برصغیر پاک و ہند میں السواداعظم اہلسنّت و جماعت سنّی حنفی جسے مخالفین آج بریلوی کہتے ہیں، وہ قدیم ترین جماعت ہے جس کی ابتداءاسلام کی آمد سے منسلک ہے ،شیعیت کے بعد وہابیت سمیت باقی تمام مکتبہ فکر اِس برعظیم میں بعد کی پیداوار ہیں،جبکہ مولانا احمد رضا خاں کا تعلق اُس مکتبہ فکر سے ہے جو شدت کے ساتھ قدیم سنی حنفی عقائدپر گامزن رہا،حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود مخالفین مولانا احمد رضا خاں پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے ایک نئے مسلک کی بنیاد ڈالی ،جبکہ احسان الٰہی ظہیر کی کتاب کے صاحب مقدمہ شیخ عطیہ محمد سالم تسلیم کرتے ہیں کہ ”دنیا کے ہر خطے میں پائے جانے والے تمام قادری،سہروردی،نقشبندی ،چشتی،رفاعی وہی عقائد رکھتے ہیں جو بریلویوں کے ہیں“(18) یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے سب خطوں میں رہنے والے تمام قادریوں،سہروردیوں،نقشبندیوں ،چشتییوں اوررفاعیوں کے اگر وہی عقائد ہیں جو بریلویوں کے ہیں تو کیااِن سب کو مخالفین کے الزام کے مطابق بریلی کے نئے مسلک نے متاثر کیا اور کیا اِن سب نے بریلوی تعلیمات سے متاثر ہوکر اپنے عقائد و نظریات کو تبدیل کرلیا، یقیناعقل و شعورسے یہ تصور
محال ہے اورکوئی بھی ذی علم اِس بات کی تائید اس لیے نہیں کرسکتا کہ مولانا احمد رضا خاںنے برصغیر میں کس نئے مسلک کی بنیاد نہیں ڈالی بلکہ چودھویں صدی میں قدیم سنی حنفی عقائد کا دفاع کرتے ہوئے سواد اعظم اہل سنت وجماعت کے خلاف اٹھنے والے نت نئے خارجی فتنوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا، انہوں نے عظمت الوہیت، ناموس رسالت، مقام صحابہ و اہل بیت اور حرمت ولایت کا پہرا دیااور اپنی بے پایاں علمی و قلمی خدمات(جسے عرب و عجم کے علماءو ارباب علم ودانش نے بھی تسلیم کیا) کی وجہ سے اِس خطے میں وقت کے مجدد اوراہلسنّت وجماعت کا فخر وامتیاز قرار پائے۔
محال ہے اورکوئی بھی ذی علم اِس بات کی تائید اس لیے نہیں کرسکتا کہ مولانا احمد رضا خاںنے برصغیر میں کس نئے مسلک کی بنیاد نہیں ڈالی بلکہ چودھویں صدی میں قدیم سنی حنفی عقائد کا دفاع کرتے ہوئے سواد اعظم اہل سنت وجماعت کے خلاف اٹھنے والے نت نئے خارجی فتنوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا، انہوں نے عظمت الوہیت، ناموس رسالت، مقام صحابہ و اہل بیت اور حرمت ولایت کا پہرا دیااور اپنی بے پایاں علمی و قلمی خدمات(جسے عرب و عجم کے علماءو ارباب علم ودانش نے بھی تسلیم کیا) کی وجہ سے اِس خطے میں وقت کے مجدد اوراہلسنّت وجماعت کا فخر وامتیاز قرار پائے۔
سیدمحمدمدنی میاں کچھوچھوی فرماتے ہیں” فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے ،از اوّل تا آخر مقلد رہے، اُن کی ہر تحریر کتاب و سنت اور اجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی، نیز سلف صالحین و ائمہ مجتہدین کے ارشادات اور مسلک اسلام کوو اضح طور پر پیش کرتی رہی، وہ زندگی کے کسی گوشہ میں ایک پل کیلئے بھی ”سبیل مومنین صالحین“ سے نہیں ہٹے، اب اگر ایسے کے ارشادات حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں ،انہیں سلف صالحین کی روش کے مطابق یقین کرنے والوں کو ”بریلوی“ کہہ دیا گیا تو کیا ”بریلویت “و” سنیّت“ کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا۔؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیاگیا ۔(19) حقیقت واقعہ یہ ہے کہ برصغیر میں نئے مسلک و عقیدے کی بنیاد ڈالنے والے دراصل وہی لوگ ہیںجو آج ”اہلسنّت وجماعت “ کا نام اختیار کرکے اپنی وہابی نسبت اور حوالوں کو چھپانا چاہتے ہیں اور بڑی چابک دستی سے اپنے حکیم الامت اشرف علی تھانوی کا دکھایا ہوا تقیہ کا راستہ کہ”اپنی جماعت کی مصلحت کیلئے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل بیان کیے جائیں تاکہ اپنے مجمع پر جو وہابیت کا شبہ ہے ،وہ دور ہو اور موقع بھی اچھا ہے کیونکہ اِس وقت مختلف طبقات کے لوگ موجود ہیں۔ “(20)اختیار کرکے حنفیت واہلسنّت ہونے کا دھوکہ دیتے ہیں،یہ وہی حکم الامت ہیں جو کہتے ہیں ”اگر میرے پاس دس ہزار روپیہ ہو تو سب کی تنخواہ کردوں ،پھر لوگ خود ہی وہابی بن جائیں“(21)جواپنے عقیدے کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں”بھائی یہاں تو وہابی رہتے ہیں، یہاں نیاز فاتحہ کیلئے کچھ مت لایا کرو۔“(22
اَمرواقعہ یہ ہے کہ دنیا میں موجود چاروں فقہ” حنفی،شافعی،مالکی اور حنبلی“ کے ماننے والے لوگ جو کہ ہر خطے میں پائے جاتے ہیں،اہلسنّت وجماعت ہیں،اِن کے علاوہ باقی تمام مکتبہ فکر وہابی،اہلحدیث، اہل قرآن اور چکڑالوی وغیرہ خارج اہلسنّت شمار ہوتے ہیں، رہی دیوبندیت تو بقول علامہ اقبال وہ وہابیت کی ہی ایک شکل ہے جس نے بڑی چالاکی سے تقلید حنفی کا لبادہ اوڑھ کر سیدھے سادھے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کا وطیرہ اختیار کرلیا ہے، قارئین محترم ! اِس مقام پر بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ وہابی وخارجی عقائد کے رکھنے والے لوگ کون ہیں،کب وجود میں آئے اور اِن کے عزائم کیا ہیں،اب دیکھتے ہیں اہلسنّت وجماعت کی تعریف و پہچان کیا ہے، دیوبندی مورخ سید سلیمان ندوی اصل اہلسنّت وجماعت کی تعریف وپہچان بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں ” جن کے اعتقادات،اعمال اور مسائل کا محور پیغمبر علیہ السلام کی سنت ِصحیح اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اثرِمبارک ہے۔“ (23
رسول اللہ نے فرمایایہ”وہ راستہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔“حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا،”اللہ میری اُمت کو کبھی ضلالت پر جمع نہیں کرے گااور آپ نے فرمایا،نظم اجتماعی پر اللہ کا ہاتھ ہے،تو جو اُس سے الگ ہوا،شیاطین اُسے اچک لے جائیں گے،چنانچہ جب تم (اُس میں)اختلاف پاؤ تو (اُس کے ساتھ وابستہ رہنے کیلئے)سواد اعظم کی رائے کی پیروی کرو،
اِس لیے کہ جو الجماعۃ سے الگ ہوا،وہ دوزخ میں پڑا۔(مستدرک،کتاب العلم)،حضرت انس سے روایت ہے رسول اللہ نے فرمایا”بیشک میری اُمت گمراہی پر متفق نہیں ہوگی،پس جب تم دیکھو کہ لوگ اختلاف میں مبتلا ہیں تو سواد اعظم (بڑی جماعت)کی پیروی کرو،(ابن ماجہ ،کتاب الفتن ، باب السواد الاعظم
یعنی اہلسنّت و جماعت وہی ہے جو رسول اﷲکی سنت پر عمل پیرا رہے، بدمذہبوں کی گمراہیوں سے کنارہ کش رہے اورجماعت سے وابستہ رہے اور جماعت سے مراد صحابہ کرام ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا ”ماانا علیہ واصحابی علیہ الیوم“۔ مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے خلیفہ مولانا نعیم الدین مرادآبادی اِس حدیث مبارکہ کی روشنی میں اپنے عہد کے حالات کے پیش نظر اہلسنّت وجماعت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں ”سنّی وہ ہے جو ماانا علیہ واصحابی کا مصداق ہو،یہ وہ لوگ ہیں جو خلفائے راشدین،ائمہ دین،مسلم مشائخ طریقت اور متاخر علمائے کرام میں سے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی،ملک العلما حضرت بحرالعلوم فرنگی محلی،حضرت مولانا فضل حق خیرآبادی، حضرت مولانا شاہ فضل رسول بدایونی، حضرت مولانا مفتی ارشاد حسین رامپوری اور حضرت مفتی شاہ احمد رضا خاں بریلوی کے مسلک پر ہوں“(24)اِن حوالوں سے ہمارا مدعا پوری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ دیوبندی اور وہابی تحریکوں سے قبل ہندوستانی علماءومشائخ اور مسلمان اپنے قدیم دینی مذہب اور متوارث روایات پر پوری سختی کے ساتھ کار بندرہے ، مولانا احمد رضا فاضل بریلوی کا تعلق بھی اِسی طبقے سے ہے۔
اِس وقت برصغیر میں امام احمد رضا خاں اور اُن کے مو ¿یدہزاروں علماءومشائخ کے عقائد ونظریات ہی اصل اہلسنّت وجماعت کے عقائد و نظریات ہیں،یہی جماعت سواد اعظم بھی ہے اور ارشاد رسول ”ماانا علیہ واصحابی“کی حقیقی مصداق بھی ہے،یہی وہ جماعت ہے جو ہردور میں راہ حق پر گامزن رہی اورآج بھی مسلمانوں کی عام اکثریت اِسی روش پر قائم ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں