منگل، 12 جولائی، 2016

فرحت عباس شاہ

میں گزشتہ ہفتوں سے فرحت عباس شاہ کے بارے میں کچھ لکھنے کا سوچ رہا تھا لیکن سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا لکھوں! کیونکہ اُن کی شاعری کو باقاعدہ میں نے پڑھا نہیں تھا دو چار غزلیں پڑھ لینے سے ہم کسی شاعر کو نہیں پڑھ لیتے، میں اپنے دوستوں میں اکثر فرحت عباس شاہ کا ذکر کرتا رہتا ہوں، وہ بھی بھلے لوگ ہیں ورنہ کبھی پوچھ سکتے تھے کہ تُو شاہ صاحب کو کتنا جانتا ہے۔
شاید میرا پہلا تعارف سن 2005ء کے لگ بھگ مست ایف ایم 103 لاہور (ون او تھری) کے ایک پروگرام سے ”شہزادہ وریام“ نامی کردار سے ہوا۔
”ہی ہی ہی!!! میں شہزادہ وریام بولیندا پیاں، میں پی ایچ ڈی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ڈگریاں) کیتا ہویا اے“
اس پروگرام میں شاہ صاحب کا اپنا کلام بھی پیش کیا جاتا رہا جیسا کہ، ”یاداں جھنگ دیاں“ اور ”عشق بنایا پیر اساں“ وغیرہ۔
چونکہ یہ ایک پنجابی پروگرام تھا اس لیے اس میں پنجابی نشر ہوتی تھی ایف ایم 103 کا یہ خاصہ تھا کہ اُردو پروگرام میں سب باتیں اردو زبان میں اور پنجابی پروگرام میں اِسی زبان کا کلام وغیرہ
ہمارے گھر میں بڑے سے ریڈیو سیٹ پر یہی ریڈیو سٹیشن اکثر چلتا تھا باقی سٹیشنز کو کم ہی سُنا جاتا۔
میری عمر اُس وقت انیس برس تھی ایک دن میں سائیکل پر ایف ایم 103 کے دفتر (ایل۔ڈی۔اے پلازہ ایجرٹن روڈ) چلا گیا وہاں کوئی صاحب ”استقبالیہ“ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں اُنہیں کہ کر آیا کہ شہزادہ وریام کے پروگرام کے لیے میری یہ فرمائش ہے یہ ضرور ان تک پہنچا دینا، انہوں نے پرچی پر لکھ کر رکھ لیا۔ یہ غالباً 22 مئی 2005ء کا دن تھا۔ شام چھ سے آٹھ بجے تک ”شہزادہ وریام“ کا پروگرام ہوتا اس شام کو جب پروگرام شروع ہوا تو وریام صاحب نے کہا،
”اج میں سائیکُل تے آیاں، تے میرے کول ہیلمُٹ ای کائی نئیں ہائی“ یہ اُس دور کی بات ہے جب لاہور میں موٹر سائیکل کے ڈرائیور پر ”ہیلمٹ“ فرض قرار دیا جا چکا تھا۔ بہرحال میری فرمائش پر عمل نہ ہوا تو میں نے سات بجے پھر سائیکل نکالی اور کئی کلومیٹر سفر کرکے پھر ریڈیو کے دفتر پہنچا
اس سفر میں میرے ساتھ سائیکل پر میرا حفظ کا ہم جماعت، دوست ”افسر شاہ“ بھی تھا۔ ہم دونوں آٹھ بجے وہاں پہنچے۔ وہاں نیچے (گراؤنڈ فلور پر) اکثر دفتر بند ہوچکے تھے۔ پوچھنے پر سکیورٹی گارڈ نے بتایا کہ وریام صاحب ابھی اِدھر سے باہر نہیں گئے، ان کے پروگرام کا وقت مکمل ہوچکا ہے شاید پچھلے راستے سے جا چکے ہوں۔ آپ اُوپر تھرڈ فلور پر جا کر چیک کر لیں۔
ہم استقبالیہ میں گئے تو ”استقبالیہ“ سے پتہ چلا وہ سامنے جو صاحب ٹیلیفون پر بات کر رہے ہیں وہی ”شہزادہ وریام“ صاحب ہیں۔
ان کا انتظار کیا، وہ لال سے رنگ کی شرٹ اور کریم کلر کی ڈریس ٹائپ پینٹ میں ملبوس تھے، وہ دروازے پر آئے تو سلام دعا کے بعد عقبی راستے سے سیڑھیاں اتر کر ایجرٹن روڈ والے فرنٹ کی طرف آگئے، وہاں اُن کی سوزوکی مہران کھڑی تھی جس کا نمبر بھی مجھے آج تک یاد ہے۔
جب تعارف ہوا تو انہوں نے اپنا نام ”فرحت عباس شاہ“ بتایا میرے دوست ”افسر شاہ“ کے بارے میں یہ جان کر کہ وہ ایک سید ہے فرحت صاحب فرطِ جذبات میں آگئے، افسر شاہ کا احترام کیا اور اُس  کے ماتھے کو بوسہ دیا۔
میں نے کہا کہ آپ کے پاس تو کار ہے، جبکہ آپ ریڈیو پر کہ رہے تھے کہ میں سائیکل پر آیا ہوں
تو شاہ صاحب نے جواب دیا، ”غریباں دی گالھ ہُن میں نئیں کرنی، تے کَینہہ کرنی اے؟“۔ ان کے پاس موبائل فون بھی تھا لیکن میں نے ان سے اس کا نمبر نہ لیا کیونکہ میرے پاس ان دنوں موبائل نہیں تھا یا شاید میں نے خود کو اس قابل ہی نہ سمجھا ہوگا کہ ایک ”سٹار“ کا پرسنل نمبر مانگوں۔
بہرحال اب گیارہ سالوں کے بعد میں نے ان کا موبائل نمبر کہیں سے حاصل کیا ہے اور ایک بار ایک منٹ کی بات بھی کی۔
گزشتہ کئی سالوں سے انہیں مختلف ”میڈیائی“ ذرائع سے دیکھا اور سُنا ہے بہرحال میرے لیے وہ ہمارے دور کا ایک عظیم بندہ ہے، ہماری روایت ہے کہ ہمیں کسی عظیم شخصیت کے مرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اچھا! یہ بندہ اتنی کتابوں کا مصنف تھا؟ اوہ! یہ تو فلاں فلاں شعبے میں بھی کارنامہ ہائے سرانجام دے رہا تھا۔ یاں یار! وہ تو ایک ”بڑا بندہ“ تھا۔ ہم کسی شخصیت کے مرجانے کے بعد اس کے گیت گاتے ہیں، اُس کے کام کی حقیقی قدر شاید تب بھی نہیں کرتے۔
یہاں میں فرحت عباس شاہ صاحب کی زندگی کے مختلف النوع پہلوؤں کو بیان نہیں کروں گا اگر کسی کو تمنا ہوگی تو چند منٹ کی ”گوگلنگ“ کے بعد شاید پتہ چل جائے ورنہ اپنی دُنیا میں مگن رہے۔
شاہ صاحب کے ایک شعر پر ختم کرتا ہوں
؎ جس طرح شہر سے، نکلا ہوں میں بیمار تِرا
یہ اُجڑنا ہے، کوئی نقل مکانی تو نہیں
عبدالرزاق قادری