بدھ، 14 اگست، 2013

پاکستان کا چھیاسٹواں یوم آزادی مبارک ہو

آج پاکستان کا چھیاسٹواں یومِ آزادی ہے۔پاکستانیوں کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اس ملک کے قیام کا دن مبارک ہو۔
ممکن ہے کہ پاکستان میں رہنے والے کچھ لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہوں کہ یہ ملک ابھی تک باقی ہے۔ اور سرحد پار تو یقیناًبہت سارے تحفظات ہیں۔ ابھی تک یومِ آزادی منانے پر بدعت اور شرک کا فتویٰ جاہلوں کی طرف سے اعلانیہ نہیں لگا۔ ورنہ در پردہ تو بہت کچھ لکھا اور کہا جاتا ہے۔فیصل آباد سے شائع ہونے والا ایک دیوبندی رسالہ تو ابھی تک قائدِ اعظم محمد علی جناح کے خلاف زہر فشانی کرتا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جب اس ملک کو اسلام کے نام پر ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے حاصل کیا گیا تو اُس دورا ن مستشرقین کے حمایتی، اور گاندھی کی آشیرباد کے سہارے سیاست کرنے والے نام نہاد مسلم علماء (دیوبندی، جماعت اسلامی کے مودودی صاحب، وہابی اور نیشنلسٹ کہلانے والے) نے پاکستان کو ’’پلیدستان‘‘ اور قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ جیسے ولی صفت انسان کو معاذاللہ ’’کافرِ اعظم‘‘ قرار دیا۔ آج چونکہ پاکستان کے ان دشمنوں کی آنکھوں میں اسلام کا یہ قلعہ (پاکستان) کھٹکتا رہتا ہے۔ اس لیے وہ اسے کمزار کرنے کی سازشیں ’’اسلام‘‘ کا نام لے کر جاری رکھتے ہیں۔ مثلاً وہ جنت کے ٹکٹ کے لیے بم دھماکے کرکے ملک کا امن تباہ کرتے ہیں۔ اور عوام الناس کو پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے خلاف اپنے باطل افکار سے گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلام اور پاکستان کے دشمن مشترک ہیں۔ گاندھی جیسے درندہ صفت انسان کو جو لاکھوں مسلمانوں کے خون (قتل) کا ذمہ دار ہے اُسے نبی جیسا ماننے والے خود کو اسلام کا ٹھیکے دار سمجھتے ہیں۔ پاکستانی عوام سے مختلف حیلے بہانوں سے چندہ جمع کرکے ان پر ’’شرک‘‘ کے فتوے لگاتے ہیں۔ مسجدوں، مارکیٹوں، درس گاہوں اور اللہ کے ولیوں کے مزارات پر خون خرابا کر کے’’جہاد‘‘ کرتے ہیں۔ میں نے ان خوارجی فتنوں کے حوالے سے دو تحریریں1. تنظیموں کے شکنجے2. خلافت کے ٹھیکے دارلکھی تھیں۔ ابھی تک یہ دونوں تحریریں شائع نہیں ہوئیں۔ یہ جدید طریقوں اور حربوں سے واردات کرنے والے فتنوں کے متعلق ہیں۔ پاکستان میں پٹھان لوگوں کا علیحدہ عید منا لینا ایک معاملہ ہے۔ یہ لوگ صدیوں پہلے بھی اپنی چھوٹی مسجد بنا کر علیحدہ نماز پڑھتے تھے۔ جہاں سے ’’ڈیڑھ اینٹ کی مسجد‘‘ نکلا ہے۔ لیکن اب جدید ’’خلافتی‘‘ بخار والے فتنوں کو سعودی عریبیہ کے ظالم قابض حکمرانوں کی پوجا کرنا ایک دوسرا معاملہ ہے۔ کون تاریخ کا طالب علم نہیں جانتا کہ 1908 ء اور اس سے قبل وہابی فتنے نے وادیء حجاز کے تقدس کو کس طرح پائمال کیا۔ اور اپنے ’’نئے دین‘‘ کو وہاں تلوار اور بندوق کے زور پر نافذ کیا۔ انہوں نے وہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے مزارات کو ’’شرک‘‘ کی زد میں لا کر شہید کیا۔ (آج یہ لکھتے ہیں ’’میں نوکر صحابہ دا‘‘) انقلاب آلِ سعود کے لیے وہابیوں نے ظلم و جبر کی انتہا کی۔ یہ سب کچھ برطانوی سامراج کی سازش اور مدد کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اندلس (سپین) میں جو حالت عیسائیوں (فرڈی نینڈ اور ہمنوا) نے مسلمانوں کی بنائی وہی تاریخ ملکِ عرب میں نجدی وہابیوں نے مسلمانوں کے ساتھ دہرائی۔ 1492  ء میں یکم اپریل کو سپین میں جہاز میں پیک کرکے سمندر میں ڈبو دیا گیا۔ جس کی یاد میں وہ ’’اپریل فول‘‘ مناتے ہیں۔ سعودی ظالم بھی اپنا یوم حکومت (قبضہ) مناتے ہیں۔ انہوں نے فلسطین کی سرزمین انگریزوں کو صبحِ قیامت تک کے لیے اپنے اقتدار کے عوض تحریری سرٹیفکیٹ دے کربیچ دی۔ وہاں یہودیوں نے ملکِ اسرائیل بنا لیا۔ عظیم اسلامی سلطنت کے ٹکڑے کرانے والے آج ہمیں ’’خلافت‘‘ اور ’’اسلامی قانون‘‘ کا درس دینے آ گئے ہیں۔ اللہ عزوجل ان سمیت دیگر تمام فتنوں سے امت مسلمہ اور عالمِ اسلام کو محفوظ فرمائے۔ مزید تفصیلات کے لیے یہ تحریریں اور کتابیں پڑھ لیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں