کوئی دن جاتا ہے پیدا ہو گی اک دنیا نئی
خون مسلم صرف تعمیر جہاں ہو جائے گا
بجلیاں غیرت کی تڑپیں گی فضائے قدس میں
حق عیاں ہو جائے گا، باطل نہاں ہو جائے گا
ان کواکب کے عوض ہوں گے نئے انجم طلوع
ان دنوں رخشندہ تر، یہ آسماں ہو جائے گا
پھر نئے محمود ہوں گے حامی دین متین
بچہ بچہ ، غیرت الپ ارسلاں ہو جائے گا
میرے جیسے ہوں گے پیدا، سیکڑوں اہل سخن
نکتہ نکتہ جن کا، آزادی کی جاں ہو جائے گا
ڈھائی جائے گی بنا، یورپ کے استعمار کی
ایشیا، آپ اپنے حق کا پاسباں ہو جائے گا
نغمہ آزادی کا گونجے کا حرم اور دیر میں
وہ جو دارالحرب ہے ، دارالاماں ہو جائے گا
ہم کو سودا ہے غلامی کا، کہ آزادی کی دھن
چند ہی دن میں، ہمارا امتحاں ہو جائے گا
اس بشارت کو نہ سمجھو ، ایک دل خوش کن قیاس
جس کو سن کر ہر مسلماں، شادماں ہو جائے گا
سچ ہے میرا حرف حرف اور جس کو اس میں شک ہے آج
دیکھ لینا کل میرا، ہم داستاں ہو جائے گا
ان شاءاللہ
شاعر: ظفر علی خان