جمعہ، 31 اگست، 2018

گیرٹ وائلڈرز نے گستاخانہ کارٹون کا مقابلہ کینسل کر دیا

گیرٹ وائلڈرز، ہالینڈ میں ایک اسلام مخالف اپوزیشن لیڈر نے نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ کارٹونز کا مقابلہ منعقد کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں احتجاج پھوٹ پڑے تھے
یہ انتہا پسند سیاستدان، جو کہ مہاجرین اور اسلام کے خلاف اپنی اشتعال انگیز تقاریر کی وجہ سے مشہور ہے اس نے جمعرات کے روز کہا ہے کہ وہ نومبر میں اپنے منصوبے کے مطابق اس مقابلے کے انعقاد کی وجہ سے دیگر خطرات سے دوچار نہیں ہونا چاہتا۔
اس نے ایک تحریری بیان میں موت کی دھمکیوں کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”اسلامی تشدد سے متاثر ہونے کے ڈر سے میں نے کارٹون مقابلہ نہ کرانے کا فیصلہ کیا ہے“۔
اس طے شدہ مقابلے کی خبروں نے پاکستان میں شدید غم و غصے والے احتجاج کو جنم دیا ہے اور رواں ہفتے میں ایک چھبیس سالہ مبینہ پاکستانی نوجوان کی طرف سے موت کی دھمکی دی جانے کی بنا پر اسے منگل کو ہیگ میں گرفتار کر لیا گیا ہے
اس سے پہلے جمعرات کو ایک ولندیزی جج نے اس ملزم کی حراست میں توسیع کر دی تھی جو مبینہ طور پر گیرٹ وائلڈرز پر حملہ کرنا چاہتا تھا
پراسیکیوٹر نے ایک بیان میں کہا کہ ایک تفتیشی جج نے ملزم کو زیرِ حراست رکھنے کا حکم دیا ہے تاکہ اس دوران میں اس پر دھمکی دینے، قتل کی تیاری کرنے اور اُکسانے کی تفتیش کی جا سکے
ایک سیاسی سائنسدان ٹیجن وان کیسل نے الجزیرہ کو بتایا کہ وائلڈرز کی جانب سےاس مقابلے کے انعقاد کا مقصد محض اپنی کم ہوتی ہوئی عوامی مقبولیت کے باعث، میڈیا کی توجہ حاصل کرنا تھا
کیسل کا کہنا تھا کہ ”وہ اس کارٹونسٹ مقابلے میں سنجیدہ نہیں تھا لیکن اس ذریعے سے اس نے میڈیا کی توجہ حاصل کر لی؛ اور اسے امید ہے کہ بالآخر وہ اس کے بدلے ووٹ حاصل کرلے گا“۔
اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی تشبیہ یا تصویر وغیرہ پیش کرنا منع ہے اور مسلمانوں کے لیے گہرے دکھ کا باعث بنتا ہے
پاکستان میں وائلڈرز کے منصوبے پر ردعمل کے طور پر ہزاروں لوگوں نے جمعرات کو دارالحکومت اسلام آباد کی طرف مارچ کیا ہے
تحریکِ لبیک پاکستان نے بُدھ کے روز ایک لاکھ حامیوں نے حکومت کو نیدرلینڈز کے ساتھ سفارتی تعلقات کو ختم کرنے کے لیے زور دینے کے لیے ایک مارچ کیا تھا۔
پاکستان کی حکومت نے اس مقابلے کے خلاف اقوامِ متحدہ میں احتجاج کرنے کا عندیہ دیا تھا
ولندیزی حکومت کو خود کو اس کارٹون مقابلے سے علیحدہ کر لیا ہے،  وزیر اعظم مارک روٹ  نے واضح کیا ہے کہ اپوزیشن  جماعت فریڈم پارٹی کا لیڈر گیرٹ وائلڈرز  حکومت  کا حصہ نہیں ہے۔
وائلڈرز نے جون میں اس مقابلے کے انعقاد کا اعلان کیا تھا جس کے لیے 200 اینٹریز ہوئی تھیں اور جیتنے والے کو نقدی کے انعام بھی ملنا تھا۔
رپورٹ: الجزیرہ، ترجمہ: عبدالرزاق قادری

Surah Fatir verse no 37

And they shall be screaming in it; “Our Lord! Extricate us, so that we may do good deeds, the opposite of what we used to do”; (It will be said to them) “And did We not give you an age long enough, in which anyone who wants to understand would have understood? And the Herald of Warning did come to you; therefore now taste it – for the unjust do not have any supporter.” 

Surah Fatir verse no 37

And they shall be screaming in it; “Our Lord! Extricate us, so that we may do good deeds, the opposite of what we used to do”; (It will be said to them) “And did We not give you an age long enough, in which anyone who wants to understand would have understood? And the Herald of Warning did come to you; therefore now taste it – for the unjust do not have any supporter.” 

جمعرات، 30 اگست، 2018

فیضان عباس نقوی --- لاہور کا کھوجی

تحریر: عبدالرزاق قادری
اگست 24، 2017ء
کچھ لوگوں کی متنوع مصروفیات اور تخلیقات دیکھ کر انسان انگشت بدنداں رہ جاتا ہے اور یہ تسلیم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ واقعی ایک آدمی اس قدر مختلف شعبوں میں کثیر اثاثہ چھوڑ سکتا ہے تاریخ اور مذہب دو علیحدہ علیحدہ موضوعات ہیں پھر ایک سے زائد مذاہب اور تواریخ ذیلی شاخیں ہیں تہذیب و تمدن، ثقافت، زبان اور تحقیقات بھی بظاہر اپنی اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں تاہم ان کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن انتہائی قلیل عرصے میں اور نوجوانی کی عمر میں ان ادق موضوعات پر مغز ماری کرنے کی کسے فرصت ہے کیونکہ یہ عمر کا وہ حصہ ہے جس میں لوگ آئیڈلزم کا شکار ہوتے ہیں اور اپنی زندگی کو سنوارنے اور حصولِ روزگار کے لئے مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں
اس سب کے باوجود ایسے محنتی اور جفاکش لوگوں سے ابھی زمانہ خالی نہیں ہوا جو ہمہ وقت کسی کھوج میں سرگرداں رہتے ہیں اور تحقیقات کی دُنیا میں مگن رہتے ہیں ساتھ ساتھ غمِ روزگار کو بھی نبھاتے چلے جاتے ہیں فیضان عباس نقوی المعروف "لاہور کا کھوجی" بھی ایسے ہی باکمال لوگوں میں سے ایک ہے
اُن سے پہلا تعارف ماہنامہ نوائے منزل لاہور کے دفتر میں ہوا نجانے کامران اختر اُنہیں کہاں سے ڈھونڈ کر لائے تھے تب سے اُن کے ساتھ ہیلو ہائے ہے پہلے پہل تو انہوں نے مجھے ایک مولوی سمجھا اور قدرے فاصلہ قائم رکھا مجھے بھی تحفظات تھے کہ دوسرے فرقے کا بندہ ہے جانے کیسے اخلاق کا مالک ہوگا لیکن اس پانچ سال کی مدت میں نوائے منزل کی ٹیم میں مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد میں کبھی باہمی بد کلامی در نہیں آئی بلکہ کھوجی صاحب سے قبل بھی اس ادارے میں کئی نظریات کے حامل لوگ تھے پھر بھی معاملات خوش اسلوبی سے طے پاتے رہے، بہرحال بات ہو رہی تھی فیضان کھوجی کی! تو میں اس کثیر الجہت محقق کی کھوج پر ورطہ حیرت میں گم ہوں کہ یہ کیسے اتنے دور دراز علاقوں کے اسفار کرکے مسجدوں، مزاروں، مندروں ، گردواروں اور تاریخی عمارات کو ڈھونڈ نکالتے ہیں کسی تعلیمی ادارے میں تدریسی فرائض سرانجام دیتے ہیں اور کیمرہ پکڑ کر سیر کے لیے بھی نکل پڑتے ہیں
پھر قلم کا سہارا لیتے ہیں اور تحقیق کر کے کتابیں لکھنے بیٹھ جاتے ہیں کئی میگزین میں بھی مضامین شایع کرتے ہیں اور بعض کی ادارت بھی سنبھالے ہوئے ہیں لاہور شناسی فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام پمفلٹ، پوسٹر شایع اور مظاہرے بھی کرتے ہیں میں ذاتی طور پر ان کی سرگرمیوں کی تعداد اور رفتار سے حیران ہوں انہوں نے فقہ جعفریہ کے کئی اکابرین پر کتابچے چھاپنے کے علاوہ گزشتہ برس سکھوں کے اکابرین پر بھی ایک کتاب لکھی  تھی جس کا عنوان "لاہور میں گرو ارجن دیو جی یادگاروں" تھا اس کتاب کا کینیڈا میں انگریزی اور بھارتی پنجاب میں گرومکھی زبان ترجمہ ہو رہا ہے گزشتہ دنوں انہیں بھارت کی کسی ادبی تنظیم نے گولڈ میڈل سے بھی نوازا ہے
کبھی کبھی مجلہ لاہور شناسی چھاپ کر لے آتے ہیں اور انہوں نے گزشتہ تین سال سے ماہنامہ نوائے منزل کی ادارت سنبھال رکھی ہے اس سے پہلے کامران نے مجھے حکم دیا تھا جبکہ میں اس ذمہ داری کو نبھانے سے بوجوہ قاصر تھا تو پھر کھوجی صاحب ہی اس لیے سب سے بہترین انتخاب تھے اور انہوں نے اسے نہایت تندہی سے سر انجام دیا ہے، بلکہ ان کی ادارت میں قارئین نے رسالے کو پہلے سے زیادہ پسند کیا ہے مزید سراہا ہے
اس برس جب جنوری میں کامران صاحب آئے تھے تو کھوجی صاحب کے تعاون سے ادارہ ہست و نیست میں نہایت تزک و احتشام سے تقسیمِ ایوارڈز کی تقریب منعقد کی، یہ ایک کامیاب پروگرام تھا جس کی ترتیب اور ماحول سے میں بذاتِ خود متاثر ہوا
ایک بار اُنہوں نے نوائے منزل کو چھاپنے کے پراسیس کو بیان کرتے ہوئے درج ذیل کلمات ارشاد فرمائے،
”سب سے پہلے موجودہ ماہ کی مناسبت سے مضامین کی فراہمی کرنا۔ سب مضامین جمع کرنا اور کچھ مضامین کی کمپوزنگ کروانا، پھر ان کی غلطیاں خود لگانا، ان کو قابل اشاعت بنانے کے لئے املاء کو درست کرنا اور ان سے متعلقہ تصاویر جمع کرنا۔ اس کے بعد تمام مسودے کو ایک جگہ جمع کر کے تیار کرنا، کسی خاص شخصیت کا انٹرویو کرنے کے لیے ٹائم لینا اور وقت مقررہ پر پہنچ کر انٹرویو کرنا اور پھر ایک ایک جملہ سن کر لکھنا اور پھر اس کی کمپوزنگ کرنا۔ اسی طرح ہر مضمون کے ساتھ متعلقہ تصاویر۔ اس کے بعد ڈیزائنر سے وقت لیکر کاپی جڑوانے کا مرحلہ کم از کم 3 دن میں طے ہوتا ہے۔ تین دن کا آنا جانا وقت دینا وہ بھی اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں سے، سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا۔ پھر ٹریسنگ کا حصول اور پیسٹنگ کا مرحلہ اور پھر پلیٹیں لگوانا، کاغذ کی خریداری اور پرنٹنگ پریس تک سب کچھ پہنچانا اور 3 دن بعد اخبار کے بنڈل اٹھانا اور اس کو پوسٹ میں بھیجنے کا تکلیف دہ مرحلہ، ایڈریس لگانا، اخبار کو پیک کرنا اور ڈاک کے حوالے کرنا ایک طویل سفر ہیں جو ہر ماہ بنا کسی معاوضے یا کسی عہدے کی طلب سے کرنا ہوتا ہے۔ “
یہ وہ مراحل یا ذمہ داریاں ہیں جو فیضان صاحب ہر ماہ ماہنامہ نوائے منزل کے لئے نبھاتے ہیں دیگر تمام اراکین گھر بیٹھے اس کا مطالعہ کرنے کا لُطف اٹھاتے ہیں مُجھے ورطۂ حیرت میں ڈالنے کے یہی کافی تھا لیکن اس کے علاوہ مختلف شعبہ جات میں ان کی جو مصروفیات ہیں وہ قابلِ تحسین ہیں خصوصاً مختلف شہروں سے کئی یونیورسٹیز کے طلباء و طالبات آثارِ قدیمہ اور تاریخی تحقیقات میں فیضان صاحب سے رہنمائی لیتے ہیں اور ایم۔اے یا ایم۔فِل وغیرہ کے لیے اپنے مقالہ جات ترتیب دیتے ہیں اور اس میں بھی اہم بات یہ کہ کھوجی صاحب یہ فریضہ بھی صرف ایک کارِ خیر سمجھ کر ادا کر رہے ہیں جبکہ ان طلباء سے کوئی فیس وغیرہ نہیں لیتے۔
میں اپنے مضمون کے آخر میں کامران صاحب کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں کہ اُنہیں اس قدر مخلص اور محنتی دوست میسر آیا ہے جس نے کبھی اراکین اور قارئین کو چیف ایڈیٹر کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا اور اپنے ساتھی لکھاریوں اور نوائے منزل کے قارئین سے بھی التماس کرتا ہوں کہ ایسے بے لوث محسنوں کی قدر فرمائیں۔
٭ نوٹ: یہ تحریر ایک سال قبل لکھی گئی لیکن کھوجی صاحب نے اسے نوائے منزل میں نہیں چھاپا، گزشتہ روز ان کی کتاب ”نواب وزیر خان اور ان کی یادگاریں“ کی تقریبِ رونمائی میں دوستوں کو اظہارِ خیال کا موقع ملا اور پھر بعد ظفر علی راجہ نے نوائے وقت میں ان کے متعلق ایک آرٹیکل لکھ مارا، میں نے سوچا کہ میں بھی یہ پرانی تحریر یہاں شائع کر دوں۔

Surah Al-i-Imran verse no 103

 And hold fast to the rope of Allah, all of you together, and do not be divided; and remember Allah’s favour on you, that when there was enmity between you, He created affection between your hearts, so due to His grace you became like brothers to each other; and you were on the edge of a pit of fire (hell), so He saved you from it; this is how Allah explains His verses to you, so that you may be guided.

Surah Al-i-Imran verse no 103

 And hold fast to the rope of Allah, all of you together, and do not be divided; and remember Allah’s favour on you, that when there was enmity between you, He created affection between your hearts, so due to His grace you became like brothers to each other; and you were on the edge of a pit of fire (hell), so He saved you from it; this is how Allah explains His verses to you, so that you may be guided.

پیر، 27 اگست، 2018

قومی رہنمائی کے ”نظریات“ عبدالرزاق قادری

      

ہمارے دوست ملک تحسین حیات جو کہ جھنگ کے نواحی شہر اٹھارہ ہزاری سے تعلق رکھتے ہیں گزشتہ روز میرے پاس تشریف لائے اور اپنے ہمراہ ایک کتاب لائے  یہ کتاب کیا ہے اور اس کے مندرجات کیا ہیں اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے، میں چاہوں گا کہ اس سے پہلے ملک صاحب کا تعارف کرا دوں، تحسین صاحب 2013ء کے دسمبر میں لاہور تشریف لائے تو داتا دربار سے باہر ان کی ملاقات زید مصطفیٰ سے ہو گئی اور فروری 2014ء میں زید نے مجھے کال کر کے بتایا کہ ایک صاحب آئیں گے ان سے ملاقات کر لینا، میں نے پہلی ملاقات میں ملک تحسین کو چائے پلائی اور اپنے ایک مضمون کی کاپیاں اور ایک کتاب ”الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں “انہیں دے دی،  پھر گاہے گاہے ملاقات ہوتی رہی اور انہیں لاہور میں ایک پرائیویٹ فرم میں کام مل گیا وہ ایک سال سے زائد عرصہ لاہور میں  رہے اور اکثر داتا دربار حاضری دیتے رہے اس دوران میں وہ میرے تقریباً تمام دوستوں سے بھی ملے اور ماہنامہ نوائے منزل لاہور میں کے لیے کچھ مضامین بھی لکھتے رہے۔ ان کے مشاغل میں کتابیں خرید کر یا مفت تقسیم ہونے والی کتابیں حاصل کر کے اپنے علاقے کے عوام الناس تک بانٹنے کا شوق شامل ہے، وہ اپنےشہر میں کئی مذہبی تقاریب منعقد کرتے رہتے ہیں اور انجمن طلباء اسلام کے ذمہ دار بھی رہ چکے ہیں گزشتہ برس (2017ء) میں وہ سٹیٹ یوتھ پارلیمنٹ کے ضلعی صدر منتخب ہوگئے اور اب اس کے ایک فعال کارکن بھی ہیں اور وسیع حلقہ احباب رکھتے ہیں ان کی یہی لگن  انہیں لاہور، راولپنڈی ، سرگودھا اور دیگر شہروں میں سیر و تفریح کرنے کے لیے لے جاتی ہے لہٰذا وہ اپنے دوستوں کو کتب کے تحفے پیش کرتے رہتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ان کی حالیہ پیش کردہ کتاب کے مصنف کون ہیں اور اس کتاب کے مندرجات کیا ہیں اور وہ کیا محرکات تھے کہ جن کی بدولت مصنف نے ایک کتاب کو لکھا اور مجھے اس کے تعارف کے لیے یہ تحریر لکھنا پڑی۔
 


         جنابِ شہیر سیالوی جن کا آج کل اخبارات، سوشل میڈیا اور ٹی وی پر چرچا ہے ایک طالبعلم رہنما ہیں انہوں نے اپنے تعلیمی دور میں نوجوان طلباء میں اسلامی روح کو کم ہوتے دیکھا اور محسوس کیا کہ اگر اس امت کے نوجوانوں میں بقولِ اقبال ”روحِ محمد ی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم“ نکال دی گئی تو  پھر یہ چلتے پھرتے مسلمان تو ہوں گے لیکن نظریات سے خالی ہوں گے جیسا کہ متحدہ ہندوستان پر جب ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے قدم گاڑھ چکی تھی تو انہوں نے مقامی لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے جو اقدامات کیے تھے ان میں سے ایک  تعلیمی مشن لارڈ میکالے لے کر آیا، اس نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ اس نطامِ تعلیم سے تربیت پانے کے بعد ہندوستانی لوگوں کا خون اور جسم تو  مقامی ہوگا لیکن اس میں سوچ فرنگی ہوگی اور وہ انگریزوں کی سوچتے ہوں گے پھر چشم فلک نے دیکھا کہ مغربی طرز کی تعلیم نے برِصغیر کے مسلمانوں کو محض پینٹ کوٹ والے بابو بنا دیا، لیکن اسی سر زمین میں سے چند رہنما پیدا ہوئے  جنہوں نے پھر سے اس قوم کو اپنی آزادی حاصل کرنے  کی جدوجہد میں مصروف کر دیا اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر دنیا اسلام کی اس وقت کی سب کی بڑی مملکت خداداد کو قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
             یہ رہنما کون تھے ان کے متعلق ہمارے طلباء اپنے تعلیمی نصاب میں بہت کچھ پڑھ آئے ہیں لیکن ہمارے کچھ ہیروز اور قائدین ایسے بھی تھے جن سے یہ قوم ناآشنا ہے یا شاید صرف نام کی حد تک متعارف ہے  قوم کی اس محرومی کو دور کرنے لیے اس جواں سال قائد نے جہاں کالجز اور یونیورسٹیز میں سیمینارز کرائے وہاں انہی نظریات کی بقا اور حفاظت کے لیے سڑکوں  پر ریلیاں بھی نکالیں اور اپنی ایک جماعت سٹیٹ یوتھ پارلیمنٹ کا قیام عمل میں لے کر آئے، پھر اسی خونِ مسلم کوگرمانے کے لیے اور ان کی نظریاتی بنیاد کومضبوط کرنے کے لیے ایک  کتاب تصنیف کی ہے جس کا عنوان ”نطریات“ رکھا ہے اوراسے تعلیمی اداروں میں مفت تقسیم کرنے کا شرف حاصل کیا ہے ایک سو صفحات پر محیط یہ کتاب تاریخِ اسلام کے ہیروز کی صحیح معنوں میں نمائندگی کرتی ہے اور طلباء کے اذہان کو اسلامی ہیروز کی تاریخ سے روشناس کرتی ہے اور ساتھ ساتھ ان کے قلوب کو معطر و منور کرتی ہے۔پیش لفظ میں شہیر سیالوی نے اپنے ساتھ چلنے والے ابتدائی نوجوان طلباء کو یاد رکھا ہے اور ان کا شکریہ ادا کیا ہے اس کے علاوہ نظریہ کی تعریف اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے روشن پہلوؤں کو اپنی تصنیف کے آغاز میں جگہ دی ہے۔ خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سوانح عمریاں لکھنے کے بعد حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال، حضرت داتا علی ہجویری، خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کو بیان کیا ہے۔ غازیانِ اسلام میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، طارق بن زیاد، محمد بن قاسم، نورالدین زنگی، سلطان صلاح الدین ایوبی، سلطان محمود غزنوی کے علاوہ ٹیپوسلطان کے تذکرے موجود ہیں جو خوابیدہ قومِ مسلم کو ان کے تابناک ماضی کے جوانمردوں کے حوصلے اور عظیم کارناموں سے شناسا کرتے ہیں۔ اس کتاب میں ایک اہم موضوع گستاخِ رسول اور اس کی سزا پر بھی مفصل گفتگو کی گئی ہے، جس میں صحابہ کرام اور اہلِ بیت عظام رضی اللہ عنہم کے دیگر کئی واقعات بھی موجود ہیں اور اسلامی عدالتی نظام کی جھلکیاں نظر آتی ہیں ۔ کتاب کے آخر میں فلسطین و کشمیر اور قیام پاکستان پر روشنی ڈالی گئی ہے،  اور ہمارے تعلیمی نظام اور بچوں کی تربیت پر سیر حاصل بحث بھی شامل ہے۔

         کتاب کے اختتامیہ میں لکھتے ہیں کہ

         ” مجھے اس بات کا خوف ہے کہ کہیں اس خام مال (نوجوان نسل) کو سیاسی جماعتیں اپنے مفادات اور مقاصد کے لیے استعمال نہ کریں، قائد اعظم نےنوجوانوں کو نصیحت کی تھی کہ وہ کسی سیاسی جماعت کا آلہ ٔ کار بننے کی بجائے ریاست کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہیں، اس لیے ہمیں سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو اندھا دھند فالو نہیں کرنا ہے“
         یہ کتاب کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباء و طالبات کے لیے ایک بیش بہا تحفہ ہے جو قیمتاً بھی میسر ہو تو ضرور لے لینا چاہیے بہرحال اس کتاب کو مفت حاصل کرنے کے لیے تعلیمی ادارے سٹیٹ یوتھ پارلیمنٹ کی انتظامیہ سے رابطہ کر سکتے ہیں، دُعا ہے کہ اللہ عزوجل جنابِ شہیر کو دین و دُنیا کی برکتوں سے مالا مال فرمائے اور امت مسلمہ کی صحیح معنوں میں رہنمائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے وہ اپنے نیک عزائم کو ہمیشہ ساتھ لے کر چلتے رہیں اور قوم ان کی رہنمائی میں ترقی کی منازل طے کرتی رہے۔ آمین

جمعرات، 16 اگست، 2018

Surah At-Tahrim verse no 8

O People who Believe! Incline towards Allah in a repentance that becomes a guidance for the future; it is likely that your Lord will relieve you of your sins and admit you into Gardens beneath which rivers flow – on the day when Allah will not humble the Prophet and the believers along with him; their light will be running ahead of them and on their right; they will say, “Our Lord! Perfect our light for us, and forgive us; indeed You are Able to do all things.” 

Surah At-Tahrim verse no 8

O People who Believe! Incline towards Allah in a repentance that becomes a guidance for the future; it is likely that your Lord will relieve you of your sins and admit you into Gardens beneath which rivers flow – on the day when Allah will not humble the Prophet and the believers along with him; their light will be running ahead of them and on their right; they will say, “Our Lord! Perfect our light for us, and forgive us; indeed You are Able to do all things.” 

پیر، 13 اگست، 2018

Surah Al-Kahf verse no 17

And O dear Prophet (Mohammed – peace and blessings be upon him) you will see the sun that when it rises it shifts away to the right of their cave, and when it sets it shifts away to their left, and they are in the open ground of that cave; this is from among the signs of Allah; whomever Allah guides – only he is therefore guided; and whomever He sends astray – you will never find for him a friend who guides.

Surah Al-Kahf verse no 17

And O dear Prophet (Mohammed – peace and blessings be upon him) you will see the sun that when it rises it shifts away to the right of their cave, and when it sets it shifts away to their left, and they are in the open ground of that cave; this is from among the signs of Allah; whomever Allah guides – only he is therefore guided; and whomever He sends astray – you will never find for him a friend who guides.

جمعرات، 9 اگست، 2018

Surah Al-Kahf verse no 13,14

We shall narrate their account to you accurately; they were young men who believed in their Lord, and We increased the guidance for them. And We made their hearts steadfast when they stood up and said, “Our Lord is the Lord of the heavens and the earth – we shall not worship any other deity except Him – if it were, we have then said something excessive.” 

Surah Al-Kahf verse no 13,14

We shall narrate their account to you accurately; they were young men who believed in their Lord, and We increased the guidance for them. And We made their hearts steadfast when they stood up and said, “Our Lord is the Lord of the heavens and the earth – we shall not worship any other deity except Him – if it were, we have then said something excessive.” 

منگل، 7 اگست، 2018

Surah As-Sajda verse no 18-20

 So will the believer ever be equal to the one who is lawless? They are not equal! . Those who accepted faith and did good deeds – for them are the Gardens of (everlasting) stay; a welcome in return for what they did.And those who are lawless – their destination is the fire; whenever they wish to come out of it, they will be returned into it, and it will be said to them, “Taste the punishment of the fire you used to deny!

Surah As-Sajda verse no 18-20

 So will the believer ever be equal to the one who is lawless? They are not equal! . Those who accepted faith and did good deeds – for them are the Gardens of (everlasting) stay; a welcome in return for what they did.And those who are lawless – their destination is the fire; whenever they wish to come out of it, they will be returned into it, and it will be said to them, “Taste the punishment of the fire you used to deny!

پیر، 6 اگست، 2018

Surah An-Naml verse no 62

Or He Who answers the prayer of the helpless when he invokes Him and removes the evil, and makes you inheritors of the earth? Is there a God along with Allah?! Very little do they ponder!

Surah An-Naml verse no 62

Or He Who answers the prayer of the helpless when he invokes Him and removes the evil, and makes you inheritors of the earth? Is there a God along with Allah?! Very little do they ponder!

جمعرات، 2 اگست، 2018

Surah Ar-Ra'd verse no 14

Only the prayer to Him is truthful; and whomever they pray to besides Him, do not hear them at all, but like one who has his hands outstretched towards water that it may come into his mouth, and it will never come; and every prayer of the disbelievers remains wandering. 

Surah Ar-Ra'd verse no 14

Only the prayer to Him is truthful; and whomever they pray to besides Him, do not hear them at all, but like one who has his hands outstretched towards water that it may come into his mouth, and it will never come; and every prayer of the disbelievers remains wandering.