پیر، 24 فروری، 2025

محنت، لگن اور کامیابی کی سچی کہانی



میرا پیارا راج دلارا محمد نوید 1994ء میں ضلع وہاڑی کی تحصیل میلسی کے ایک قصبے گڑھا موڑ کے ایک نواحی پسماندہ گاؤں میں پیدا ہوا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں نہ صرف بنیادی سہولیات کی شدید کمی تھی بلکہ ساتھ ساتھ مین روڈ سے پانچ کلومیٹر کی دوری کا مسئلہ بھی تھا۔ اس گاؤں میں ایک ظالم خاندان کی اجارہ داری تھی جو لوگوں پر بلاوجہ حکم چلاتا اور ظلم کرتا تھا۔


جب نوید 9 سال کا ہوا تو سن 2003ء میں اس کے والدین نے بچوں کے بہتر مستقبل اور اچھی تعلیم کی خاطر لاہور کا رخ کیا۔ میاں محمد منشی ہسپتال کے قریب کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کی۔ یہ فیصلہ آسان نہیں تھا لیکن بہتر زندگی کی امید نے ان کی ہمت کو برقرار رکھا۔


نوید نے اپنی ابتدائی تعلیم بلال گنج کے قرب و جوار کے اسکولوں میں حاصل کی۔ اس کے بعد پنجاب کالج اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے 16 سال تک تعلیمی سفر جاری رکھا۔ میں، عبدالرزاق قادری، اس کی تعلیم و تربیت میں اس وقت سے شامل ہوں جب وہ ساتویں جماعت میں تھا۔ 2010ء میں میں نے اسے میتھس کے بنیادی اصول سمجھائے اور اس کی تعلیم میں بھرپور مدد کی۔ میں اس کے ساتھ ہر قدم پر رہا، اسے ٹیوشن دیتا رہا، اور اسکول کا سبق یاد کرواتا رہا۔


نوید کے والد ایک بس ڈرائیور تھے اور بعد میں کار بھی چلانے لگے۔ ان کی معمولی آمدنی کے باوجود نوید نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ مشکلات کے باوجود اپنی پڑھائی پر توجہ دیتا رہا اور ایم ایس سی میتھس مکمل کرنے کے بعد تدریس کے شعبے میں قدم رکھا۔ پہلے لاہور میں میتھس (ریاضی) پڑھایا اور بعد ازاں آن لائن تدریس شروع کی۔


آج نوید امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، دبئی، سعودی عرب، برطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک میں آن لائن ریاضی پڑھاتا ہے۔ اس کی محنت نے اسے آسودہ حال کر دیا ہے۔ یہ وہی بچہ ہے جسے میں نے مشکل حالات میں محنت کرتے دیکھا تھا، اور آج اس کی محنت ہی اس کی کامیابی کی ضمانت بن گئی ہے۔


کل 23 فروری 2025ء کو اس کی شادی ہوئی اور آج اس کا ولیمہ ہے۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ سب سے پہلے شادی ہال میں پہنچا ہوں اور بے حد خوش ہوں۔ اللہ نوید اور اس کی بیگم کو ہمیشہ خوش رکھے۔ میری دعا ہے کہ اللہ اسے دنیا اور آخرت میں کامیابی عطا فرمائے۔


یہ کہانی صرف نوید کی نہیں، بلکہ ہر اس شخص کی ہے جو مشکلات کے باوجود ہمت نہیں ہارتا اور اپنی محنت کو اپنی کامیابی کی بنیاد بنا لیتا ہے۔

اتوار، 2 فروری، 2025

زندگی کی مشکلات اور کامیابی کی راہ


زندگی ایک کھیل کی طرح ہے، جہاں ہر دن ایک نیا چیلنج ہوتا ہے۔ جیسے کسی کھیل میں جیتنے کے لیے محنت، صبر اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے ہی حقیقی زندگی میں بھی کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔

کوئی بھی شخص ایسا نہیں جس کی زندگی میں مشکلات نہ آئی ہوں۔ کچھ لوگ ان مشکلات سے گھبرا جاتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ ان کا مقابلہ کر کے کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔ اصل کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جو ہمت نہیں ہارتے اور ہر مشکل کو نئے موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ہر انسان کی زندگی میں کسی نہ کسی طرح کی مشکلات آتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے پاس وسائل کم ہوتے ہیں، کچھ کو تعلیمی مسائل کا سامنا ہوتا ہے، کچھ اپنی فیل ہونے کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں، تو کچھ اپنے گھر کے حالات کو لے کر فکرمند ہوتے ہیں۔


لیکن یاد رکھیں! ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے۔ صرف وہی لوگ ناکام ہوتے ہیں جو ہار مان کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی مشکل سے گزر رہے ہیں، تو اسے ایک موقع سمجھیں، جس سے آپ کچھ نیا سیکھ سکتے ہیں۔


دنیا میں جتنے بھی کامیاب لوگ ہوئے ہیں، وہ سبھی کسی نہ کسی مشکل سے گزرے ہیں۔ مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری، بلکہ مسلسل جدوجہد کی اور کامیاب ہوئے۔


1. تھامس ایڈیسن – بار بار ناکامی، مگر آخر کار کامیابی


تھامس ایڈیسن کو بچپن میں اسکول سے نکال دیا گیا تھا، کیونکہ استاد نے کہا تھا کہ وہ کچھ نہیں سیکھ سکتا۔ لیکن اس کی ماں نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔ اس نے ہزاروں بار ناکامی کے بعد بھی بجلی کا بلب ایجاد کر لیا۔ اگر وہ کچھ بار کی ناکامی کے بعد ہار مان لیتا، تو شاید آج دنیا اندھیرے میں ہوتی۔


2. عبد الستار ایدھی – دوسروں کے لیے جینا


ایدھی صاحب پاکستان کے سب سے بڑے سماجی کارکن تھے۔ ان کے پاس کوئی بڑی دولت یا طاقت نہیں تھی، مگر انہوں نے اپنے عزم سے ایک ایسا فلاحی نظام بنایا جو دنیا بھر میں مشہور ہو گیا۔ انہوں نے دکھوں میں گھرے لوگوں کی مدد کی اور ان کا نام ہمیشہ کے لیے تاریخ میں لکھ دیا گیا۔


3. جے کے رولنگ – مشکلات سے نکل کر کامیابی کی طرف


مشہور ناول "ہیری پوٹر" کی مصنفہ جے کے رولنگ ایک وقت میں بے روزگار تھیں اور ان کے پاس کھانے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ مگر انہوں نے اپنی کہانی لکھی، کئی پبلشرز نے اسے مسترد کر دیا، مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ آج وہ دنیا کی سب سے کامیاب لکھاریوں میں شمار ہوتی ہیں۔


مشکلات کو کیسے ہمت اور حوصلے میں بدلا جائے؟


کبھی ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے، مگر حقیقت میں یہ صرف ایک نیا آغاز ہوتا ہے۔ جب بھی زندگی میں کوئی مشکل آئے، تو یہ طریقے آزمائیں:


1. ہمیشہ خود پر یقین رکھیں


اگر آپ کو خود پر یقین ہے، تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو شکست نہیں دے سکتی۔ کامیابی کا پہلا قدم یہی ہے کہ آپ خود کو قابل سمجھیں اور اپنی محنت پر بھروسہ کریں۔


2. ناکامی سے گھبرائیں نہیں، اس سے سیکھیں


ناکامی کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ناکام انسان ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے کچھ نیا سیکھا ہے۔ جب بھی آپ کسی چیز میں فیل ہوں، تو دیکھیں کہ آپ کہاں غلطی کر رہے ہیں اور اسے بہتر کرنے کی کوشش کریں۔


3. ہمیشہ مثبت سوچ رکھیں


اگر آپ کسی چیز میں ناکام ہو جائیں، تو یہ نہ سوچیں کہ "میں کبھی کچھ نہیں کر سکتا"، بلکہ یہ سوچیں کہ "میں نے کچھ نیا سیکھا ہے، اب میں دوبارہ بہتر کوشش کروں گا۔" مثبت سوچ رکھنے والے لوگ ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں۔


4. محنت کرتے رہیں، کامیابی خود آئے گی


اگر آپ کوئی ہنر سیکھنا چاہتے ہیں، امتحان میں اچھے نمبر لینا چاہتے ہیں، یا زندگی میں کچھ بڑا کرنا چاہتے ہیں، تو بس محنت کرتے رہیں۔ کامیابی فوراً نہیں آتی، مگر مسلسل محنت کرنے والے لوگ ایک دن سب کو حیران کر دیتے ہیں۔


5. شکر گزار بنیں اور صبر کریں


کبھی کبھی ہمیں وہ چیز نہیں ملتی جس کی ہمیں امید ہوتی ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ناکام ہیں۔ اللہ کی ہر چیز میں بہتری ہوتی ہے، اس لیے ہمیشہ شکر گزار بنیں اور صبر کریں۔


کامیابی کی اصل پہچان


کامیابی صرف دولت یا شہرت کا نام نہیں، بلکہ اصل کامیابی وہ ہوتی ہے جو آپ کے دل کو سکون دے اور دوسروں کے لیے فائدہ مند ہو۔ ایک اچھا طالب علم، ایک اچھا دوست، ایک اچھا انسان بننا بھی کامیابی ہے۔


اگر آپ ہمت اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھیں گے، تو آپ کی کامیابی صرف وقت کی بات ہے۔ یاد رکھیں:


"ناکامی صرف ایک سبق ہوتا ہے، مگر مسلسل محنت کامیابی کی کنجی ہے!"


تو ہمت کریں، آگے بڑھیں، اور کبھی ہار نہ مانیں! 



ہفتہ، 1 فروری، 2025

افسانہ: تھل کا خاموش چرواہا

 عباس گِل جٹ

1960ء: ریگستان مں پیدا ہونے والا مسافر

تھل کی بے رحم ریت، جہاں سورج آگ برساتا ہے اور ہوائیں کبھی شعلہ بن کر چلتی ہیں تو کبھی خاموشی میں گم ہو جاتی ہیں، وہی زمین عباس گِل جٹ کا مقدر بنی۔ ضلع لیہ کے ایک گاؤں میں، جہاں نہر کا پانی کبھی کبھی کھیتوں تک پہنچتا، جہاں ہلکی پھلکی فصل ہو جاتی مگر زندگی کا اصل انحصار مویشیوں پر تھا، عباس نے آنکھ کھولی۔

گاؤں میں غربت تھی، مگر خودداری بھی۔ عباس کا بچپن مویشی چرانے میں گزرا۔ صبح سویرے چادر کندھے پر ڈال کر، ڈنڈا ہاتھ میں لیے وہ ریت کے ٹیلوں میں نکل جاتا، مویشیوں کو سبزہ تلاش کر کے کھلاتا اور شام ڈھلے انہیں ہانکتا ہوا واپس آتا۔ بچپن کے دن کہاں معلوم ہوتے ہیں کہ کل کیا ہوگا؟ عباس بھی اسی بے فکری میں پلا بڑھا، مگر ایک جٹ مرد کی طرح، محنت اور قربانی اس کی گھٹی میں تھی۔

1980ء: جوانی کا آغاز اور زندگی کی کشمکش

وقت بدلا، مگر تھل کی سختیاں نہ بدلیں۔ عباس جوان ہوا تو بھی وہی مویشی، وہی کھارا پانی، وہی ریت کے طوفان۔ نہر کا پانی گاؤں تک آتا تھا، مگر زمینیں زیادہ زرخیز نہ تھیں، تھوڑا بہت گندم ہو جاتی، مگر عباس چارہ کاشت کرنے کے بجائے مویشیوں کو کھلا چرا کر پالنے کا عادی رہا۔ وہ صبح نکلتا، دن بھر مویشیوں کے ساتھ رہتا، اور شام ڈھلے گھر لوٹتا۔

1995ء: شیخوپورہ سے آئی شہناز بی بی اور نیا گھر

عباس کی شادی شیخوپورہ کے ایک گاؤں کی شہناز بی بی سے ہوئی، جو صبر، محبت اور سلیقے میں اپنی مثال آپ تھی۔ اسے جب بیاہ کر لیہ لایا گیا، تو وہ شہروں کے نسبتاً بہتر حالات سے نکل کر تھل کے صحرا میں آ بسی۔ مگر اس نے کبھی شکایت نہیں کی، وہ جانتی تھی کہ عباس ایک محنتی مرد ہے، جو ساری زندگی صرف اپنے گھر والوں کے لیے وقف کر دے گا۔

جلد ہی ان کے ہاں اولاد کی نعمت بھی مل گئی۔ پہلے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں، پھر بیٹا اویس آیا، اور اس کے بعد مزید دو بیٹیاں۔ یوں اویس دو بڑی بہنوں کا لاڈلا بھائی اور دو چھوٹی بہنوں کا محافظ بن گیا۔ عباس کو اویس کی صورت میں اپنی جوانی کا عکس نظر آتا تھا، جو ایک دن اس کی جگہ لے گا اور مویشیوں کے ساتھ کھیت سنبھالے گا۔

2005ء: زہریلے پانی کی تباہی کا آغاز

نہر کا پانی زمین کو کچھ دیر کے لیے سیراب کر دیتا تھا، مگر پینے کے لیے عباس اور گاؤں کے دیگر لوگ وہی زیر زمین کھارا پانی استعمال کرتے، جو سالہا سال سے ان کے جسم میں زہر گھول رہا تھا۔ صنعتی فیکٹریوں کا کیمیکل جب زمین کے اندر پہنچا، تو پانی بھی زہر بن گیا، مگر گاؤں کے لوگ یہ سمجھ نہ سکے کہ ان کے جسموں میں ایک خاموش قاتل پل رہا ہے۔

2015ء: محنت، ترقی اور اولاد کے لیے قربانی

عباس کی زندگی میں سب سے بڑی خوشی اس کی اولاد تھی، اور اس نے ہمیشہ ان کے لیے سوچا۔ وہ جانتا تھا کہ صرف مویشی پالنا کافی نہیں، اس لیے اس نے محنت کی، زمین ٹھیکے پر لی، چارہ بھی کاشت کرنے لگا۔

پھر اس نے بیوی اور بچوں کے خواب پورے کرنے کے لیے ایک فیصلہ کیا—وہ ایک پکا گھر بنائے گا، تاکہ اس کے بعد بچوں کو صعوبتیں نہ سہنی پڑیں۔

اور وہ یہ خواب پورا کر گیا!

اس نے گھر بنایا، کھیتوں میں چارہ کاشت کیا، اور سب سے بڑی بات، اپنے بچوں کے لیے ایک ٹریکٹر خرید لیا۔ اب اویس اور بیٹیاں آرام سے زندگی گزار سکتے تھے، اپنے کھیتوں کی دیکھ بھال کر سکتے تھے، مویشی پالنے کے ساتھ کھیتی بھی کر سکتے تھے۔ عباس کے چہرے پر سکون تھا، جیسے ایک باپ اپنی آخری ذمہ داری پوری کر چکا ہو۔

2024ء: کینسر کی خبر اور زندگی کی آخری راتیں

لیکن قسمت کچھ اور ہی لکھ چکی تھی۔ عباس گِل جٹ جو زندگی بھر کھارا پانی پیتا رہا، جو خود کو ہر تکلیف کا عادی سمجھتا تھا، وہ یہ نہ جان سکا کہ اس کے اندر کینسر پل چکا تھا۔

جب درد ناقابلِ برداشت ہوا، تو اویس اسے ضلع لیہ کے اسپتال لے گیا۔ رپورٹس آئیں، ڈاکٹر نے نظریں جھکا لیں۔

"یہ کینسر آخری اسٹیج پر ہے، زیادہ وقت نہیں رہا۔"

شہناز بی بی رو پڑی، بیٹیاں سسکنے لگیں، مگر عباس مسکرا دیا۔ "رونے کا وقت نہیں، میں نے سب کچھ تمہارے لیے پہلے ہی مکمل کر دیا ہے۔ میرے بعد تمہیں کسی کا محتاج نہیں ہونا پڑے گا!"

جنوری 2025ء: تھل کے چرواہے کی آخری سانس

وہ جنوری کی ایک ٹھنڈی شام تھی، جب عباس گِل جٹ کی سانسیں مدھم ہونے لگیں۔ بیٹیاں پاس بیٹھی تھیں، شہناز بی بی دعا پڑھ رہی تھی، اویس ضبط کیے کھڑا تھا۔ عباس نے آخری بار آسمان کی طرف دیکھا، جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو، پھر آہستہ سے بولا،

"اویس، بیٹیوں کا خیال رکھنا۔ کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا، ہمیشہ محنت کرنا، زمین مت بیچنا!"

یہ کہہ کر اس کی آنکھیں بند ہو گئیں، اور تھل کا یہ چرواہا خاموشی سے دنیا چھوڑ گیا۔

اختتام: عباس تو چلا گیا، مگر سوال چھوڑ گیا

اویس نے باپ کو قبر میں اتارا، مگر اس کی آنکھوں میں ایک عجیب چمک تھی۔ وہ جان چکا تھا کہ اس کا باپ صرف مویشی چرانے والا نہیں تھا، وہ تھل کا عظیم چرواہا تھا، جو اپنی اولاد کے لیے سب کچھ چھوڑ کر گیا تھا۔

لیکن یہ پانی؟ یہ زہر؟

یہی سوال تھا، جو عباس کی قبر پر کھڑے ہر چرواہے، ہر کسان، ہر محنت کش کے دل میں تھا۔ لیہ کے تھل میں ہزاروں عباس گِل جٹ ابھی بھی زندہ ہیں، مگر وہ نہیں جانتے کہ ان کے اندر بھی وہی خاموش موت پل رہی ہے!

لیکن کب تک؟