ہفتہ، 17 اگست، 2019

فی سبیل اللہ فساد۔۔۔ تحریر: عبدالرزاق قادری

میں ایک طویل عرصہ سے کچھ کہنا چھوڑ ہی چکا تھا، آج ایک حضرت صاحب کی ٹائم لائن سے دوسرے اور پھر آگے سے آگے دیکھتا گیا، وہ سارے مولوی صاحبان، علامہ خادم رضوی کی سربراہی میں جہادِ کشمیر لڑرہے تھے اور پاکستانی حکومت و افواج کے خلاف محاذ کھولے بیٹھے تھے، مجھے اعتراف ہے کہ میں بھی حکومت کا ناقد اور کسی حد تک ہمارے نااہل اداروں پر بھی تنقید کرتا ہوں، لیکن میں پاک فوج یا ملکِ پاکستان کا مخالف یا دُشمن ہرگز کبھی نہیں رہا، لیکن ان فی سبیل اللہ فساد والے مولویوں کے طرزِ تخاطب سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ نعوذباللہ شاید نبی کریم ﷺ نے بھی ”دوسروں“ پر قتال محض اپنے اقتدار وغیرہ کے لیے تھا۔ نعوذ باللہ من ذٰلک۔ اِن مولویوں میں سے کتنے لوگ دیانت دار ہیں یہ کون جانتا ہے، ہم تو کسی حد تک اِن کی قبیل سے ہیں، جو کام اِن کے ذمہ ہیں وہ جانے کون کرے گا، جبکہ جو فرائض کسی دوسرے کے ہیں اُن کے متعلق شور مچاتے رہتے ہیں، آج تک مساجد میں دس ہزار روپے تنخواہ تو کروا نہیں پائے (بعض جدید مساجد میں بیس سے پچیس ہزار مل جاتی ہے، لیکن اکثریت کا حصہ بڑے بڑے جثے والے قائدین کھا جاتے ہیں)۔ ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ یہ سارے مولوی اہلِ سنت ہیں، کوئی وہابی یا دیوبندی ٹائپ نہیں، جنہیں کل تک ہم دہشتگرد کہتے تھے کہ وہ ہماری مساجد پر حملے کرنے والوں کا دفاع کرتے تھے، آج یہ اہلِ سنت (بریلوی) بھی خود کو دہشت گرد دہشتگرد قرار دے ہیں۔ انہیں اس بات کا خدشہ کیوں ہے کہ حکومت انہیں دہشتگرد قرار دے گی؟
اگر کوئی ریاست کے خلاف کسی غیر قانونی کارروائی میں متشددانہ ذہنیت کے ساتھ مسلسل ملوث ہوگا تو اُسے ریاست دہشتگرد قرار دے گی، خواہ وہ بریلوی ہو یا پھر شیعہ۔ وہ کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھتا ہوگا تو اُسے بھی اسی زمرے میں رکھا جائے گا۔
اب رہ گئی بات کہ کشمیر میں ظُلم ہو رہا ہے، تو کیا یہ ظلم عمران خان یا پاک فوج کروا رہی ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔
دوسری بات کہ، ہر ذی شعور مسلمان کیا، دُنیا بھر کے سلیم الفطرت انسانوں میں اس ظلم کی کی وجہ سے بے چینی پائی جاتی ہے، جس کا اظہار دُنیا بھر میں کیا جا رہا ہے۔
یہ جاہل مولویوں کا ٹولہ، جہاد، جہاد کہہ رہا ہے۔ کیا کبھی جہاد بند بھی ہوا ہے۔ ان بے خبروں کو یہاں تک معلوم نہیں کہ قتال کی بات کرنی ہے یا جہاد کی! اگر قتال کی بات ہے تو علامہ غلام رسول صاحب سعیدی کا قول برحق ہے کہ اپنی آزادی کے لیے لڑنے والے فریڈم فائٹر ہوتے ہیں، اُنہیں دہشتگرد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن کبھی قتال کی شرائط کا بھی مطالعہ فرمالیں کہ وہ کب شروع کرنا چاہیے، اگر شرائط مکمل ہیں تو پاک فوج اور عمران خان کو آگاہ کریں، آپ نے تو ان شرائط کا مطالعہ کر رکھا ہوگا۔
رہا یہ مسئلہ کہ کیا آج بھارت اس قدر طاقتور ہو چکا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کشمیر میں دندناتا پھرتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ پچھلی سات دہائیوں میں اقوامِ عالم کے سامنے اپنا مدعا رکھنے کے لیے آپ کے سفیروں نے کیا کِیا۔ محض اپنے بچے بیرونِ ملک منتقل کر کے انہیں وہاں کا مستقل رہائشی بنایا! ویسے بہت سے اسلام کے نام لیوا مولویوں نے بھی اسی طرح کی حرکتیں کی ہیں اور پاکستان میں امریکہ شمریکہ کے خلاف جہاد کا درس دیا ہے۔ یہ منافقانہ رویے ہیں۔ پاکستان میں، لاہور میں، کراچی میں، ملتان میں اور دیگر تقریباً تمام علاقوں میں ”مسلمان“ کہلوانے والے بڑے بڑے غنڈے اور درندے عوام الناس کی سانسوں تک، پر حکومت کرتے ہیں اور اُن کا خون پی جاتے ہیں۔ مولویوں نے اُن کے خلاف کیا کِیا۔ سیاسی جماعتوں کے ووٹ انہی غنڈوں کے مرہونِ منت ہوتے ہیں، یہ مولوی لوگ اُن کے ساتھ ایک سٹیج پر جا کر بیٹھتے ہیں اور محافلِ میلاد ہوتی ہیں۔ یہ کس غیرت کی بات کررہے ہیں، جب یہاں لاہور میں (میں اُس وقت ڈاکٹر طاہرالقادری کا ناقد تھا، میرے دوست اس کے گواہ ہیں) جامعہ منہاج القرآن پر گورنمنٹ کے ریاستی دہشتگردوں نے حملہ کیا تو اِن مولویوں نے کیا کیا، میں بتاتا ہوں، 17 اگست 2014ء کو ایک پرویز رشید ہوتا تھا، اُس نے فلسطین کا جھنڈا گلے میں ڈالا تو ڈاکٹر اشرف آصف جلالی نے بھی فلسطین کے حق میں احتجاج کیا، کیا ڈاکٹر صاحب کو لاہور میں بنا ہوا غزہ نظر نہیں آرہا تھا (یاد رہے اُس وقت خادم رضوی گروپ علیحدہ نہیں ہوا تھا، وہ اور جلالی صاحب یک زبان ہوتے تھے)۔
اب دیکھتے ہیں کہ آج خادم صاحب کے ماننے والوں کو ”دہشتگرد“ قرار دئیے جانے کا خدشہ کیوں ہے؟ کیونکہ خادم صاحب کوئی ایک دہائی قبل یعنی تقریباً دس سال پہلے امریکی ایجنسیوں کی پروردہ ”حزب التحریر“ کے ہاتھوں میں کھیل چکے ہیں، یہ دُنیا کی سب سے سخت ترین خوارجی جماعت ہے، یہ داعش سے بھی چار قدم آگے کی چیز ہے، لہٰذا میں اپنے تجزیے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ خادم صاحب ایک خوارجی گروہ کے نمائندہ بن چکے ہیں، اب اگر ان کے ماننے والے مسلمانوں ہی کو کافر قرار دے کر قتل کرنا جائز قرار دے دیں تو کچھ حیرت کی بات نہ ہوگی۔16 اگست 2019ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں