اتوار، 18 ستمبر، 2022

حکمران اور تاریخ کی نا انصافی

 از افکار: عبدالرزاق قادری

ازل سے زیادہ تر حکمرانوں کا انجام برا ہوا ہے، لوگ ان کا ماتم نہیں کرتے۔ لیکن جو اپنے ملک کے لئے اچھے سمجھے جاتے تھے اور کسی سازش یا ناانصافی کی بھینٹ چڑھ گئے انہیں یاد کیا جاتا ہے، یا کسی ملک کے بانی، اور محافظ لیڈر کی یاد منائی جاتی ہے۔ یا پھر جن کے کردار سے ابھی گرد نہیں جھاڑی گئی ان کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں۔

یعنی کچھ ناپاک لوگوں کی شان میں قصیدے پڑھنا بھی بعض اوقات سرکاری پالیسی ہوتی ہے، جیسا کہ انگریز کے وفادار اور مسلمانوں کے مفادات کے مخالف سر سید احمد خان کو پاکستان میں ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس کی نیکوکاری کا بانی اس کا پرستار شیخ محمد اکرام ہے۔

شیخ محمد اکرام نے، اپنی تین جلدوں پر محیط کتاب

1۔آب کوثر

2۔رود کوثر

3۔موج کوثر

میں محمد بن قاسم 712ء سے لے کر 1940ء تک جھوٹ بنائے ہیں جس میں بہت سے عظیم لوگوں کی ہتک کی، اور کئی ناپاک لوگوں کو عظیم بنا کر پیش کیا ہے۔ یہ مستشرقین سے بھی بدتر انداز میں تاریخ ہندوستان پیش کی گئی ہے۔

موج کوثر، مغلیہ اقتدار کے خاتمے کے بعد ہندوستان کے گزرے حالات کو جھوٹ کا بڑا پلندہ ہے جسے ترتیب دینے میں ملک پاکستان کے پہلے وزیر اطلاعات و نشریات شیخ محمد اکرام نے وہ کردار ادا کیا کہ آج تک نویں دسویں، گیارھویں بارھویں اور بی۔اے، ایم۔اے اور آگے تک مطالعہ پاکستان کے نام پر بکواس پڑھائی جاتی ہے۔

جس دور میں جنگ آزادی 1857ء کے عظیم ہیروز کو "باغی" قرار دے کر سرسید احمد خان جیسے غداروں کی ہیرو کے طور پر تصویر کشی کی جا رہی تھی تب بھی اور بعض حلقوں میں آج تک انگریزی تعلیم اور کالج یونیورسٹی کی تعلیم کی مخالفت کی جارہی ہے تا کہ کوئی بندہ چار لفظ پڑھ جھوٹ لکھی گئی تاریخ کا سینہ چاک نہ کر پائے۔

اور طرفہ تماشا یہ کہ بعد میں 1857ء کے دور میں انگریزوں کے کتے نہلانے والے "شمس العلماء" کے لقب پا گئے۔ اور مسلمانوں کی طرف سے لڑنے والے ہمارے تعلیمی نصاب کے مرکزی دھارے میں جگہ نہ بنا پائے۔ اور ایس۔ایم۔اکرام کی یہ جعلی تاریخ سی۔ایس۔ایس کے لیے سب زیادہ تجویز کردہ کتاب ہے۔

آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ سر سید، اگر "سید" کا بیٹا تھا تو "سر" کیسے بنا، اور "خان" کیسے کہلوایا۔

وہ بیٹا تو سید کا تھا۔

سر، اور، خان دونوں انگریز حکومت کی وفاداری میں ملے ہوئے خطاب تھے۔ یعنی اس کو "خان" کا لفظ "سید" سے زیادہ عزیز تھا تو ہی سید کے بعد خان کی کمی باقی تھی۔ اور "سر" کا خطاب صلیبی ہیرو کو ملتا تھا۔ جیسے پاکستان میں "نشان حیدر" وغیرہ ہیں۔

انگلشیہ حکومت نے ڈاکٹر محمد اقبال کو بھی "سر" کا خطاب دینا چاہا، آپ نے بہت حیل و حجت سے جان چھڑانا چاہی، لیکن وہ ہر شرط مان گئے۔ اور اقبال کو سر کا خطاب دیا۔ تو محمد علی جوہر نے اقبال کا مذاق یوں اڑایا کہ،

("سر" ہو گئے سرکار کی دہلیز پر اقبال)

تو اقبال نے اپنی قلبی کیفیت کی صفائی بھی دی۔

پاکستان میں آج کے دور میں تاریخ کا سب سے بڑا نام نہاد سکالر، ڈاکٹر مبارک علی ہے۔ جس کے ایک شاگرد نے مبارک علی کے ساتھ منسوب کر کے رائے بریلی اور بانس بریلی کو بی۔بی۔سی۔اردو پر ایک شہر بنا دیا۔ یہی غلطی خود ساختہ صحافی "امیر حمزہ" نے کی ہے۔ ان عظیم تخلیقی ذہنوں کو 400 کلومیٹر فاصلہ نظر ہی نہیں آتا، اور اتنے وسیع المطالعہ ہیں کہ دو شہروں کے باسیوں کو ایک شہر کا رہنے والا لکھ دیا۔

مطالعہ پاکستان میں جن ہستیوں کو قیام پاکستان کی تحریک کے لئے قائدین قرار دیا گیا ہے ان میں سے بیشتر کا اس تحریک سے خاک تعلق نہیں تھا بلکہ بہت سے ایسے لوگ بھی شامل کر دئیے گئے ہیں جو کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے مخالف تھے اور اقبال و قائد کی ذات پر کیچڑ اچھالتے تھے۔

ہمارے یہاں کئی انتہائیں ہیں۔

ایک وہ لوگ جو ڈاکٹر مبارک علی کی طرح قیام پاکستان کا اسلام سے تعلق نہیں مانتے، انہوں نے قائد اعظم کے بارے میں جھوٹے قصے بنا رکھے ہیں۔ دوسرے وہ جو مذہبی انتہا پسند اور قائد اعظم پر فتوے لگانے والے تھے۔ تیسرے وہ جو سب مانتے ہیں لیکن تاریخ غلط پڑھ بیٹھے ہیں۔ چوتھے وہ جو 1930ء کے بعد قائد کے ساتھ ہو لیے اور قیام پاکستان کی تحریک میں شامل تھے۔