منگل، 19 ستمبر، 2017

سٹینیسلیو پیٹروف، جن کی بدولت دنیا تباہی سے بچ گئی، 77 برس کی عمر میں گزر گئے

Stanislav Petrov in later life  CREDIT - DAVID HOGSHOLT
ڈیلی ٹیلیگراف کی ایک رپورٹ کے مطابق رونالڈ اولیفینٹ لکھتے ہیں کہ سویت یونین کے جس سابق ملٹری افسر کے سر دنیا کو ، ایٹمی جنگ کے ہاتھوں تباہی سے بچانے کا سہرا ہے، اُس کا ستتر برس کی عمر میں انتقال ہو چکا ہے۔
سٹینیسلیو پیٹروف سوویت ایئر ڈیفنس میں ایک لیفٹیننٹ کرنل تھے، 26 ستمبر 1983ء کو  ان کی ڈیوٹی ابتدائی وارننگ سینٹر پر تھی جب ایک کمپیوٹر کی فنی خرابی کے باعث اطلاع موصول ہوئی کہ امریکا نے ملک پر میزائل داغ دیے ہیں۔ ان کا اس وقت اس وارننگ کو نظر انداز کر دینے کا فیصلہ دنیا کو نیوکلیئر تباہی سے بچا گیا۔
  کارل سکوماچر جنہوں نے پہلی بار اس کہانی کو عوامی سطح پر پیش کیا تھا ایک بیان میں کہتے ہیں کہ میں نے پیٹروف کو سالگرہ کی مبارک باد دینے کے لیے رابطہ کیا تو مجھے ان کی وفات کی خبر ملی، پیٹروف کے بیٹے ڈمٹری نے بتایا ک اس کے والد 19 مئی کو فوت ہو گئے تھے۔
پیٹروف سات ستمبر 1939ء کو والدی ووستوک میں پیدا ہوئے چھبیس ستمبر انیس صد تراسی کی رات وہ ماسکو کے قریب سوویت کی ابتدائی وارننگ سینٹر میں ڈیوٹی پر تھے جب کمپیوٹرز نے خبردار کیا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا نے پانچ نیوکلیئر میزائل سوویت یونین پر داغ دیے ہیں،1983ء میں اس غلط الارم کی وجہ سے دُنیا میں تیسری عالمی  (ایٹمی ) جنگ چھڑ سکتی تھی۔
مشین نے اشارہ دیا کہ یہ معلومات انتہائی یقینی تھی، پیٹروف نے یاد کرتے ہوئے کہا، دیوار پر جلی سرخ حروف لہرائے، ”آغاز“ جو اس امر کا اشارہ تھا میزائل سچ میں داغ دیے گئے ہیں۔ لیفٹیننٹ کرنل پیٹروف کے پاس
اس حملے کی وارننگ کو درست مان  کریملن کو بتانے یا سوویت کمانڈرز کو یہ بتانے کے لیے کہ سسٹم میں خرابی تھی میں سے کوئی ایک فیصلہ کرنے کے لیے صرف چند منٹ تھے۔یہ اندازہ لگاتے ہوئے کہ امریکی حملے میں تو سینکڑوں میزائل ہونے چاہئیں تھے، اُنہوں نے الارم کو کمپیوٹر کی غلطی مان لیا۔
لیفٹینینٹ کرنل پیٹروف  کا مؤقف اس وقت درست ثابت ہوگیا جب ایک درونِ خانہ کی تفتیش نے اس واقعہ کی چھان بین کرکے یہ نتیجہ نکالا کہ سوویت سیٹلائٹ بادلوں سے ٹکراتی ہوئی دھوپ کو غلطی سے راکٹ انجن سمجھ بیٹھے تھے۔
امریکی ایٹمی حملے کی صورت میں سوویت  کی جانب سے فوراً اینٹ کا جواب پتھر کے ساتھ دینے کی حکمت عملی کارفرما تھی جس کی صورت میں دونوں جانب سے مکمل تباہی مچانے میں برابر کی حصے داری ہوتی، بہرحال پیٹروف اپنے ساتھیوں میں  اس فیصلے کی وجہ سے معروف ہو گئے تھے۔ اُنہوں نے بعد میں شکایت کی کہ انہیں اس واقعے کو کاغذات میں درج نہ کرنے کی جو ناکامی ہوئی اُس کی وجہ سے ان کے سینئرز کی طرف سے ڈانٹ سُننا پڑی اور یہ الزام بھی سہنا پڑا کہ سسٹم کی خرابی کے بھی وہ خود ذمہ دار تھے۔
    وہ اگلے ہی برس آرمڈ فورسز سے ریٹائرڈ ہو کر ماسکو سے باہر چلے گئے۔ یہ واقعہ صرف 1998ء میں جنرل یوری وونٹِنسف جو کہ اُس وقت مسٹر پیٹروف کے سپروائزر تھے کی یاداشتوں کی اشاعت میں عوامی سطح پر لایا گیا۔
سن 2014ء میں دستاویزی فلم ”دی مین ہو سیوڈ دی ورلڈ، میں مسٹر پیٹروف نے کہا تھا،” اُس وقت جو بھی ہوا مجھے اُس کی کوئی پرواہ نہیں ۔ یہ میرا فرض تھا۔ میں تو محض اپنی ذمہ داری نبھا رہا تھا، اور  بات یہ ہے کہ میں درست وقت پر درست آدمی تھا“

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں