فرحت عباس شاہ ۔ ایک تعارف۔ عبدالرزاق قادری
فرحتؔ عباس شاہ 1970ء کی
دہائی کے اواخر سے ادبی جریدوں میں بطورِ شاعر چھپنا شروع ہوئے، آپ ایم ایس سی نفسیات
ہیں اور اس کے علاوہ پاکستان کے پہلے ننجا ماسٹر ہونے کے اعزاز رکھتے ہیں، پاکستان
میں اکثر کراٹے سنٹر آپ کے شاگردوں یا اُن کے شاگروں کے ہیں، پاکستان کے پہلے پرائیویٹ
ٹی وی چینل یونی پلس کا آغاز آپ کی آواز سے ہوا، آپ کے بقول منیرؔ نیازی مرحوم نے
فرمایا تھا کہ ہمارے دور میں ادب نے اپنا وارث فرحت عباس شاہ کو چُنا ہے۔
آپ نے بہت سے ایف ایم ریڈیو چینلز کا آغاز کیا،
اُنہیں کام کرنا سکھایا، اور سوشل میڈیا پر پاکستان کا پہلا معیاری ٹی وی چینل
لاہور ٹی وی لانچ کیا، ریڈیو چینلز میں آپ شہزادہ وریام کے کردار سے معروف تھے،
اور لاہور ٹی وی پر علامہ فورن بغل گیروی کے علاوہ ہٹلر دادا کے کردار سے کام کر
رہے ہیں، آپ خبرناک پروگرام میں ماسٹر جی کا کردار بھی نبھاتے رہے، ادبی حلقوں میں
آپ کی شہرت نہایت اعلیٰ ہے، خصوصاً حلقہ اربابِ ذوق والے آپ کو مُرشد مانتے ہیں،
آپ اپنا کلام تحت اللفظ کے علاوہ ترنم سے بھی سُناتے ہیں اور اپنے کلام کے علاوہ دیگر
شعراء کے بعض گیتوں غزلوں کو آلات کے ساتھ گا کر بھی ریکارڈ کرایا ہے۔ آپ حب اہلِ
بیت میں بھی کلام کہتے ہیں اور بزرگانِ دین کا احترام کرتے ہیں، آپ کے جاننے والوں
میں آپ کا ایک وصف عاجزی اور نرم گوئی بہت معروف ہے۔
فرحت عباس شاہ 58 سے زائد شعری مجموعوں کے شاعر
ہیں اور اسلامک مائیکروفنانسنگ پر انگریزی میں پہلی کتاب لکھ کر بین الاقوامی مالیاتی
اداروں اور یونیورسٹیز میں سود کے خاتمے کے لیے ایک مشن میں مصروف ہیں۔ مفلس و
نادار لوگوں کو اپنے کاروبار کا شراکت دار بنانے کے لیے آپ نے (ایک اپنا ایک مکان
بیچ کر) فرض فاؤنڈیشن کا آغاز کیا تھا، جو بوجوہ آہستہ روی کا شکار ہو کر محدود ہو
کر رہ گئی ہے۔
فرحت عباس شاہ نے کبھی
نوکریوں کے پیچھے دوڑ نہیں لگائی اور نمود و نمائش کے قائل نہیں رہے، آپ کبھی ادب
کی خدمات کے لیے قومی سطح پر دئیے جانے والے ایوارڈز اور تمغات کے تمنائی نہیں
رہے، کچھ ادبی حلقوں کی جانب سے آپ کے شعری کلام کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا لیکن فرحت
عباس شاہ نے کبھی اس جنگ کا حصہ نہیں بنے، اور اپنی توانائیوں کو صحت مند سرگرمیوں
میں صرف کرتے ہیں۔
آپ 1964ء میں پیدا ہوئے
اور آج 2020ء میں آپ کی عمر 50 برس سے زیادہ ہوگئی ہے، لیکن وہ آج بھی ہشاش بشاش
نظر آتے ہیں اور فعالیت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہیں۔ 1980ء اور نوے کی
دہائی میں آپ کا کلام نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن چکا تھا اور آپ کی کتابوں کا
انتظار کیا جاتا تھا، آپ نے ”شام کے بعد“ کے عنوان سے ایک سدا بہار غزل لکھی جس کو
آفاقی شہرت نصیب ہوئی، اور اس کے بعد آپ نے کئی اور غزلیں بھی” شام کے بعد“ردیف
کے ساتھ لکھیں، اور ان کیا ایک اور شہرۂ آفاق غزل” اداس شامیں اجاڑ رستے کبھی
بلائیں تو لوٹ آنا “بہت معروف ہے، جسے اُن کے بیٹے سمیر عباس نے گایا بھی ہے۔
٭ سن 2016ء میں میرا لکھا ہوا ایک اور مضمون فرحت عباس شاہ