پیر، 3 فروری، 2014

تعلیمی رہنمائی کا فقدان

ہمارے معاشرے میں تعلیمی رہنمائی کی کمی طلبامیں شدت کے ساتھ پائی جاتی ہے لیکن انہیں بھی اس حقیقت کاادراک کم ازکم ماسٹرلیول کی تعلیم کے بعدہوتاہے اورجوطلباء وطالبات ماسٹرزتک پہنچ ہی نہیں پاتے وہ یکسرہی نابلدر ہتے ہیں۔آج سے ایک عرصہ پہلے تک ہائی سکول میں فارسی اورعربی کی تعلیم دی جاتی تھی۔فارسی کو تو کب کا سکول سے دیس نکالا دے دیاگیا۔البتہ عربی ابھی تک نصاب میں موجود ہےلیکن اس کوپڑھانے والا ہی کوئی موجود نہیں۔کیونکہ عربی اساتذہ کی سرکاری سکولوں میں خاطرخواہ تقرری ہی نہیں کی جاتی اورپرائیوٹ،انگلش میڈیم اداروں کواس کی ضرورت ہی نہیں۔ کیونکہ ان کامقصدہی اس قوم کومغربی استعماری رنگ میں ڈھالنا ہے۔باقی رہے چھوٹے پرائیوٹ ادارے،تووہ عربی ٹیچرکیوں مقرر کریں وہ اپنے ہی سکول میں بذاتِ خودپیپرلے کربچوں کو پاس کردیتے ہیں چاہے بچے کوپڑھنالکھنابھی آتا ہو یا نہ آتاہو،اُن کی بلاسے۔ ماسوائے چنددینی اداروں کے دیگرتمام دینی مدارس میں ابھی تک انگریزی زبان سکھانے کا رجحان ترقی نہیں پاسکا۔ وہ ادارے طلباء کو عربی،فارسی،صرف ونحو، منطق اوراسماء الرجال،علم تفسیر ، تفسیر، علم حدیث،حدیث اوردیگرمروّجہ علوم میں توطاق بنادیتے ہیں ۔ لیکن طالب علم انگریزی زبان اوردوسرے جدیدعلوم جیساکہ سائنس وٹیکنالوجی اورجدیدمعاشیات وغیرہ کے علوم سے محروم رہ جاتے ہیں۔یعنی آپ جس قسم کے ادارے سے فیض یافتہ ہوں گے صرف اسی نوعیت کاکام کرسکیں گے۔علوم شرقیہ کی اعلیٰ تعلیم کی اسنادعصری علوم کی درسگاہوں اوردفاترمیں ناقابل قبول قرارپائی جاتی ہیں۔ جبکہ صرف عصری علوم سے فارغ التحصیل لوگ علماء کوصرف علوم دینیہ ونماز،رو زے کاذمہ دار سمجھ کرخودکوبری الذمہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔باہمی یگانگت وہم آہنگی اورمشترکہ نظامِ تعلیم ایک اہم ضرورت وقت ہے اورآنے والی نئی نسل کو پورا پورا حق حاصل ہے کہ اُن کی تعلیم وتربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کی جائے اورنئی پودکوسائنس وٹیکنالوجی میں ماہربناکرمُلک خداداد کے قدرتی وسائل کودرست اندازمیں بروئے کار لایاجائے اور امت مسلمہ کی فلاح کابیڑا اسی خطہ ارضی سے اُٹھایاجائے۔کیونکہ یہ ملک توخالصتاًاسلام کے نام پرقائم کیاگیاتھاحالانکہ قومی لحاظ سے یہ ایک ملک نہ تھالیکن فکری سطح پردین اسلام کے نام پراس پاک سرزمیں کوہندوستانی مسلمانوں کا مسکن کہا گیا اور پاکستان کا نام دیا گیا۔اگریہ ملک بھی اسلام کی نشاۃثانیہ کرنے میں ناکام رہتاہے توپھردوسرے ممالک جومحض قومیت کی بناء بناپرقائم ہیں اُن سے اس قسم کی توقع رکھنا ہی عبث (فضول) ہے۔ہمارے طلباء کو یہ علم نہیں ہوتاکہ میٹرک میں سائنس پڑھنے کے بعدہم کن کن شعبہ جات میں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اورمیٹرک میں آرٹس پڑھنے کے بعدکون کون سے علم سے استفادہ حاصل کیاجاسکتاہے۔سکو ل کے طلباء سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس میں علماء بچوں کوصرف دورکعت کاامام بننے کی تعلیم دیتے ہیں اوردینی مدارس کے بچے یہ سمجھتے ہیں کہ سکول میں محض مغربیت کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔دونوں فریق اپنی اپنی جگہ احساس برتری اوربالمقابل علوم سے ناآشناہونے کی بناء پراحساس کمتری کا شکار پائے جاتے ہیں۔دینی مدارس کے طلباء کوابتدائی تین چارسالوں میں جتنی گرائمر پڑھا دی جاتی ہے۔ کالجزمیں غالباً ایم۔اے تک بھی نہیں سکھائی جاتی۔علوم مغربیہ کے والدادہ حضرات صرف شک کرسکنے کی حد تک علم حاصل کرپاتے ہیں۔ اوردینی مدارس کے فارغ التحصیل طلباء اپنے مؤقف کوحرف آخرقراردینے میں مُصردکھائی دیتے ہیں۔فنی وتکنیکی علوم حاصل کرنے والے طلباء کوکوئی اورہی مخلوق سمجھاجاتاہے۔حالانکہ ہمارے ہاں اس علم کی کمی کی وجہ سے ملکی وسائل سے پوراپورافائدہ حاصل نہیں کیاجارہا۔ماہرین علوم، علماء کرام اورارباب بست وکشادکوچاہئے کہ وہ تعلیم کے معاملے کوانتہائی سنجیدگی سے لیتے ہوئے مل جل کرمتوازن نظامِ تعلیم ترتیب دیں اور ملکی سطح پراُس کو یکساں رائج کر کے اُمت مسلمہ کی آبیاری درست خطوط پر فرمائیں اوربیسوں اقسام کے تعلیم نظاموں کوختم کرواکرتمام افراد کوایک جیسی تعلیم دلوانے کااہتمام کریں تاکہ ہرقسم کی شدت پسندی احساس کمتری اوربنیادی علوم کی محرومی سے بچا جاسکے اور اس ملک وقوم کوترقی کی راہوں پرگامزن کیاجاسکے ۔ کیونکہ اقبال نے کہاہے:۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اورمزیدکہاکہ:۔ 
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں