تحریر و ترتیب: عبدالرزاق قادری
بہترین تمدنی زندگی گزارنے کے لیے انسان نئی نسل کو اپنے گزشتہ تجربات منظم کرکے پیش کرتے ہیں تا کہ وہ زندگی گزارنے کے ڈھنگ سیکھ پائیں اور اپنے معاشرے کے لیے مفید شہری ثابت ہوں، عام مشاہدے کی بات ہے کہ اگر کوئی طالب علم تعلیمی امتحانات میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ دکھائے تو اُسے دادِ تحسین سے نوازا جاتا ہے اور حکومتیں ایسے طلباء و طالبات کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات مقرر کرتی ہیں بعض اوقات ایسے درخشندہ ستاروں پر ترقی یافتہ ممالک کی نظر پڑ جاتی ہے اور ٹاپرز کے لیے بیرونِ ملک کسی اچھے انٹرنیشنل تعلیمی ادارے میں سکالرشپ پر اعلیٰ تعلیم مفت حاصل کرنے کی پیشکش کی جاتی ہے، پاکستان جیسے تھرڈ ورلڈ کنٹری سے لوگ کسی بھی صورت بھاگ جانا چاہتے ہیں لیکن اگر موقع بھی ہو، دستور بھی ہو اور مفت آفر بھی ہو تو کون کافر باز رہتا ہے۔
شاید ریاستِ پاکستان نے ایک ماں ہونے کے ناتے اپنے شہریوں کو کبھی بھی وہ سہولیات یا کم از کم بنیادی ضروریات فراہم نہیں کیں جو کہ مہذب و متمدن معاشروں کا خاصہ ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے باسیوں نے بھی اپنے ملک کے ساتھ وفا کرنے کا پُورا حق ادا نہیں کیا پاکستانی عوام اپنے ملک میں رہتے ہوئے دِل ناداں کو مشرقِ وسطی ، آسٹریلیا، یورپ یا امریکہ اور کینیڈا کی زمینوں سے لگائے بیٹھے ہوتے ہیں، جب تعلیم حاصل کرکے ہنر مند بن جاتے ہیں تو اپنا ٹیلنٹ اور جوانی کسی دوسرے ملک کے اداروں کی خدمات کے لیے خرچ کرنے کے لیے چلے جاتے ہیں اور بڑھاپے میں واپس آکر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ زندگی تو” وہاں“ ہے، یہاں تو صرف بھوک ننگ ہے، افلاس ہے، بدعنوانی ہے اور مکر و فریب کے ڈیرے ہیں اُن کے نزدیک پاکستان میں بہت بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے جبکہ اپنا تبدیلی کا سنہری وقت دوسروں کی جھولی میں ڈال آتے ہیں۔
زیرِ نظر مضمون میں ایک ایسے محبِ وطن شہری (جناب محمد رفیق خلیل) کا تذکرہ کیا جارہا ہے جو اپنے تعلیمی دورانیے میں نہ صرف ٹاپر تھے بلکہ بچپن سے نہایت کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے تھےباوجود اس کے انہوں نے تعلیمی بورڈز کو ٹاپ کیا پھر آفرز کی بھرمار ہوگئی لیکن یہی وہ لمحہ تھا جب وہ مردِ قلندر اپنی خودی نہ بیچ پایا اورخود کو پاکستان کے لیے وقف کردیا، وہ کسی سرکاری ملازمت کرنے کے لیے نہیں گئے مبادا لوگ اُنہیں رشوت خور یا صرف ایک افسر مان لیں یا شاید وہ کسی باس کے احکام کی تعمیل کرنے سے قاصر تھے، بہرحال اُنہوں نے پیغمبرانہ پیشہ اختیار کیا اور چمنِ پاکستان کے نونہالوں کو سینچنے کا فریضہ سرانجام دینے میں جُت گئےایسے مالی کے لیے آمدنی کی نسبت اپنے پودوں کی رکھوالی مقدم ہوتی ہےنہ صرف یہ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایسے بچوں کو بھی اپنے ہی چمن کے پھول مانتے ہیں جو اُن کے زیرِ سایہ تعلیم حاصل نہیں کرتے،یا ایسی بچیاں جو، ان کے گھر میں پیدا نہیں ہوئیں یا جن کا سہارا کسی حادثے کی نذر ہو چکا تھا یا وہ طلباء و طالبات جن کے پاس کالجز کی داخلہ فیس یا کتابوں کے لیے کوئی فنڈز نہ تھے یا وہ لوگ جو ایک اچھی آمدنی کے حامل ہیں لیکن انہیں زندگی کو منظم کرکے گزارنا نہیں آتا، انہیں رہنمائی دینے کے لیے یا دُکھی دلوں کے غم سُننے کے لیے، اپنے سکول کے ننھے مُنّے طلباء کے پاس جا کر پُھلجڑیاں چھوڑنے کے لیے، نوجوانوں کو تربیت دینے کے لیے، مبتدیوں کے لیے اعلیٰ ذہنی آزمائش والی کتابیں لکھنے کے لیے اور دوستوں کو رُوحانیت کی تعلیم سے رُوشناس کرنے کے لیے اس قدر زیادہ وقت کیسے میسر آجاتا ہے یہ ایک پہیلی ہے جس کا راز شاید وہی جانتے ہیں۔
ملک پارک بلال گنج لاہور کے باسی جانتے ہیں کہ ایک ادارہ صُبح کے وقت ”دی نالج ہوم سکول“ بن جاتاہے، دوپہر کو اکیڈمی، شام کو کمپیوٹر سنٹر اور رات کو دُکھی دلوں کی تسکین کی آماجگاہ بن جاتا ہے، اور فلاحی کام کرتے وقت اُسے ”صبح روشن فاؤنڈیشن“ کا صدر دفتر مان لیا جاتا ہے۔ یہ ادارہ آپ کے بچوں کو نہ صرف معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے بلکہ یہاں زیرِ تعلیم طلباء کو زندگی گزارنے کے طور طریقے بھی سکھائے جاتے ہیں اور میٹرک پاس کرنے کے بعد انہیں مستقبل کے لیے بہترین رہنمائی دی جاتی ہے۔ اُن کے پاس نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں مصروفِ عمل ہیں بلکہ طلباء طالبات کے والدین کی مدد کرنے کے لیے انتظامیہ موجود ہے جس کا عملہ انہیں ایسی معلومات تک رسائی حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے جس کی بدولت والدین وہاں اپنائیت اور اخلاص کی فضا محسوس کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر وہ اپنے ادارے کی وہ خوبیاں ضرور بیان کرتے ہیں جو اُنہیں متوازی چلنے والے ”برانڈ سکولز“ سے ممتاز کرتی ہیں، اور اُس کے دستاویزاتی اور عملی ثبوت فراہم کرتے ہیں جس کی بدولت والدین کو یقین دہانی ہو جاتی ہے کہ کیونکر کچھ ناعاقبت اندیش کاروباری افراد، معیاری تعلیم اور سٹیٹس کے نام پر جذباتی اور معاشی طور پر سادہ لوح عوام کا استحصال کر رہے ہیں، لیکن دی نالج ہوم اِن سب ہتھکنڈوں کی آمدنی سے بے نیاز ہو کر اپنے ہی مؤکلین کو ایسے چھپے ہوئے ”سچ“ بتانے میں لیت و لعل یا کوئی عار محسوس نہیں کرتا جس کی وجہ سے ادارے کی آمدنی میں خاصی کمی واقع ہو سکتی ہے، ان حربوں میں سے بعض تو غیر ضروری ہیں اور دیگر حقیقتاً والدین اور طلبہ کے لیے نقصان دہ ہیں۔
دی نالج ہوم گروپ آف سکولزکی چھ شاخیں ہیں، مرکزی ادارہ ملک پارک کے وسط میں عمر سٹریٹ مجاہد روڈ پر واقع ہے لیڈرز کیمپس گیلانی پارک امیر روڈ بلال گنج، فیضِ عالم کیمپس عمر غنی روڈ سنت نگر، ای ڈی ایس کیمپس ہمدرد کالونی شیر شاہ روڈ شاد باغ لاہور اور شاہدرہ میں دو سکولز ہیں جن میں سے ایک پیپلز کالونی فیروزوالا میں سٹی فاؤنڈیشن سکول بوائز کیمپس اور دوسرا رچنا ٹاؤن میں سٹی فاؤنڈیشن سکول گرلز کیمپس ہے ان سب میں ہزاروں طلباء و طالبات علم کی پیاس بجھا رہے ہیں، سکول ہیڈ آفس کا رابطہ نمبر درج ذیل ہے۔03214196841
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں