منگل، 26 ستمبر، 2017

کینولہ، کسان اور زراعت

===== کینولہ کانفرنس =====
آج وہاڑی میں کینولہ کی کاشت آگاہی کی کانفرنس ہےجو اب تک تھی کا درجہ حاصل کر چکی ہوگی، بہت سے کسان اپنے خرچے پر آئے ہونگےکافی باتیں کی گئی ہوں گی ، پنجاب کے وزیرِ زراعت بھی موجود ہونگے اور زراعت کا عملہ بھی موجود ہوگا، چادر یعنی مجھلی والے کسان پچھلی نشستوں پر ہونگے ، شلوار قمیض والے کسان ان سے اگلی صف پر ہونگے ، ان سے آگے ڈیلر صاحبان تشریف فرما ہونگے ، اگلی صف پر ویسٹ کوٹ پہنے لوگ بیٹھے ہونگے اور سٹیج پینٹ کوٹ والے لوگوں کی جلوہ گاہ ہوگا۔ مجھے دعوت تھی کہ میں کینولا کے بارے میں کسانوں کو آگاہ کروں ، اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو کینولہ کے ابتدائی کاشت کاروں میں سے میں ایک کاشت کار ہوں جس نے طریقہ کاشت تک کمپنی کو سمجھایا جس سے کینولہ کی فی ایکڑ پیداوار بڑھائی جا سکتی ہےابتدائی دنوں میں آئی سی آئی کے فیلڈ ماہرین نے کینولہ کو کھیلوں پر کاشت کرنے سے منع کیا تھامگر میں نے کھیلوں پر کاشت کرکے زیادہ پیداوار لے کر ماہرین پر ثابت کیا تھا کہ کتاب کا علم ذہن تک ہے جب تک کسی بھی علم کو پانچوں حواس سے استعمال نہ کیا جائے اس کا فیض جاری نہیں ہوتا یعنی تجربہ علم پر حاوی ہے، دوسری وجہ یہ تھی کہ مجھے تھوڑا بہت بولنا آتا ہےبولنا بھی کیا کہ یہاں سچ بولا ہی نہیں جا سکتا آپ بس یوں سمجھیے کہ مجھے مجمع لگانا آتا ہے، اپنی تقریری زندگی میں میں نے محسوس کیا ہے کہ لوگ سچ سننا ہی نہیں چاہتے بلکہ باتوں کا تڑکا سننا چاہتے ہیں جسے تعلی یا مبالغہ کہا جا سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ زراعت کو اجاڑنے میں حکمرانوں کا بہت بڑا ہاتھ ہےجب ہم حکمران کی بات کرتے ہیں تو یاد رہے ایک سپاہی سے لے کر صدرِ پاکستان تک سب حکمران ہیں یعنی محکمہ زراعت کے فیلڈ اسسٹنٹ سے لے کر وزیراعظم پاکستان تک سب حکمران ہیں، یہ بات غالباً 2004 کی ہے جب پہلی بار کینولہ کاشت کیا گیا تھا ، اس کے بے شمار فائیدے ہوئے ، اکتوبر میں کاشت ہونے والی یہ فصل تین پانیوں کی فصل ہے اور بہت کم کھاد وغیرہ پر زیادہ آمدنی والی فصل ہے مجھے یاد ہے تب 2950 روپے یا 2850 روپے کے مجموعی ریٹ پر کینولہ فروخت کیا تھا ، کم دورانیے کی وجہ سے کپاس کی فصل کی کاشت بھی جلدی ہو جاتی تھی اگیتی کاشت کی وجہ سے کپاس کی فصل جو کینولہ کے کھیت کے بعد اسی رقبے میں لگائی جاتی تھی کی آمدنی بھی نسبتاً زیادہ ہوتی تھی، دیکھا دیکھی کینولہ دیگر کاشت کاروں نے بھی کاشت کرنا شروع کر دیا اور یوں ربیع اور خریف کی فصلیں زبردست منافع والی فصلیں بن گئیں پھر 2008 آیا مشرف صاحب گئے جمہوری حکومت آئی تب بھی یہ فصلیں لہلاتی ہوئی ہوتی تھیں2009 بہت شاندار رہا پیداوار کے حساب سے بھی اور نرخ کے حساب سے بھی ، مگر بعد میں کینولہ آہستہ آہستہ کم آمدنی والا ہوتا گیافی ایکڑ پیداوار کم ہوتی چلی گئی جسے موسم کے تغیر و تبدل کے سر تھوپ دیا جاتا رہاحتیٰ کہ 30 من فی ایکڑ پیداوار والا کینولہ 10 من تک رہ گیا اور ریٹ سکڑ کر 2200 تک آگیاجبکہ اسی دوران ڈیزل مہنگا ہوا بجلی مہنگی ہوئی ٹریکٹر مہنگا ہوا کھادیں مہنگی ہوئیں مارکیٹ میں ہر چیز مہنگی ہوئی مگر کینولہ ، کپاس ، آلو ، گنا وغیرہ پیداوار میں بھی کم ہوئے اور ریٹ بھی کم ہوئے، اب اس کا ذمے دار کون ہے مارکیٹ یا حکومت۔
ہمارے ہاں آج تک سورج مکھی ، کینولہ ، آلو اور بہت سی سبزیوں کے بیج امپورٹ کیے جاتے ہیں یعنی ہائبرڈ سیڈ ٹیکنالوجی نہ ہونے کے برابر ہے اور ہمارے امپورٹرز ملک سے زیادہ اپنی املاک سے مخلص ہیں جب کسی چیز کی ڈیمانڈ بڑھتی ہے تو اس میں ملاوٹ شروع ہو جاتی ہے یہی حال کینولہ کے بیج کے ساتھ بھی ہوا آئی سی آئی سے خریدا گیا بیج بھی اپنے اندر وہ طاقت نہیں رکھتا تھا جو کبھی ماضی میں پیداواری صلاحیت والا بیج ملتا تھا، کینولہ کی کاشت کا ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ بیج سفارش سے لینا پڑتا تھا ۔
آج وہاڑی میں آئی سی آئی نے کینولہ کی کاشت کی ورکشاپ کی تھی کینولہ جو 30 من فی ایکڑ پیداوار سے کم ہو کر 8 من فی ایکڑ تک رہ گیا ہے اور لوگوں نے کاشت کرنا چھوڑ دیا ہےاب نہ کوئی سفارش سے بیج حاصل کرتا ہے اور نہ کسی کے پاس کینولہ کے بعد کاشت ہونے والی کپاس کو کاشت کرنے کی ہمت ہے، کسان اپنی بھوک کے باعث بحریہ ٹاؤن اور ڈیفنس میں بننے والے گھروں کی اینٹیں ڈھو رہا ہے ، زرعی زمینیں اجڑ کر کالونیاں بن رہی ہیں اور رہی سہی مٹی اینٹوں کے کام آ رہی ہے ، اسوقت ہمارا ملک آب و ہوا کی آلودگی کا شکار ہے اور فصل نہ ہونے کی وجہ سے کسان اپنے رقبے میں لگے درخت بیچ رہے ہیں جو فرنیچر اور جلانے کے کام آ رہے ہیں ، بجلی کی کمی کے باعث بہت سے کارخانے لکڑی جلا کر چلائے جا رہے ہیں جس سے آلودگی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، آپ ملتان جائیں کبھی سینکڑوں ایکڑوں پر پھیلے آم کے باغات کٹ چکے ہیں اور ڈیفنس بن چکا ہے بہت اچھی رہائشی سوسائٹی ہے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے انمول تحفہ مگر وہ کس آب وہوا میں سانس لیں گے جو تب تک زہر سے بھر چکی ہوگی کیونکہ ہم سڑک چوڑی کرنے کے لیے درخت کاٹتے ہیں گھر بنانے کے لیے درخت کاٹتے ہیں ، فیکٹری چلانے کے لیے درخت کاٹتے ہیں درخت کیا کاٹے گویا اپنے سانس کاٹے۔
کچھ ایسی ہی تقریر میں نے کرنی تھی جسے نہ کرنے کا فیصلہ کر کے میں نے خود کو حکومت دوست ثابت کر دیا ہےکیونکہ حکومت نے کسان کے بارے پالیسیاں بنانے میں کبھی کسان کو تو شامل ہی نہیں کیا اب یہ مت کہیے گا کہ وزیرِ زراعت بھی کسان ہے وزیرِ زراعت تو اول آخر کسان ہے پر اس کا سیکرٹری کسان نہیں ہے اور کرنا سب کچھ سیکرٹری نے ہے، سیکرٹری جو کہ اصل میں وزیر کا جواب دہ ہے پر ہے نہیں، دیکھیے آپ سب کہتے ہیں طاقت کے زور پر ووٹ لیا جاتا ہے تو پھر ووٹ کی طاقت کیا بلا ہےیہ میں نہیں سمجھ سکا۔
کالم نگار سیاست درست کر رہے ہیں گویوں کی طرح راگ درباری ایجاد کر رہے ہیں تان سین نے تو شرط رکھی تھی کہ بادشاہ سلامت یہ راگ آپ کی فرمائش پر بنایا گیا ہے لہٰذا اسے آپ تخت سے اتر کر میرے پاس بیٹھ کر سنیں گےنئے تان سین اس شرط کے بغیر اونچی اور دھیمی سروں والے راگ اپنے اپنے حکمران کو سنا رہے ہیں اور بدلے میں سانس کٹتے جا رہے ہیں زراعت کا اجڑنا سانسوں کا اجڑنا ہے کیونکہ ہر پودا ہر درخت ہمیں آکسیجن دیتا ہےپودے ہو نہیں رہے اور درخت کٹ رہے ہیں
ندیم بھابھہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں