میں نے اکثر دوستوں کے خیالات کا مطالعہ کیا، خبریں دیکھیں (written) کالم دیکھے اور زمینی حقائق کا ادراک کیا
لیکن اُسے بیان کرنا فضول سمجھتا ہوں
کیونکہ مجھے شُبہ ہے کہ لوگ صرف اپنی ”جھوٹی انا“ کی پُوجا کرنا چاہتے ہیں یہ شاید میرا نیا فلسفہ ہے کہ ”سچی انا“ کی پُوجا شاید درست ہو، لیکن یہ ”جھوٹی انا“ کی پوجا کیا وقعت رکھتی ہے؟
کچھ لوگ مصوری یا افسانہ نگاری میں پناہ ڈھونڈ لیتے ہیں، جبکہ میں ابھی ”راہی“ ہوں۔
اچھا! احباب کا ایک یہ عظیم المیہ ہے کہ وہ ٹی وی دیکھ دیکھ کر ”آپ کی کیا رائے ہے؟“ کے عادی ہو چکے ہیں لہٰذا وہ مجھے بھی یہی کہتے ہیں کہ ”رائے“ دو۔
دوستوں سے گزارش ہے کہ میرے فلسفے کو سمجھنے کی کوشش کریں، میں روزانہ کئی لوگوں سے کہتا ہوں، ”Learn to control your mind“ کہ اپنے خیالات پر قابو پانا سیکھیں۔
اگر لوگوں کے ذہنوں پر اثرانداز ہونے کی ”مہم“ جاری رکھی گئی تو کچھ بھی ہاتھ نہیں آنے والا، اپنے ذہن کو کنٹرول کرنا سیکھیں
اپنی زندگی میں سے کچھ الفاظ یعنی اعمال کا خاتمہ کر دیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ ”ردعمل“
2۔ ”پریشانی“
3۔ ”ٹھیکے داری“
4۔ ”تناؤ یعنی Tension“
5۔ ”نصیحت کرنا یعنی مشورہ دینا“
6۔ ”استحصال“
7۔ ”تاثر لینا“
ہمیں چین کیوں نہیں پڑتا؟ سکون کیوں نہیں مل رہا؟
کیونکہ
1۔ ہم فوراً ردعمل دیتے ہیں اور فوراً ردعمل چاہتے ہیں۔
2۔ ہم کہہ دیتے ہیں کہ یار بڑی پریشانی بن گئی ہے۔
3۔ ہم اسلام، پاکستان، پاک فوج، اپنی سیاسی جماعت، اپنے مذہبی فرقے، اپنی سماجی سوچ، اپنے صوبے، زبان، مٹی، قوم، ذات، برادری، کرکٹ ٹیم، اور کچھ دیگر معاملات کے ٹھیکے دار بن جاتے ہیں جبکہ ہم ان میں سے کسی ایک بھی شعبے کے ماہر نہیں ہوتے، دراصل ماہر ہی ”رائے“ پیش کرسکتا ہے۔
4۔ ٹینشن کا لفظ ایک لعنت کی طرح گلے کا طوق بنا رکھا ہے۔
5۔ سوجھ بوجھ ہوتی نہیں اور غیر شعوری طور پر ”مشوروں کی مشین“ بنے ہوئے ہیں۔
6۔ ہم استحصال یعنی ”بے غیرتی“ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
7۔ ساتویں غلط چیز یہ کہ ہم کسی بھی ”تیسرے درجے کے“ واعظ، شاعر، ادیب، کالم نگار، ٹی وی اینکر، ادکار، گلوکار، کھلاڑی، سیاست دان، ڈاکٹر، پروفیسر، تجزیہ کار اور دیہاڑی دار کو قوم و ملت، اسلام اور پاکستان کی ”ناک“ کا ٹھیکے دار سمجھتے ہوئے اس سے بہت جلد متاثر ہوتے ہیں، بالکل اسی جلدی سے اس کے کسی ناپسندیدہ عمل پہ سختی کے ساتھ ”ردعمل“ پیش کرتے ہیں۔
اب حل کیا ہے؟
1۔ خود کو آئینے میں دیکھ لینا چاہیے
2۔ کبھی کبھی سچ بول دینا چاہیے (جب دل نہ چاہے)
3۔ بعض اوقات سچ مان بھی لینا چاہیے۔
4۔ اپنی غلطی تسلیم کرکے سر تسلیم خم کر دینا چاہیے۔
5۔ اپنا محاسبہ کرنا چاہیے
6۔ صبح کی سیر کرنی چاہیے
7۔ اپنی زندگی کو منظم طریقے سے گزارنا چاہیے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
منہ سے وہی الفاظ نکالیں، جن پر پہرہ دے سکیں، ایک بات کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچیں اور سوچنا یہ ہے کہ اس بارے میں اصلی ”ماہرین“ کی کیا رائے ہے اگر آج وہ یہاں ہوتے تو کیا رائے پیش کرتے۔۔۔ ورنہ ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ ٹھیکے دار نہ بنیں۔ دوستوں سے (سچ سچ) کہہ دیں کہ.. میری یاداشت کے مطابق۔۔۔Hmmmm۔۔۔۔۔ فلاں صاحب جو اس موضوع کے ایکسپرٹ ہیں انہوں نے فلاں پلیٹ فارم پر اس طرح کے سوال کا یہ جواب دیا تھا
اب وہ ”رائے“ کی ٹھیکے داری آپ نے اپنی گردن سے اتار کر ”ایکسپرٹ صاحب“ کے کھاتے میں ڈال دی۔ جب کوئی اختلاف کرے گا تو آپ سے نہیں بلکہ اُس تیسرے بندے کی رائے سے کرے گا۔
اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ”اہلِ علم“ کا کاوش کا احترام بھی ہوجاتا ہے، آپ اپنا مطالعہ بھی وسیع کرلیتے ہیں اور دوسرے کی رائے سُن لینے کا حوصلہ بھی آجاتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایسے محقق لوگوں کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالیں جو شروع شروع میں آپ کو سُست اور مدھم اندازِ تحریر کی نظر آئیں
جب آپ دیکھیں گے کہ یہ بندہ ہزاروں کتابیں پڑھ کے بھی ”ماہرین“ کی مختلف آراء کو لکھ رہا ہے تو ذہن سوچے گا کہ میں ہمیشہ ایک ہی رائے سے ”ہٹ دھرم“ بن کے کیوں جُڑا رہتا ہوں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خاموشی بہترین حل ہے، ایک وقت کے بعد غلط رائے رکھنے والے کو درست صورت حال کا علم ہوجاتا ہے اور وہ مان بھی لیتا ہے
لیکن
اگر آپ نے اُسے غلط مؤقف نہ بھولنے دیا تو آپ اُس کے ساتھ ظلم کررہے ہیں یعنی اگر وہ کل تک سمجھتا تھا کہ فلاں صاحب کی ”رائے“ اتنی اہم ہوتی ہے کہ اُسے آنکھیں بند کرکے مان لینا چاہیے (جبکہ آپ کے خیال میں یہ ایک فضول چیز تھی اور آپ سچے بھی تھے) پھر بھی آپ خاموش رہیں، اسی میں بھلائی ہے، اب وہ دوست چھ ماہ کے بعد آ کر کہہ دے کہ ”نہیں بھئی اُن صاحب کی تحقیق ناقص ہے“ تو آپ اپنے دوست کو پھر بھی کچھ نہ کہیں۔
اُسے خاموشی اور سنجیدگی سے سُن لیں، کسی کی بات سُن لینا ایک اچھا عمل ہے، اس سے سُنانے والے کے دل میں آپ کے لئے محبت پیدا ہوتی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جب کبھی آپ کو محسوس ہو کہ آپ کی بات، رائے، نظریے کو چیلینج کیا گیا ہے تو سوچ لیں کہ شاید کوئی غلطی ہوگئی ہے، اپنی دوبارہ اصلاح کا سوچ لیں اور دل میں عہد کریں کہ اس متعلق مزید تحقیق کرنی ہوگی اور سامنے والے سے کہیں کہ سر! میں اس پر ”غور و فکر“ کروں گا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگر کتا انسان کو کاٹ لے تو انسان اُسے جواباً کاٹتا نہیں ہے
لہٰذا
اگر آپ کو دکھائی دے کہ فلاں بات آپ کو ہضم نہیں ہونے والی تو وہاں سے کنارہ کش ہوجائیں، اچانک آپ کو اپنے فرائض منصبی یاد آجانے چاہئیں اور اپنی ڈیوٹی کی جگہ کی طرف دوڑ لگا دیں اگر شام کا وقت یعنی فرصت کا وقت ہے تو کسی مثبت سرگرمی کی طرف متوجہ ہوجائیں، ایسے واعظ سے اجازات لیں، خود کو جھوٹا کہہ کر امن کی پٹڑی پر گامزن ہوجائیں
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فیس بک پر صرف یادگار لمحات کی تصاویر اپلوڈ کریں اور کسی بھی قسم کی جذباتی پوسٹ کو ”Hide Post“ کے آپشن سے چھپا دیں۔
ناسمجھ افلاطونوں کو ”un-follow“ کر دیں۔
خبر کی تعریف ”Definition“ سے ناواقف لوگوں کی تحریر اور پوسٹ کو فضول سمجھ کر چھپا دیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نتیجہ کوئی چیز نہیں ہوتا اصل چیز محنت ہوتی ہے
پھل کوئی نہیں ہوتا اصل چیز صبر ہے
اختتام کبھی نہیں ہوتا، جہد مسلسل اصل چیز ہے
ثابت کچھ نہیں ہوتا، دلیل پیش کرتے رہیں
ڈگری کوئی سند نہیں ہوتی، مطالعہ اصل چیز ہے
الجھنے سے کچھ نہیں ملتا، سمجھ لینا مطلوبہ عمل ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اٹھائیس مارچ 2016ء کی صبح تین بج کر 17 منٹ پر مکمل کیا۔ عبدالرزاق قادری
لیکن اُسے بیان کرنا فضول سمجھتا ہوں
کیونکہ مجھے شُبہ ہے کہ لوگ صرف اپنی ”جھوٹی انا“ کی پُوجا کرنا چاہتے ہیں یہ شاید میرا نیا فلسفہ ہے کہ ”سچی انا“ کی پُوجا شاید درست ہو، لیکن یہ ”جھوٹی انا“ کی پوجا کیا وقعت رکھتی ہے؟
کچھ لوگ مصوری یا افسانہ نگاری میں پناہ ڈھونڈ لیتے ہیں، جبکہ میں ابھی ”راہی“ ہوں۔
اچھا! احباب کا ایک یہ عظیم المیہ ہے کہ وہ ٹی وی دیکھ دیکھ کر ”آپ کی کیا رائے ہے؟“ کے عادی ہو چکے ہیں لہٰذا وہ مجھے بھی یہی کہتے ہیں کہ ”رائے“ دو۔
دوستوں سے گزارش ہے کہ میرے فلسفے کو سمجھنے کی کوشش کریں، میں روزانہ کئی لوگوں سے کہتا ہوں، ”Learn to control your mind“ کہ اپنے خیالات پر قابو پانا سیکھیں۔
اگر لوگوں کے ذہنوں پر اثرانداز ہونے کی ”مہم“ جاری رکھی گئی تو کچھ بھی ہاتھ نہیں آنے والا، اپنے ذہن کو کنٹرول کرنا سیکھیں
اپنی زندگی میں سے کچھ الفاظ یعنی اعمال کا خاتمہ کر دیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ ”ردعمل“
2۔ ”پریشانی“
3۔ ”ٹھیکے داری“
4۔ ”تناؤ یعنی Tension“
5۔ ”نصیحت کرنا یعنی مشورہ دینا“
6۔ ”استحصال“
7۔ ”تاثر لینا“
ہمیں چین کیوں نہیں پڑتا؟ سکون کیوں نہیں مل رہا؟
کیونکہ
1۔ ہم فوراً ردعمل دیتے ہیں اور فوراً ردعمل چاہتے ہیں۔
2۔ ہم کہہ دیتے ہیں کہ یار بڑی پریشانی بن گئی ہے۔
3۔ ہم اسلام، پاکستان، پاک فوج، اپنی سیاسی جماعت، اپنے مذہبی فرقے، اپنی سماجی سوچ، اپنے صوبے، زبان، مٹی، قوم، ذات، برادری، کرکٹ ٹیم، اور کچھ دیگر معاملات کے ٹھیکے دار بن جاتے ہیں جبکہ ہم ان میں سے کسی ایک بھی شعبے کے ماہر نہیں ہوتے، دراصل ماہر ہی ”رائے“ پیش کرسکتا ہے۔
4۔ ٹینشن کا لفظ ایک لعنت کی طرح گلے کا طوق بنا رکھا ہے۔
5۔ سوجھ بوجھ ہوتی نہیں اور غیر شعوری طور پر ”مشوروں کی مشین“ بنے ہوئے ہیں۔
6۔ ہم استحصال یعنی ”بے غیرتی“ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
7۔ ساتویں غلط چیز یہ کہ ہم کسی بھی ”تیسرے درجے کے“ واعظ، شاعر، ادیب، کالم نگار، ٹی وی اینکر، ادکار، گلوکار، کھلاڑی، سیاست دان، ڈاکٹر، پروفیسر، تجزیہ کار اور دیہاڑی دار کو قوم و ملت، اسلام اور پاکستان کی ”ناک“ کا ٹھیکے دار سمجھتے ہوئے اس سے بہت جلد متاثر ہوتے ہیں، بالکل اسی جلدی سے اس کے کسی ناپسندیدہ عمل پہ سختی کے ساتھ ”ردعمل“ پیش کرتے ہیں۔
اب حل کیا ہے؟
1۔ خود کو آئینے میں دیکھ لینا چاہیے
2۔ کبھی کبھی سچ بول دینا چاہیے (جب دل نہ چاہے)
3۔ بعض اوقات سچ مان بھی لینا چاہیے۔
4۔ اپنی غلطی تسلیم کرکے سر تسلیم خم کر دینا چاہیے۔
5۔ اپنا محاسبہ کرنا چاہیے
6۔ صبح کی سیر کرنی چاہیے
7۔ اپنی زندگی کو منظم طریقے سے گزارنا چاہیے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
منہ سے وہی الفاظ نکالیں، جن پر پہرہ دے سکیں، ایک بات کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچیں اور سوچنا یہ ہے کہ اس بارے میں اصلی ”ماہرین“ کی کیا رائے ہے اگر آج وہ یہاں ہوتے تو کیا رائے پیش کرتے۔۔۔ ورنہ ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ ٹھیکے دار نہ بنیں۔ دوستوں سے (سچ سچ) کہہ دیں کہ.. میری یاداشت کے مطابق۔۔۔Hmmmm۔۔۔۔۔ فلاں صاحب جو اس موضوع کے ایکسپرٹ ہیں انہوں نے فلاں پلیٹ فارم پر اس طرح کے سوال کا یہ جواب دیا تھا
اب وہ ”رائے“ کی ٹھیکے داری آپ نے اپنی گردن سے اتار کر ”ایکسپرٹ صاحب“ کے کھاتے میں ڈال دی۔ جب کوئی اختلاف کرے گا تو آپ سے نہیں بلکہ اُس تیسرے بندے کی رائے سے کرے گا۔
اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ”اہلِ علم“ کا کاوش کا احترام بھی ہوجاتا ہے، آپ اپنا مطالعہ بھی وسیع کرلیتے ہیں اور دوسرے کی رائے سُن لینے کا حوصلہ بھی آجاتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایسے محقق لوگوں کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالیں جو شروع شروع میں آپ کو سُست اور مدھم اندازِ تحریر کی نظر آئیں
جب آپ دیکھیں گے کہ یہ بندہ ہزاروں کتابیں پڑھ کے بھی ”ماہرین“ کی مختلف آراء کو لکھ رہا ہے تو ذہن سوچے گا کہ میں ہمیشہ ایک ہی رائے سے ”ہٹ دھرم“ بن کے کیوں جُڑا رہتا ہوں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خاموشی بہترین حل ہے، ایک وقت کے بعد غلط رائے رکھنے والے کو درست صورت حال کا علم ہوجاتا ہے اور وہ مان بھی لیتا ہے
لیکن
اگر آپ نے اُسے غلط مؤقف نہ بھولنے دیا تو آپ اُس کے ساتھ ظلم کررہے ہیں یعنی اگر وہ کل تک سمجھتا تھا کہ فلاں صاحب کی ”رائے“ اتنی اہم ہوتی ہے کہ اُسے آنکھیں بند کرکے مان لینا چاہیے (جبکہ آپ کے خیال میں یہ ایک فضول چیز تھی اور آپ سچے بھی تھے) پھر بھی آپ خاموش رہیں، اسی میں بھلائی ہے، اب وہ دوست چھ ماہ کے بعد آ کر کہہ دے کہ ”نہیں بھئی اُن صاحب کی تحقیق ناقص ہے“ تو آپ اپنے دوست کو پھر بھی کچھ نہ کہیں۔
اُسے خاموشی اور سنجیدگی سے سُن لیں، کسی کی بات سُن لینا ایک اچھا عمل ہے، اس سے سُنانے والے کے دل میں آپ کے لئے محبت پیدا ہوتی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جب کبھی آپ کو محسوس ہو کہ آپ کی بات، رائے، نظریے کو چیلینج کیا گیا ہے تو سوچ لیں کہ شاید کوئی غلطی ہوگئی ہے، اپنی دوبارہ اصلاح کا سوچ لیں اور دل میں عہد کریں کہ اس متعلق مزید تحقیق کرنی ہوگی اور سامنے والے سے کہیں کہ سر! میں اس پر ”غور و فکر“ کروں گا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگر کتا انسان کو کاٹ لے تو انسان اُسے جواباً کاٹتا نہیں ہے
لہٰذا
اگر آپ کو دکھائی دے کہ فلاں بات آپ کو ہضم نہیں ہونے والی تو وہاں سے کنارہ کش ہوجائیں، اچانک آپ کو اپنے فرائض منصبی یاد آجانے چاہئیں اور اپنی ڈیوٹی کی جگہ کی طرف دوڑ لگا دیں اگر شام کا وقت یعنی فرصت کا وقت ہے تو کسی مثبت سرگرمی کی طرف متوجہ ہوجائیں، ایسے واعظ سے اجازات لیں، خود کو جھوٹا کہہ کر امن کی پٹڑی پر گامزن ہوجائیں
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فیس بک پر صرف یادگار لمحات کی تصاویر اپلوڈ کریں اور کسی بھی قسم کی جذباتی پوسٹ کو ”Hide Post“ کے آپشن سے چھپا دیں۔
ناسمجھ افلاطونوں کو ”un-follow“ کر دیں۔
خبر کی تعریف ”Definition“ سے ناواقف لوگوں کی تحریر اور پوسٹ کو فضول سمجھ کر چھپا دیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نتیجہ کوئی چیز نہیں ہوتا اصل چیز محنت ہوتی ہے
پھل کوئی نہیں ہوتا اصل چیز صبر ہے
اختتام کبھی نہیں ہوتا، جہد مسلسل اصل چیز ہے
ثابت کچھ نہیں ہوتا، دلیل پیش کرتے رہیں
ڈگری کوئی سند نہیں ہوتی، مطالعہ اصل چیز ہے
الجھنے سے کچھ نہیں ملتا، سمجھ لینا مطلوبہ عمل ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اٹھائیس مارچ 2016ء کی صبح تین بج کر 17 منٹ پر مکمل کیا۔ عبدالرزاق قادری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں