عمران خان کے دور حکومت میں نہ تو بم دھماکے ہوئے اور نہ ہی ڈرون اٹیک ہوئے۔ اسی حقیقت میں اس سوال کا جواب مضمر ہے کہ دہشتگردی کون واپس لایا۔
جب سے نیک حکومت آئی ہے یہ دونوں سلسلے دوبارہ سے شروع ہو گئے۔ تو اس کا ملبہ انہی پر ڈالا جائے جو اس کے سزاوار ہیں۔
ایک دہشتگردی مہنگائی کی بھی ہے، اس پر بھی سوال اٹھنا چاہیے تھا دوسری دہشتگردی ماوراء عدالت اقدمات قتل کی ہے، تیسری دہشتگردی قوم کو حق خود ارادی سے روکنے کی ہے، چوتھی دہشتگردی پرامن سیاسی ریلی پر ظالمانہ، وحشیانہ بربریت کی ہے، پانچویں دہشتگردی آدھی رات کو لوگوں کے گھروں پر حملوں۔۔۔۔کی ہے، چھٹی دہشتگردی دنیا کی سب سے بڑی کابینہ رکھنے کی ہے، ساتویں دہشتگردی انڈسٹری کو بند کرنے کے لیے بجلی اور گیس کی بندش اور ان کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کی ہے، آٹھویں دہشتگردی دکانداروں کو بجلی بل میں بے تحاشا بل بھیجنے کی ہے۔ دسویں دہشتگردی آئین سے انحراف اور عدلیہ پر حملے کی ہے۔۔۔
گیارھویں دہشتگردی آیان علی اور مقصود چپڑاسی جیسے کرداروں کے ذریعے کرپشن اور منی لانڈرنگ کی ہے۔
بارھویں دہشتگردی احساس پروگرام کو بند کرنا اور مستحق خاندانوں اور طلباء کو ان کے حقوق سے محروم کرنا ہے۔
اسی طرح بہت طویل فہرستیں ہیں ایسی دہشتگردیوں کی جن کے ذمہ دار موجودہ کرپٹ حکمران ہیں۔
جو لوگ مجھے ایک سال تک تحریک انصاف کا نمائندہ سمجھتے رہے، ان کا شکریہ لیکن تحریک انصاف کے دور میں وہ مجھے کسی اور جماعت کا ترجمان محسوس کریں گے۔
میرا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں ہے، اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ ہوں۔ البتہ میرے مشاہدے پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتا۔
ایک بات ماننی پڑے گی کہ عمران خان کے دور حکومت میں جب جب انصافیئن(ز) کو یہ محسوس ہوا کہ حکومت ظلم کر رہی تھی تو وہ اپنے ہی "خان" اور حکومت کے خلاف بولے۔
وہی انصافیئنز جو 2018ء میں ٹویٹر پر لکھ رہے تھے کہ ان کی سوشل میڈیا کی جدوجہد کا واحد مقصد عمران خان کو وزیراعظم بنوانا تھا، وقت پڑنے پر وہی لوگ عمران خان کی پالیسیز پر تنقید کر رہے تھے، ٹی ایل پی کے فسادات کے دور میں بھی اپنی ہی پارٹی کی حکومت پر تنقید کر رہے تھے۔
جبکہ یہی خوبی جو کہ تحریک انصاف کے معصوم کارکنوں کا طرہء امتیاز رہی، ایسی نیک نیتی آپ کو کسی جماعت میں نظر نہیں آئے گی۔
نون لیگ کے پجاری "بڈھے۔ بڈھے" خبیث دانشور بھی آپ کو ان کے مظالم پر خوش ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ، "تن کے رکھ دتا، تن کے رکھ دتا"۔
آپ کسی بھی نون لیگی ووٹر کے منہ سے ارشد شریف اور ظل شاہ کے بہیمانہ قتل کی مذمت نہیں سنیں گے، اور گزشتہ ایک برس میں حکومت کی طرف سے بے شمار ماوراء عدالت کارروائیوں اور قتل کے اقدامات پر تنقید کرتے نظر نہیں آئیں گے بلکہ اس کا جواز فراہم پیش کرتے نظر آئیں گے۔
کامران فیصل، ڈاکٹر رضوان، مقصود چپڑاسی، عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر کاٹنے والے انسپکٹر عامر شہزاد، اور آیان علی کو پکڑنے والے کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری کی پراسرار اموات پر نون لیگی اور پیپلزپارٹی کے ووٹر کبھی ماتم کرتے نظر نہیں آئیں گے۔
کیونکہ قرآن پاک کا فیصلہ ہے۔
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿٧٤﴾
ترجمہ: "مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کار تمہارے دل سخت ہوگئے، پتھروں کی طرف سخت، بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے، کیونکہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے اللہ تمہارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے (74)"سورة البقرة
یہ ماننا پڑے گا، کہ پی ڈی ایم کی جماعتوں اور مُفتی منیب الرحمان جیسے علماءِ سُوء کے دل کچھ ظالم یہودیوں کے دِلوں سے بھی زیادہ سخت ہو چکے ہیں جن کی مذمت قرآن پاک کی سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 74 میں کی گئی ہے۔
اور قرآن پاک کے مطابق ایسے لوگوں کی قسمت میں ہدایت نہیں ہے جو جان بوجھ کر اپنے لیے گُمراہی منتخب کر لیتے ہیں اور ظُلم کو انجوائے کرتے ہیں۔
وما علی الا البلاغ المبین۔
حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ نے باتوں (خوابوں) کی تاویل کرنا سکھایا تھا۔
اب یہ ہمارے "دانشوروں" پر منحصر ہے کہ وہ کس بات کی تاویل (تعبیر) کیسے کرتے ہیں، یعنی اگر کوئی راہ ہدایت پر آنا بھی چاہے تو الو کے پٹھے اس کی انا کو ضرور مجروح کرتے رہیں گے تاکہ وہ سمجھے، "پھر ایسے ہی سہی"۔
اردو وکیپیڈیا پر "پاکستانی اسٹیبلشمنٹ" کی جامع تعریف کسی نے لکھی ہوئی ہے وہاں ایک امریکی مصنف کا حوالہ بھی دیا ہے اور اس سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ "انتظامیہ" کا معنی صرف فوج نہیں ہے بلکہ اس کے کچھ لوگ اور کچھ دیگر اداروں کے سینئر لوگ شامل ہوتے ہیں، ہر ملک کو چلانے کے لیے چار بڑے ادارے یا ستون موجود ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک کا سربراہ
1۔ صدر مملکت
2۔ آرمی چیف
3۔ چیف جسٹس
اور
4۔ وزیراعظم
ہوتے ہیں، ان سب کے مشترکہ یا انفرادی کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
اور پلڑا جب کسی جانب بھاری ہو تو حتمی فیصلہ بھی وہی کیا جاتا ہے۔
اس وقت ملک میں عوام (جن کے ووٹ سے وزیراعظم بنتا ہے) عمران احمد خان نیازی کے حق میں ہیں۔
صدر مملکت بھی انسانی حقوق کے ساتھ ہیں، عدلیہ بھی انصاف پر پر عزم ہے، تو آرمی چیف اور افواج پاکستان کے افسران بھی عوام ہی کے ساتھ ہیں۔
لہٰذا محترمہ غریدہ فاروقی کی جانب سے کیے جانے والے سروے کو آوازہ خلق کو نقارہء خدا سمجھا جا رہا ہے اور ان شاءاللہ اس مملکت خداداد کا مستقبل تابناک ہے، اور محفوظ ہاتھوں میں ہے۔