اتوار، 31 دسمبر، 2017

نعیم قیصر کا ایک اور اعزاز ۔۔۔ تین تعلیمی نسلوں کی کہانی

یہ تصویر سوشل میڈیا پر دوسری بار اپلوڈ کی جا رہی ہے، کیونکہ یہ محض ایک تصویر نہیں ہے اسے 22 مارچ 2015ء کے روز بنایا گیا بائیں جانب نمبر 1 دائرے والے سر نعیم قیصر، درمیانی دوسرے دائرے میں عبدالرزاق اور نیچے تیسرے دائرے میں نوید ہے۔ سن 2005ء کے دسمبر اور 2006ء کے جنوری میں مُجھے سر نعیم نے دسویں جماعت کی ریاضی کے کچھ بنیادی کُلیے سمجھائے (حالانکہ نویں جماعت کی ریاضی کو بھی میں 44/75 کی نسبت سے پاس کرچکا تھا لیکن اُس کا زیادہ انحصار یاداشت پر تھا، البتہ اُس میں مثلث شاید میں درست کھینچ آیا تھا اور اس کا عمل بھی صحیح لکھا تھا ضلع وہاڑی کے اڈا غلام حُسین کے اُستاد ساجد صاحب نے جیومیٹری کے نقشے کھینچنا سکھا دئیے تھے)، گیارھویں جماعت سے میں نے ریاضی نہ پڑھی لیکن کُلیے یاد رکھے۔ بی اے کے بعد نوید کو سن 2010ء میں ریاضی کے بنیادی تصورات سکھا دئیے تب وہ ساتویں جماعت کا طالبعلم تھا، وہاں اس کے ساتھ میں نے ایک اور انداز اپنایا کہ جو سبق اگلے روز سکول میں متوقع ہوتا وہ سمجھا کر بھیج دیتا نوید نے اپنی کلاس میں ہاتھ کھڑا کرنا شروع کر دیا کیونکہ کل کا سیکھا ہوا سبق آج سکول میں اُس کے لیے دوہرائی کی حیثیت رکھتا تھا یوں اس کا اعتماد بلند ہوتا چلا گیا، آٹھویں، نویں اور دسویں جماعت میں بھی وہ اسی ریاضی کے اعتماد کے ذریعے آگے بڑھتا چلا گیا انگریزی بھی ہلکی پھلکی میں نے سکھائی تھی وہ بھی کام آگئی اور سائنس مضامین کو وہ خود محنت کرکے پاس کرتا گیا۔
گیارھویں کے لیے میں نے اُسے شرقپور میں واقع پنجاب کالج میں سر نعیم کے پاس بھیجا لیکن وہ لاہور میں پنجاب کالج کی مرکزی شاخ میں داخل ہوگیا، وہاں زیادہ فیس نوید کے والدین نے جُوں تُوں کرکے بھر لی لیکن وہ شام کی شفٹ میں پڑھتا رہا شام کو جوائن کرنے کی وجہ بھی فیس کی کمی تھی، بہرحال جب وہ تیرھویں چودھویں جماعت کے لیے پنجاب کالج میں گیا تو میرے جیسے ”عقلمندوں“ کی نظر میں یہ فضول خرچی تھی لیکن آج وہ چودھویں جماعت کا طالب علم ہے بی۔ایس۔سی ڈبل میتھ اس کا میدان ہے، آپ میں سے اکثر کو یاد ہوگا کہ دسویں جماعت میں طلباء کہتے نظر آتے ہیں کہ کیا ریاضی کے بغیر میٹرک ممکن نہیں ہے؟ یا وہ کہتے ہیں کہ جس نے ریاضی بنائی تھی وہ میرے سامنے آئے تو میں اُسے۔۔۔۔۔۔
لیکن آج ریاضی نوید کی ذات کا حصہ بن چُکی ہے اور وہ اس سے لطف اندوز ہوتا ہے مسلسل کئی گھنٹے بیٹھ رہنا اور لکھتے رہنا اس کا مشغلہ بن چکا ہے
پھر اچانک کہانی میں ایک نیا موڑ آتا ہے
نوید کا ایک ہم جماعت اور دوست اپنے والد سے کہتا ہے
کہ
اباجی! نوید کو میرا ٹیوٹر مقرر کر دیں، مُجھے اُسی سے ریاضی سمجھنا ہے
آج الحمداللہ! وہ ننھا پودا شجرِ بارآور بن چکا ہے اور اپنا سبق ہی اپنے ہم جماعت کو پڑھا کر اپنی بوڑھی ماں کی بھری ہوئی فیس واپس کما کر لا رہا ہے۔
اس کامیابی کا کریڈٹ نوید کے پختہ یقین، محنت، سچی لگن، اس کی والدہ کی نگہبانی کو جاتا ہے
اور سر نعیم قیصر کی ذات کے لیے ”شکریہ“ ایک چھوٹا لفظ ہے۔
٭نوید اینجلز اکیڈمی راوی روڈ میں نعیم صاحب کا ڈائریکٹ شاگرد بھی رہ چکا ہے:)

منگل، 26 دسمبر، 2017

نوائے منزلیوں کی ایک ملاقات

کامران صاحب کی ایک روٹین بن گئی ہے کہ وہ لاہور کا ہفتہ وار دورہ کرتے ہیں جمعے کی رات کو یہاں آتے ہیں اور اتوار کی رات کو واپس ہو لیتے ہیں اس ویک اینڈ پر بھی وہ تشریف لائے تو ہفتے کے روز اُن کے ساتھ ملاقات نہ ہو پائی، لیکن اتوار کو انہوں نے ایک دوبار کال کرکے یاد کیا تو میں بھی بھاگم بھاگ بتائے گئے پتے پر مون مارکیٹ جا پہنچا
 
عمران جھجھ
رات کے نو کا وقت رہا ہوگا۔ مُجھے بتایا گیا کہ شیخ ہوٹل پہنچو! تلاش کرتے ہوئے میں نے کیمرہ بھی چالو کر لیا اچانک ایک جانب سے آواز آئی تو عمران جھجھ شیخ ہوٹل سے نکل رہے تھے جھٹ سے اُن کی تصویر بنا لی جس میں وہ کافی چمک رہے ہیں۔
چوہدری عبدالرحمان
ہوٹل کے اندر کامران کے بالمقابل چوہدری عبدالرحمان تشریف فرما تھے، لیکن بخار سے دہک رہے تھے جس کے آثار چہرے پر نمایاں ہیں۔
کامران اختر

کامران صاحب اپنے دیرینہ دوست پراٹھے کے ساتھ ”انصاف“ فرما رہے تھے پھر اُن کے مسکراتے چہرے کی ایک تصویر بنائی، چائے اور باتوں کا دور چلتا رہا
دائیں فیضان، بائیں کامران
 
دائیں سے عبدالرزاق، فیضان، کامران
بائیں عمران جھجھ اور چوہدری عبدالرحمان
پھر فیضان عباس کھوجی صاحب محترم امان عمران کے ہمراہ تشریف لائے بائک سے اترنے کے فوراً بعد اُن دونوں کی ایک تصویر بنانا چاہی لیکن امان عمران صاحب مجھے کوئی غیر متعلقہ کیمرہ مین سمجھے اور تصویر میں واضح نہ آئے (وہ تصویر یہاں شیئر نہیں کی جارہی)۔

فیضان نے بتایا کہ امان عمران صاحب لٹریچر میں دلچسپی رکھتے ہیں گپ شپ کے بعد میں نے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کیا اور پھر چوہدری صاحب اپنی طبیعت کی ناسازی کے باوجود بائک کے ذریعے مجھے گھر تک چھوڑ کر گئے

جمعہ، 1 دسمبر، 2017

Baba Rafiq Qadri reciting naat - Wah kya jood o karam hai


واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا ۔ کلام الامامِ امام الکلام
بابا جی رفیق قادری کی آواز میں درد ہے جس سے کلام کی چاشنی دوگنا ہوگئی، کلامِ اعلیٰ حضرت کا اپنا ایک سُرور ہوتا ہے، اس آواز میں یوں سُنائی دیتا ہے جیسے اِسی لہجے اور اُتار چڑھاؤ میں پڑھا جانا چاہیے تھا۔