر توکل کر نے کی ضرورت ہے تو پھر جب ہم کوئی ارادہ کیا کریں گے تو اللہ عزوجل کی توفیق کو ہمہ وقت ساتھ ساتھ سمجھنا شروع کر دیں گے۔ ہم خو د کو بہت اعلی و ارفع کہنے سے بازرہیں گے۔ پھر بازار میں، دکان میں، سکو ل میں، دفتر میں ، فیکٹری میں ، کھیت میں ، کھلیان میں ، سفر میں ، قیام میں ، تنہائی میں اور محفل میں ہوں گے توا للہ ہی کو سب سے بڑا سمجھیں گے ۔ اسی کی شان بے نیازی کو سامنے رکھتے ہوئے شیخی نہیں بگھاریں گے۔ ہم لو گوں میں عاجزی والا رویہ ظاہر کریں گے ۔جب ہم عاجز اور روا دار بندے بن جائیں گے تو ہمیں اس کے بے شمار فوائد نظر آئیں گے ۔ جتنا انسان اندرسے عاجز ہوتا جاتاہے ۔ دوسر وں کی نظر میں وہ اتنا ہی معتبر اور اچھا انسان بن جاتا ہے ۔ لیکن اُسے چاہیے کہ وہ اس مقام پر بھی خو د کو مزید جھکا دے ۔ ان نرم رویوں کی بدولت انسان اپنی زندگی کے معاملا ت درست کرنے کی کو شش کرتا ہے ۔ کہ کہیں کسی کا کوئی حق نہ مارا جائے اور کہیں کسی کو سخت الفاظ سے کوئی بات نہ کہہ بیٹھوں اس کے پیش نظر اپنے خالق حقیقی کی رضا ہوتی ہے ۔ 
وہ کسی انسان کو ، دکھ پہنچا کر اپنے رب کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ اسی سے اس کی روح کو سکو ن نصیب ہو تا ہے ۔ جب وہ اللہ کو ناراض کرنے سے ڈرنے لگتا ہے تو یہی وہ مقام ہو تا ہے۔ جب وہ متقی بن جاتا ہے ۔ خو ف خد ا ہی حقیقتا تقوی ہے ۔ اسی تقوی کی وجہ سے وہ انسانوں کے تمام حقوق پورے کرنے کی کو شش کرتاہے اور جانوروں کے بھی حتی کہ پو دوں کے بھی حقوق پورے کرتا ہے کیونکہ اسلام ہمیں پو دوں کے حقوق بھی سکھاتا ہے۔ پھر وہ متقی بندہ اللہ کا شکر ادا کرنے کی خاطر مسجد کارخ کرتا ہے اور دن میں پانچ بار اللہ کی بارگاہ میں حاضری دیتا ہے کہ اس نے اُسے گناہوں کے گھٹا ٹو پ اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی نصیب کی ۔ پھر وہ زکوۃ ادا کرکے حقوق العباد اور حقو ق اللہ کے فرائض بیک وقت بحا لاتا ہے ۔ 
یہی متقی لو گوں کی نشانیاں ہیں وہ لو گ اللہ تعالیٰ پر غیب سے یقین رکھتے ہیں ۔کیونکہ اُنہیں اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہو اہے کہ اللہ ہے تو وہ مانتے ہیں کہ واقعی اللہ ہے ۔ 
انہیں معلو م ہے کہ آمنہ رضی اللہ عنھاکے راج دُلا رے کی زبان مبارک سے ہمیشہ سچ ہی نکلا۔ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے دشمن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین کے القابات سے پکارتے تھے تو پھر کلمہ گو مسلمان کیوں نہ آپ کی ہر بات پر یقین کرے ۔
جب خدا کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیا کہ تمہارا رب صرف اللہ ہے وہی عبادت کے لائق ہے وہ ہی حقیقی کار ساز ہے۔ وہی سب کا خالق حقیقی ہے تو جن لو گوں نے اس بات کو دل سے قبول کرلیا وہ متقی لو گوں کی پہلی شرط پر پورے اُتر آئے۔ پھر جب وہ خدا کا شکر ادا کرنے کی غرض سے نماز کے پابند ہوگئے تو وہ تقویٰ کی دوسری شرط پر عمل پیرا ہوگئے۔ جب انہوں نے زکوۃ اد ا کرنے کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنالیا تو یہ متقی ہونے کی تیسری شرط تھی۔ پھر جو لو گ اللہ کو بھی ایک مانتے ہیں اس کو حاضر و ناظر بھی جانتے ہیں۔ا س کی رضا بھی چاہتے ہیں۔ اس کا شکر بھی ادا کرتے ہیں اس کے بندوں کے حقوق بھی پورے کرتے ہیں۔ ماں باپ کا احترام بھی کرتے ہیں۔ اساتذہ کا ادب بھی کرتے ہیں چھو ٹوں پر شفقت بھی کرتے ہیں۔کسی کو بلا وجہ تنگ نہیں کرتے۔ بُرائی کا بدلہ بھی نیکی سے دیتے ہیں۔ تو پھر وہ نیکی کا بدلہ تو ضرور نیکی ہی سے دیتے ہوں گے۔ تو اس کا مطلب یہ ہو اکہ وہ قرآن پاک پر مکمل ایمان رکھتے ہیں اور اس کی تعلیمات پر عمل تو وہ پہلے ہی سے کر رہے ہیں ۔ تو قرآن کو اللہ کاکلا م ماننے والے سابقہ تمام انبیا ء کرام علیھم السلام اور گزشتہ آسمانی الہامی کتابوں پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وہ تمام کتابیں جب نازل فرمائی تھیں تو ان پر اس دور میں عمل کرنا ضروری تھا۔ تویہ لو گ متقی ہوگئے۔ اللہ سے ڈرنے والے ہو گئے اللہ سے ڈرنے کا مطلب ہے کہ وہ اللہ کی ناراضگی سے ڈرتے ہیں۔ وہ کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس سے اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی ہواور جس سے اللہ عزوجل ناراض ہو ۔ ایسے لو گ بہت ہی عمدہ لو گ ہوتے ہیں وہ ایسی عاجزی کو اختیار کیے بیٹھے ہوتے ہیں کہ وہ کسی کو بہت بڑے بن کر نہیں دکھاتے اور لو گوں پر اپنا رعب نہیں ڈالتے۔ وہ لو گوں کے سروں پر حکومت نہیں کرنا چاہتے وہ لو گوں کے دلوں میں گھر کر جاتے ہیں۔ اگر ہم سب اسی نہج پر سو چ کر اپنی زندگی میں تبدیلی لے آئیں تو یہ معاشرہ آج پھر مسلمانوں کے ابتدائی دور کا نقشہ پیش کرسکتا ہے ۔ اقبال نے کہا تھا 
آج بھی ہو جوبراہیم کا ایمان پیدا 
آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا 
جب انسان کوئی برا کام کرنے کا سو چنا ہے اور اس کے اندرسے آواز آتی ہے کہ یہ کام اچھا نہیں ہے یہ اس کے ضمیر کی آواز ہوتی ہے جو اُسے جھنجھوڑتا ہے کہ تو احسن تقویم ( اشرف المخلو قات ) ، تو انسان ہے۔ تو انبیاء کرام علیہم السلام کی اولاد میں سے ہے۔ تیرے آباؤ اجداد میں سے حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے آدمی تھے ۔
وہ تو اللہ کے نبی تھے ۔ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے عظیم و برگزید ہ پیغمبر تھے ۔ ان کو تو تما م فرشتوں نے سجدہ کیا تھا۔ وہ تو سجو د ولائک تھے۔ وہ دنیا کی تمام مخلوقات سے اعلیٰ و برتر تھے۔ حیوان و نباتا ت و جماتات تو ایک طرف اللہ کے معصو م فرشتوں نے بھی ان کو تعظیمی سجدہ کیا تھا۔ جب ضمیر انسان کو جگاتا ہے تو وہ گناہ کرنے سے باز رہ جاتا ہے ۔ ایسا نفس نفس لوامہ کہلا تا ہے۔ جو غلط کام کے سو چنے پر بھی لعنت ملا مت کرے۔ اگر خدانخواستہ کوئی غلطی بھولے سے سر زد ہو جائے تو نفسِ لو امہ انسان کو اس سے شر مندہ کر کے تو بہ کی طرف لے کرآتا ہے اور انسان خو د سے یہ وعدہ کر تا ہے کہ اب آئندہ ان شاء اللہ میں کوئی گناہ نہیں کروں گا ۔کسی جرم کا ارتکاب نہیں کرو ں گا۔ اسی دوران میں اگر کبھی کسی دینی محفل میں شمولیت کا مو قع مل جائے تو وہ فوراَ پختہ ارادہ کر لیتا ہے کہ اب ہمیشہ وہ ان برے خیالات سے بچنے کی کو شش کر ے گا۔ اللہ کے فرمان کے مطابق نما ز برائی اور بے حیائی کے کاموں سے منع کرتی ہے اور انسان کے دل کے آئینے کو صاف کر دیتی ہے ۔ کیونکہ یہ ذکر الٰہی کی ایک صورت ہے اور ذکر الٰہی سے دل کو اطمینا ن نصیب ہو تا ہے ۔ پھر بندہ اللہ پاک کی ذات مبارکہ سے حیا کر تا ہے اور یہی حیا اس کا ایمان مضبوط کر تا ہے اسی سے اس کی روح کو سکون نصیب ہوتا ہے ۔پھر وہ ایک مطمئن دل والی شخصیت بن جاتا ہے ۔ اس کا دل صرف تلاوت قرآن مجید میں لگتا ہے ۔ اس کو لطف نماز پڑھ کر ملتا ہے اس کا نفس نفلی روزے رکھنے سے قابو میں رہتا ہے اور درود پاک پڑھنے سے اس کا ذہن بُرے و سوسوں سے پاکت رہتا ہے۔ اس کی نظروں کو ٹھنڈک شرم و حیا سے پہنچتی ہے۔ وہ دنیاکے گلے شکو ے کرنے کی بجائے اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے وہ لو گوں کی چغلیاں کرنے کی بجائے ان کی خو بیاں بیان کر کے ان کو بھی نیک بن جانے کی دعوت دیتا ہے ۔ وہ سنت رسول پر عمل کر کے خو ش ہو تا ہے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتا ہے ۔ وہ لو گوں سے کہتا ہے کہ وہ عظیم لو گ ہیں۔ وہ لو گوں کو گھٹیا نہیں سمجھتا۔ لو گوں کو ان کی عظمت یا د دلا کر نیکی کی طرف رجوع کرنے کا درس دیتا ہے یہی و ہ مقام ہو تا جس پر اس کا نفس نفس مطمنہ بن جاتا ہے ۔ وہ اللہ کے محبو ب لو گوں کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ اُسے اللہ کی محبت حاصل کرنے کا راز معلوم ہو تا ہے کہ اللہ کی محبت حاصل کرنے کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ اسی اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی وجہ سے وہ معاشر ے میں ممتا ز ہو جاتا ہے لیکن وہ خو د کو دنیا میں عاجز بندہ بنا کر رکھتا ہے ۔ وہ خا مو شی سے لو گوں کی مدد کرتا ہے ۔ اُسے رشتہ داروں کے ساتھ حُسنِ سلو ک رکھنے کی تعلیمات یا د ہوتی ہیں ۔ ہمسائیوں کے حقوق ذہن نشین ہوتے ہیں ۔ وہ آزمائشوں کے دوران میں صبر کا دامن ہا تھ سے نہیں چھوڑتا ۔ وہ کبھی غصے میں یا طیش میں نہیں آتا کیونکہ اس سے اس کی شخصیت باوقار نہیں رہتی ۔ غصے میں آجانے والا بندہ دوسروں کی نظر میں گر جاتا ہے ۔ وہ چیخ و پکار کر کے اپنا غصہ تو نکال لیتا ہے لیکن عوام میں اور اپنے چاہنے والوں میں اپنی عزت کھو بیٹھتا ہے ۔ بعد میں ندامت کے احساس سے بچنے کے لیے وہ پہلے ہی غصے سے پر ہیز کرتا ہے ۔ مطمئن نفس والا انسان سکون میں رہتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی سکون کا باعث بنتا ہے ۔ لو گ اس سے ملا قات کر کے دلی فرحت و تازگی محسوس کرتے ہیں اورجب وہ اطمینان والی روح اپنے رب کی طرف واپس چلی جاتی ہے تو وہ اس کے خاص بندوں میں شامل ہو جاتا ہے اور اس کی جنت میں داخل ہو تا ہے ۔ ایسے پر ہیز گار اور خدمت خلق کرنے والے بندے کو لو گ اُس کے مرنے کے بعد بھی مدتوں یاد رکھتے ہیں۔ اس کی مثالیں دے دے کر اپنے اعمال کو درست کرنے کی کو شش کرتے ہیں ۔ نفس امارہ سے نفس لوامہ اور پھر وہاں سے نفس مطمئنہ کا کامیاب سفر انسان کو ابدی زندگی سے ہم کنار کر دیتا ہے ۔