پیر، 18 مارچ، 2013

تو بھی آ جائے یہاں اور مرا بچپن بھی۔۔۔ ندیم بھابھہ

تو بھی آ جائے یہاں اور مرا بچپن بھی

ختم ہو جائے کہانی بھی ہر اک الجھن بھی


خیر اس ہجر میں آنکھیں تو چلی جاتی ہیں

ٹوٹ جاتے ہیں کلائی کے نئے کنگن بھی


بھیک مل جاتی ہے اور پانی بھی پی لیتا ہوں

ہاتھ کشکول بھی ہیں اور مرے برتن بھی


کیا ضروری ہے کسی مور کا ہونا بن میں

رقص کرتا ہے ترے دھیان میں تو تن من بھی


کیوں ترے غم میں کسی اور کو شامل کر لوں

کس لیے روئے مرے ساتھ مرا آنگن بھی


ایک ویران ریاست کی طرح ہوں میں ندیمؔ

فتح کر کے مجھے پچھتائے مرے دشمن بھی