ہفتہ، 1 فروری، 2025

افسانہ: تھل کا خاموش چرواہا

 عباس گِل جٹ

1960ء: ریگستان مں پیدا ہونے والا مسافر

تھل کی بے رحم ریت، جہاں سورج آگ برساتا ہے اور ہوائیں کبھی شعلہ بن کر چلتی ہیں تو کبھی خاموشی میں گم ہو جاتی ہیں، وہی زمین عباس گِل جٹ کا مقدر بنی۔ ضلع لیہ کے ایک گاؤں میں، جہاں نہر کا پانی کبھی کبھی کھیتوں تک پہنچتا، جہاں ہلکی پھلکی فصل ہو جاتی مگر زندگی کا اصل انحصار مویشیوں پر تھا، عباس نے آنکھ کھولی۔

گاؤں میں غربت تھی، مگر خودداری بھی۔ عباس کا بچپن مویشی چرانے میں گزرا۔ صبح سویرے چادر کندھے پر ڈال کر، ڈنڈا ہاتھ میں لیے وہ ریت کے ٹیلوں میں نکل جاتا، مویشیوں کو سبزہ تلاش کر کے کھلاتا اور شام ڈھلے انہیں ہانکتا ہوا واپس آتا۔ بچپن کے دن کہاں معلوم ہوتے ہیں کہ کل کیا ہوگا؟ عباس بھی اسی بے فکری میں پلا بڑھا، مگر ایک جٹ مرد کی طرح، محنت اور قربانی اس کی گھٹی میں تھی۔

1980ء: جوانی کا آغاز اور زندگی کی کشمکش

وقت بدلا، مگر تھل کی سختیاں نہ بدلیں۔ عباس جوان ہوا تو بھی وہی مویشی، وہی کھارا پانی، وہی ریت کے طوفان۔ نہر کا پانی گاؤں تک آتا تھا، مگر زمینیں زیادہ زرخیز نہ تھیں، تھوڑا بہت گندم ہو جاتی، مگر عباس چارہ کاشت کرنے کے بجائے مویشیوں کو کھلا چرا کر پالنے کا عادی رہا۔ وہ صبح نکلتا، دن بھر مویشیوں کے ساتھ رہتا، اور شام ڈھلے گھر لوٹتا۔

1995ء: شیخوپورہ سے آئی شہناز بی بی اور نیا گھر

عباس کی شادی شیخوپورہ کے ایک گاؤں کی شہناز بی بی سے ہوئی، جو صبر، محبت اور سلیقے میں اپنی مثال آپ تھی۔ اسے جب بیاہ کر لیہ لایا گیا، تو وہ شہروں کے نسبتاً بہتر حالات سے نکل کر تھل کے صحرا میں آ بسی۔ مگر اس نے کبھی شکایت نہیں کی، وہ جانتی تھی کہ عباس ایک محنتی مرد ہے، جو ساری زندگی صرف اپنے گھر والوں کے لیے وقف کر دے گا۔

جلد ہی ان کے ہاں اولاد کی نعمت بھی مل گئی۔ پہلے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں، پھر بیٹا اویس آیا، اور اس کے بعد مزید دو بیٹیاں۔ یوں اویس دو بڑی بہنوں کا لاڈلا بھائی اور دو چھوٹی بہنوں کا محافظ بن گیا۔ عباس کو اویس کی صورت میں اپنی جوانی کا عکس نظر آتا تھا، جو ایک دن اس کی جگہ لے گا اور مویشیوں کے ساتھ کھیت سنبھالے گا۔

2005ء: زہریلے پانی کی تباہی کا آغاز

نہر کا پانی زمین کو کچھ دیر کے لیے سیراب کر دیتا تھا، مگر پینے کے لیے عباس اور گاؤں کے دیگر لوگ وہی زیر زمین کھارا پانی استعمال کرتے، جو سالہا سال سے ان کے جسم میں زہر گھول رہا تھا۔ صنعتی فیکٹریوں کا کیمیکل جب زمین کے اندر پہنچا، تو پانی بھی زہر بن گیا، مگر گاؤں کے لوگ یہ سمجھ نہ سکے کہ ان کے جسموں میں ایک خاموش قاتل پل رہا ہے۔

2015ء: محنت، ترقی اور اولاد کے لیے قربانی

عباس کی زندگی میں سب سے بڑی خوشی اس کی اولاد تھی، اور اس نے ہمیشہ ان کے لیے سوچا۔ وہ جانتا تھا کہ صرف مویشی پالنا کافی نہیں، اس لیے اس نے محنت کی، زمین ٹھیکے پر لی، چارہ بھی کاشت کرنے لگا۔

پھر اس نے بیوی اور بچوں کے خواب پورے کرنے کے لیے ایک فیصلہ کیا—وہ ایک پکا گھر بنائے گا، تاکہ اس کے بعد بچوں کو صعوبتیں نہ سہنی پڑیں۔

اور وہ یہ خواب پورا کر گیا!

اس نے گھر بنایا، کھیتوں میں چارہ کاشت کیا، اور سب سے بڑی بات، اپنے بچوں کے لیے ایک ٹریکٹر خرید لیا۔ اب اویس اور بیٹیاں آرام سے زندگی گزار سکتے تھے، اپنے کھیتوں کی دیکھ بھال کر سکتے تھے، مویشی پالنے کے ساتھ کھیتی بھی کر سکتے تھے۔ عباس کے چہرے پر سکون تھا، جیسے ایک باپ اپنی آخری ذمہ داری پوری کر چکا ہو۔

2024ء: کینسر کی خبر اور زندگی کی آخری راتیں

لیکن قسمت کچھ اور ہی لکھ چکی تھی۔ عباس گِل جٹ جو زندگی بھر کھارا پانی پیتا رہا، جو خود کو ہر تکلیف کا عادی سمجھتا تھا، وہ یہ نہ جان سکا کہ اس کے اندر کینسر پل چکا تھا۔

جب درد ناقابلِ برداشت ہوا، تو اویس اسے ضلع لیہ کے اسپتال لے گیا۔ رپورٹس آئیں، ڈاکٹر نے نظریں جھکا لیں۔

"یہ کینسر آخری اسٹیج پر ہے، زیادہ وقت نہیں رہا۔"

شہناز بی بی رو پڑی، بیٹیاں سسکنے لگیں، مگر عباس مسکرا دیا۔ "رونے کا وقت نہیں، میں نے سب کچھ تمہارے لیے پہلے ہی مکمل کر دیا ہے۔ میرے بعد تمہیں کسی کا محتاج نہیں ہونا پڑے گا!"

جنوری 2025ء: تھل کے چرواہے کی آخری سانس

وہ جنوری کی ایک ٹھنڈی شام تھی، جب عباس گِل جٹ کی سانسیں مدھم ہونے لگیں۔ بیٹیاں پاس بیٹھی تھیں، شہناز بی بی دعا پڑھ رہی تھی، اویس ضبط کیے کھڑا تھا۔ عباس نے آخری بار آسمان کی طرف دیکھا، جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو، پھر آہستہ سے بولا،

"اویس، بیٹیوں کا خیال رکھنا۔ کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا، ہمیشہ محنت کرنا، زمین مت بیچنا!"

یہ کہہ کر اس کی آنکھیں بند ہو گئیں، اور تھل کا یہ چرواہا خاموشی سے دنیا چھوڑ گیا۔

اختتام: عباس تو چلا گیا، مگر سوال چھوڑ گیا

اویس نے باپ کو قبر میں اتارا، مگر اس کی آنکھوں میں ایک عجیب چمک تھی۔ وہ جان چکا تھا کہ اس کا باپ صرف مویشی چرانے والا نہیں تھا، وہ تھل کا عظیم چرواہا تھا، جو اپنی اولاد کے لیے سب کچھ چھوڑ کر گیا تھا۔

لیکن یہ پانی؟ یہ زہر؟

یہی سوال تھا، جو عباس کی قبر پر کھڑے ہر چرواہے، ہر کسان، ہر محنت کش کے دل میں تھا۔ لیہ کے تھل میں ہزاروں عباس گِل جٹ ابھی بھی زندہ ہیں، مگر وہ نہیں جانتے کہ ان کے اندر بھی وہی خاموش موت پل رہی ہے!

لیکن کب تک؟