پاکستان میں ہر دوسرا بندہ عدمِ تحفظ کا شکار ہے جبکہ تحفظ کے عدم کا شکار وہ بھی ہو سکتے ہیں جو ”عدمِ تحفظ کے شکار“ نہیں ہیں۔ یہاں آپ کو بیسیوں قِسم کے خطرات لاحق ہیں، اخبار اور ٹی وی چینلز ملک بھر کی سکیورٹی صورت حال کے گواہ ہیں۔ نہ بچے محفوظ ہیں اور نہ ہی بڑے۔ کیا درسگاہیں، اور کیا عبادتگاہیں ! یہاں مارکیٹیں دہشت کا گھر ہیں اور تفریح گاہیں لہولہان ہیں۔ سڑکوں پہ خوف کا پہرہ ہے گلیوں میں درندگی کا راج ہے۔
صرف لاہور کی بات کرلیں جس میں تقریباً دو کروڑ لوگ بستے ہیں وہاں ایک کینٹ بھی ہے، چھ سات سے زائد وزیرِ اعلیٰ ہاؤس ہیں، ایک پنجاب اسمبلی ہے، قُرب میں ایک گورنر ہاؤس ہے مضافات میں ایک شہر رائے ونڈ ہے وہاں بھی گورنمنٹ کے لوگ ہیں، ملک میں 26 ایجنسیوں کے وجود کی بات جنابِ وزیرِ داخلہ نے کی تھی۔ لاہور میں پنجاب پولیس ہے، ایلیٹ فورس ہے، ڈولفن فورس ہے، محافظ فورس ہے، کوئک رسپانس فورس ہے، شہری دفاع فورس ہے۔ لاہور سٹی ٹریفک پولیس ہے، ایل ٹی ای ہے۔ پرائیویٹ سکیورٹی ادارے ہیں،عوام ہیں،قومی اسمبلی کے ارکان ہیں، صوبائی اسمبلی کے ارکان اور کئی وزراء ہیں۔ یونین کونسلز کے چیئرمین ہیں اور دیگر کئی قسم کے کونسلرز ہیں، عہدے داران ہیں۔ گلی محلوں میں چوکیدار ہیں۔
پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جیتے جاگتے لوگوں کے سامنے ”بُرے لوگ“ آتے بھی ہیں اور معصوم بچوں کو اٹھا کر لے بھی جاتے ہیں۔ اُن کے جسم سے قیمتی اعضاء نکال کر میتوں کو پھینک بھی جاتے ہیں اور انہیں کوئی دیکھ تک نہیں پاتا؟
یہ گُردے اور دوسرے اعضاء لازمی طور پر بیرونِ ملک بھیجے جاتے ہوں گے۔ ان کے بھیجتے وقت شاید، میڈیکل ڈاکٹرز کی تصدیق کی ضرورت ہوتی ہوگی۔ وہ تصدیق کون کرکے دیتا ہے؟ ملک سے باہر یہ چیزیں اس قدر آسانی سے کیسے بھیجی جا سکتی ہیں۔
یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے، یا اچانک واردات کا آغاز نہیں ہوا۔ یہ پُرانی باتیں ہیں۔ بچے غائب ہونے کی خبریں بچپن سے سنتے آئے ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ وہ عرب ممالک میں بھیجے جاتے تھے اور عربی درندے اپنے اونٹ کو تیز بھگا کر ”دوڑ“ جیتنے کے لیے معصوم بچوں کو اونٹوں پر بٹھاتے تھے، یہ کام ایک طویل عرصے سے جاری ہے اور پاکستان جیسے بہت سے ”آزاد اور خود مختار“ ممالک میں سے ایسے بچے اغوا ہوتے ہیں اور درندوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
ملکِ شام و عراق، اور فلسطین و کشمیر کے حالات پر بات کرنے کا موقع اُسے ملے جو خود محفوظ ہو، جس کے پاس کھانے کے روٹی ہو بچوں کو مناسب مفت تعلیم مِل رہی ہو، اُن کی نوجوان بچیاں محفوظ ہوں وہ مسجد میں جا کے بلا خوف و خطر چار رکعات نماز ادا کرکے گھر واپس آ جانے کی اُمید رکھتا ہو۔ جس کے شہروں کی سڑکوں پر ٹریفک کے قوانین کی پابندی ہوتی ہو۔
تُرکی ، امریکہ اور برطانیہ کی سیاست پر وہ بات کرے جس کے گھر میں بجلی آتی ہو، اُس کی دوکان کا کاروبار بجلی اور انٹرنیٹ کی فراہمی کے تعطل کی وجہ سے بند نہ ہو۔
پاکستان بنانے کا مقصد کب کا پُورا ہو چکا ہے۔ اب یہاں سہاگنوں کے سُہاگ نہیں اُجڑتے ، کسی کے بچےریاست کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے یتیم نہیں ہوتے۔ مزدور صرف آٹھ گھنٹے انسانوں کی طرح استعمال کیے جاتے ہیں، انہیں اُن کا پورا حق ادا کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایک مزدور کو ماہانہ ایک تولہ سونے کے برابر تنخوہ ملتی ہے اور وہ ہر ہفتے میں ایک چھٹی سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے۔ سال بھر میں اُسے تمام ”پبلک چھٹیوں“ پر فیکٹری اور ملز سے باہر جانے کی اجازت ہوتی ہے اور ساتھ چھٹی منانے کا خرچہ الگ سے ملتا ہے۔ یہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نظام کی سُنت پر عمل کیا جارہا ہے۔ ہر بچے کو پیدائش کے وقت سے وظیفہ ملنے کا آغاز ہو جاتا ہے۔ ساٹھ سال سے زائد عمر کے ہر شہری کو ماہانہ، گھر بیٹھے ”عمرِ ضعیفی“ کا وظیفہ پینشن کے نام پر مل جاتا ہے۔ واپڈا ٹھیک سے بجلی سپلائی کر رہا ہے، پی ٹی سی ایل بہترین سروسز فراہم کر رہا ہے۔ پاک آرمی اور 26 ایجنسیوں کی ”مملکتِ خداداد“ میں گھسنے سے پہلے دشمن کا پِتہ پانی ہو جاتا ہے۔ اب پاک آرمی، یو این او کے ساتھ سعودی عرب جیسے دیگر ممالک کو امن افواج فراہم کر رہی ہے۔ پاکستان کے سو فیصد افراد کو پینے کا صاف پانی میسر ہے، تعلیم مفت،علاج مفت، روزگار دہلیز پر دستیاب ہے۔ سکول، کالج اور یونیورسٹی میں اساتذہ ”زندگی کا درس“ دے رہے ہیں۔ علماء کرام تحقیق فرما کر قوم و ملت کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔
الحمدللہ! پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے، صبح و شام لوگ نیوکلیئر کی روٹی جے۔ایف 17 تھنڈر کے سالن کے ساتھ لگا کر کھاتے ہیں، ملک بھر کے ہر گھر میں روٹی کپڑا اور مکان پیپلز پارٹی کے حکمران پہنچا کر آتے ہیں۔ علاج معالجے کی مفت سہولیات تحریکِ انصاف اپنی ذمہ داری سمجھ کر ہر شہری تک پہنچا آتی ہے، تعلیم، روزگار اور دیگر فلاحی کام (جیسا کہ سڑکیں بنانا اور چنیوٹ سے سونا وغیرہ نکالنا) پاکستان مُسلم لیگ (نون) کے ذمہ ہیں اور بخوبی سرانجام دیئے جا رہے ہیں، پرویز مشرف صاحب ”کالا باغ ڈیم“ بنا کر مزید چار پانچ ہزار چھوٹے بڑے ڈیم بنانے کے منصوبوں پر عمل کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی اور جماعتِ اسلامی والے کراچی جیسے ”عروس البلاد“ کی روشنیاں مرمت کرکے، سنوار رہے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کشمیر میں آزادی لے کر عطا فرما رہی ہے جس سے لاکھوں کروڑوں کشمیری مستفید ہو رہے ہیں، اور جے یو آئی (س) والے طالبان جیسے ”ناراض بھائیوں“ کو سمجھانے میں جُتے ہوئے کہ بھائی صاحبو! اب مان بھی جاؤ۔
جمعیت علمائے پاکستان کی باقیات والے کبھی فلسطین ایشو اور کبھی مصر کے حالات کو مانیٹر فرما رہے ہیں، مفتیانِ عظام، عوام الناس کو فاحشہ عورتوں کی وڈیوز دکھا دکھا کر منع فرما رہے ہیں کہ ایسے لعنتی لوگوں کی صحبت سے دُور رہو۔
الحمدللہ! اس چودہ اگست پر، پاکستان کے عمائدین پاکستان سمیت دنیا بھر میں، کشمیر، فلسطین، شام اور عراق کی آزادی کی نوید سُنا رہے ہوں گے۔ اب پاک فوج کو امریکی امداد اور ایف 16 کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ الحمدللہ! ہماری حکومت نے اپنے قرض خواہ، آئی ایم ایف کو ”گڈ بائے“ کہہ دیا ہے۔راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔
اس سب کے باوجود، لوگ بکواس کرنے سے باز نہیں آتے اور ایک دوسرے پر لعنتیں بھیجتے رہتے ہیں خصوصاً سوشل میڈیا گالیاں بکنے کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ لہٰذا ملکی اخلاقی وقار کو قائم و دائم رکھنے کے لیے اور قوم کی اصلاح کے ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے کہ لوگ ”اچھے بچے“ بن کر رہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ بہن بھائی جیسا سلوک کریں۔ اس ضرورت کے تحت حکومتِ وقت وقتاً فوقتاً ”سائیبر کرائیم قوانین“ بناتی رہتی ہے، اس سے عوام کو خوفزدہ یا ہراساں ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ جب انہیں انٹرنیٹ کی دنیا سے باہر تمام سہولتیں اور تحفظ حاصل ہے تو انٹرنیٹ پر آ کر اپنا غصہ کیوں نکالتے ہیں۔
زمین پر تو حاصل نہیں تھا جن کو
فلک کے اُس پار تیرے منتظر ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں