ہفتہ، 29 ستمبر، 2012

زندگانی کی رَمق مانگتے ہیں

زندگانی کی رَمق مانگتے ہیں

ہم بھی اک سانس کا حق مانگتے ہیں


غربتِ شام کہاں تک پہنچی!

اب بگولے بھی شَفق مانگتے ہیں


ایک اجڑی ہوئی بستی کے مکیں!

ایک دشتِ لق و دق مانگتے ہیں


تجھ کو خط خون سے لکنے والے

اپنے بوسیدہ ورَق مانگتے ہیں!


جو سمجھتے نہیں خود کو محسنؔ---!

مجھ سے ہر بات ادَق مانگتے ہیں


(محسن نقوی)

(طلوعِ اشک)



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں